جغرافیائی طور پر دیکھا جائیتو استنبول ترکی کا وہ
واحدشہر ہے جو ایشیاء کو یورپ سے ملاتا ہے اور استنبول کو اسمیں مرکزی
حیثیت حاصل ہے۔پندرہ سو سال قبل 532 ء میں آیا صوفیہ نامی کلیسا مشرقی رومی
سلطنت کے بازنطینی بادشاہ جسٹنین اول کے کہنے پر سلطنت کیدارالحکومت
قسطنطنیہ میں تعمیر کیا گیا۔۔ یہ کلیسا 537 ء میں مکمل ہوا جو تعمیرات کی
دنیا میں اپنی مثال آپ ہے اور تعمیراتی نقطہ نگاہ سے انتہائی جازب نظر اور
محیر العقول طور پر قابل ذکر عمارت ہے۔
آیا صوفیہ مسیحیوں کے گروہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا، اس چرچ کا
سربراہ جو بطریرک یا ''پیٹریارک'' کہلاتا تھا، اور اسی میں مقیم تھا، لہذا
نصف مسیحی دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادتگاہ سمجھا کرتی
تھی۔ازنطینی حکمران جو آرتھوڈوکس کے پیرو کار تھے انہوں نے اس عمارت کو
آرتھوڈوکس کا مرکز بنا لیا اور اس عمارت کے اندر ریاستی امور نمٹائے جاتے
تھے۔ اعلی سطحی اجلاس بھی اسی عمارت میں منعقد ہوتے تھے، مذہی رسومات کے
ساتھ ساتھ ثقافتی اور عیسائی روایات کا مرکز بھی رہا۔ آیا صوفیہ کی عمارت
تاج پوشی سے لیکر شادی کی تقریبات کا محور رہی۔ آیا صوفیہ کیوجہ
سیآرتھوڈوکس اور کیھتولک کے درمیان رسہ کشی جاری رہی آخرکار تیرھویں صدی
عیسوی میں کیھتولک قابض ہوگئے۔ کیھتولک کیونکہ مذہبی جنونیت کیحامل تھے، ان
کے اندر شدت پسندی کا عنصر غالب تھا حتی کہ کئی سوسال تک مذہب کی بنیاد پر
انسانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے رہے، خون کی ندیاں بہائیں، ہر طرف خوف و
ہراس کا غلبہ رہا۔ کیھتولک کیونکہ بہت ذیادہ مذہبی تھے جو انتہائی متشددا
رویہ رکھتے تھے۔اسطرح آیا صوفیہ انہین کے قبضے میں رہا۔
1453ء میں جب سلطنت عثمانیہ کی فوج کا قسطنطنیہ پر قبضہ ہواتوسلطنت عثمانیہ
کے سلطان محمد دوئم نے اسکا نام قسطنطنیہ سے بدل کر استنبول رکھ دیا اور
چھٹی صدی کا ایک فن تعمیرات کا شاہکار آیا صوفیہ بازنطینی باسیلیکا کو ایک
مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481
سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔
جب 1453ء میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اور
بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ
عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت
پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی
کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں،
پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں
کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس
گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلیٰ
کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔ یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے
تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے
قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا
اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا
جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی
آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے
نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع
عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان
محمد فاتح اندر داخل ہوا، اور سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت
دی۔لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفٰی کمال اتاترک ترکی کا
سربراہ بنا، تو اس نے، مسجد میں نماز بند کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔۔
ترکی کے اندر جو مذہبی طبقہ ہے ہمیشہ اس کا مطالبہ رہا کہ آیا صوفیہ کی
عمارت کو مسجد کی حیثیت میں بحال کیا جائے۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب
اردگان نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ آیا صوفیہ کی خلافت عثمانیہ
والی حیثیت بحال کروں گا۔
31 مئی 2014ء کو ترکی میں ''نوجوانان اناطولیہ'' نامی ایک تنظیم نے مسجد کے
میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے
پر مبنی تھی۔اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے تائیدی
دستخطوں کو جمع کر لیا ہے۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا
تھا کہ ابھی آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اسطرح 10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے آیا صوفیہ کو مسجد میں
تبدیل کرنے کی قرارداد کو منظوری دی اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے
سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کیا۔بعد ازاں ترکی کے صدر رجب طیب
اردوغان نے آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دیے۔ رجب طیب
اردوغان کی قیادت والی حکومت نے مذہبی شدت پسندی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ شدت
پسندی کسی بھی طرح کی ہو عوام اور سماج کے لئے تباہی ہی لاتی ہے۔ جس دور
میں آپسی بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی، قوم کے
لئے ترقی اور تعلیم کے نئے راستہ کھولنے کی ضرورت تھی ایسا اقداماٹھایا گیا
جس سے عرالمی طور پر نقصان کا پٌہلو نکلتا ہے۔
اس سلسلے میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ترجمان ولادیمیر لیگوئیڈا نے روسی خبر
رساں ایجنسی انٹرفیکس کے تبصرے میں کہا، ''لاکھوں عیسائیوں کی تشویش نہیں
سنی گئی ہے۔''آج کے عدالتی فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں
انتہائی نزاکت کی ضرورت کے تمام مطالبات کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔''
تحقیق و تحریر: سید انیس احمد بخاری
|