گذشتہ ماہ عید الاضحیٰ سے تین روز پہلے پشاور کورٹ میں ایک نوعمر لڑکے فیصل خالد نے توہین رسالت کے مرتکب طاہر نسیم کا ماورائے عدالت قتل کیا تو رائے عامہ واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی ۔ پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو معتدل سوچ اور زمینی حقائق پر یقین رکھتے ہیں اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں ان کی اکثریت اعلا تعلیم یافتہ ہے اور تقریباً تمام ہی مکتبہء فکر کے جید علمائے کرام بھی ان میں شامل ہیں کوئی ایک بھی اس فعل کی حمایت نہیں کرتا ۔ اور دوسرے گروہ کی اکثریت سوشل میڈیا پر سرگرم ہے یہ زیادہ تر جذباتی اور جوشیلے نوجوانوں پر مشتمل ہے وہ عدلیہ کے تاخیری حربوں اور مایوس کن کارکردگی کے باعث اس نظریئے پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر قاضی اپنے قلم سے کام نہ لے تو کوئی غازی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ پھر اسی سوچ کے اسیر کسی غریب غازی کی قربانی پوری قوم کو سرخرو کر دیتی ہے ۔
فیصل خالد کے اقدام نے ممتاز قادری کی یاد تازہ کر دی ہے اور ممتاز قادری نے علم دین کی یاد تازہ کر دی تھی ۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں ہی غریب تھے علم دین ان پڑھ اور ممتاز قادری واجبی سا پڑھا لکھا تھا ۔ دونوں میں ایک عجیب مماثلت نظر آتی ہے دونوں ہی کو معاملے کی تفصیلات یا جزئیات کا علم نہیں تھا وہ قانونی پیچیدگیوں ان کی باریکیوں اور آئینی شقوں وغیرہ سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے تھے ۔ مولویوں کی دھؤاں دھار و شعلہ بار تقریریں سن کر انہیں پتہ چلا تھا کہ شان رسول میں گستاخی کی گئی ہے اور ایک سچے عاشق رسول کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہوتا ہے ۔ علم دین نے متنازعہ کتاب کے مصنف کی بجائے اس کے ناشر کو قتل کیا اور ممتاز قادری نے آسیہ بی بی تک رسائی نا ہونے کے باعث سلمان تاثیر کو موت کے گھاٹ اتارا پھر دونوں ہی مرد مجاہد چند مٹھی بھر ناہنجاروں کو چھوڑ کر پوری امہ کی آنکھ کا تارا بنے ۔ پھر اس کے بعد کیا ہؤا؟ پھانسی کی سزا سن کر دونوں ہی نے اپنے فعل کا دفاع ایسے کیا کہ علم دین نے وقوعے کی صحت سے انکار کیا اور ممتاز قادری نے اپنے اقدام پر ندامت کا اظہار کیا اور دونوں ہی معافی کے خواستگار ہوئے جو انہیں نہیں ملی اور دونوں کو تختہء دار پر چڑھنا پڑا مگر وہ تاریخ میں ایک ہیرو کے طور پر اپنا نام لکھوا گئے اس وقت نا مرتے تو بعد میں مر جاتے مگر جو موت انہیں ملی اس نے انہیں آج تک زندہ رکھا ہؤا ہے ۔
فیصل خالد والے معاملے کو محاورةً نہیں حقیقتاً ابھی جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہیں ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے دیکھیں اس بار کون سی تاریخ رقم ہوتی ہے؟ علم دین اٹھارہ برس کا تھا اور اس بچے کی عمر پندرہ برس بتائی جا رہی ہے ، اگر نہیں بھی تو یہ بھی حد میں حد اٹھارہ برس ہی کا ہو گا ۔ سیدھا سادہ معصوم سا کھلنڈرا سا نوعمر لڑکا ۔ ابھی اس کے کھیلنے کھانے پڑھنے لکھنے کے دن تھے مگر اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر وہ کام کر دکھایا جو کرسیء عدالت پر بیٹھا قاضی دو سال میں بھی نہیں کر سکا تھا ۔ تاہم اس عرصے کے دوران جتنی بھی کارروائی ہو چکی تھی لڑکے نے اسے لمحہ بھر میں سبوتاژ کر دیا ۔ ایک ذہنی معذور نابکار کی طرف سے ختم نبوت کا انکار اور تکذیب رسول کا ایک سیدھا سادہ بالکل واضح مقدمہ دو سالوں سے لٹکا ہؤا تھا اور منبر پر بیٹھے ہوئے مولوی کا بھی سارا زور بیان صرف کنوئیں سے پانی نکالنے پر ، اس میں پڑا ہؤا کتا باہر نکالنے پر نہیں ۔ ایک عام آدمی کے لیے گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنے کا سبق مگر اس فتنے کی سرکوبی کا کسی میں دم نہیں ۔
عدالتی نظام سست اور غیر مؤثر ہونے کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ منبر و محراب سے عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر اکسایا جائے اور اسے ایک قابل تحسین اقدام کے طور پر متصور کرایا جائے کسی گستاخ رسالت کے ماورائے عدالت قتل کو سعادت کے طور پر متعارف کرایا جائے ۔ پھر کوئی غریب سادہ لوح ہی قربانی کا بکرا کیوں بنتا ہے فتوے صادر کرنے والوں کا اپنا بیٹا کیوں نہیں؟ جنت کا جھانسہ اور پھانسی کا پھندا کسی غریب ہی کے بچے کے گلے کیوں پڑتا ہے؟ بازی لے جانے کا ٹھیکہ اسی نے کیوں اٹھایا ہوتا ہے؟ ایک پندرہ سال کے بچے کا ایسا اقدام جس کا اچھے اچھوں میں دم نہیں ہوتا جیل کی چکی سامنے نظر آتی ہے تو سب کس بل نکل جاتے ہیں معاملے سے لاتعلقی کا بیان حلفی تک داخل کرا دیتے ہیں ، تو اس عمر میں جبکہ دینی و دنیاوی کوئی سی بھی تعلیم مکمل نہیں ہوتی تو وہ عشق کے امتحان کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ ایک نوخیز و ناپختہ ذہن کے پاس جنت کمانے کا واحد آپشن یہی ہوتا ہے کہ کسی گستاخ رسول کو ٹھکانے لگا دے اپنی آخرت پکی کرنے کی کوئی اور تدبیر اسے سجھائی ہی نہیں جاتی ۔
|