پاکستان نیول ایر اسٹیشن پر حملہ

طالبان اور القاعدہ کا گڑھ سمجھے جانے والے قبائلی سرحدی خطے سے کوئی ایک ہزار کلو میٹر دور پاکستان بحریہ کے مستقر ’پاک نیول ایر اسٹیشن مہران‘(پی این ایس) پر 22 مئی کی شب طالبانی حملہ2مئی کی رات ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور پاکستانی افواج کی نااہلی، نالائقی اور تساہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ایبٹ آباد آپریشن کا پتہ تو پاکستانی حکام کو اس وقت چلا جب امریکی ہیلی کاپٹر اپنی کاروائی پوری کر کے افغانستان کی سرحد میں واپس چلے گئے۔ کہا یہ گیا کہ جدید قسم کے یہ ہیلی کاپٹر رڈار پر نظر نہیں آئے اور رات کی تاریکی میں اعلا آلات کے سہارے پہاڑی وادیوں میں نیچے اڑان بھرتے ہوئے آئے اور واپس چلے گئے۔ اس لئے ان کا پتہ نہیں چل سکا۔ اگرچہ شب و روز ڈرون میزائلوں کو نشانہ بننے والے پاکستان کے لئے یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ افغانستان سے متصل اس کی سرحد پر فوج اس قدر بے خبر سوتی ہے، تاہم یہ باور کرنے کی گنجائش تھی کہ حملہ آور ہیلی کاپٹرس کو یہ کامیابی اعلا ٹکنالوجی کی بدولت ممکن ہو سکی ۔ لیکن کیا تحریک طالبان پاکستان کے اس حملے کی ایسی ہی کوئی لنگڑی لولی وضاحت آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کے لئے ممکن ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ یہ دونوں ناکامیاں پاکستانی سول حکومت کے نہیں بلکہ فوج ، آئی ایس آئی اور اس کے محملہ خفیہ کے کھاتے میں جاتی ہیں، جس پر قومی بجٹ کا ایک خطیر حصہ خرچ ہوتا ہے۔ فوج کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے قومی ضرورت کی ترقیاتی منصوبوں حتیٰ کہ شعبہ تعلیم تک کی ضروریات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

مہران نیول ایر اسٹیشن پر اس حملے میں یہ بات اہم نہیں کہ دس یا گیارہ پاکستانی فوجی مارے گئے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ بھاری اسلحہ سے لیس ایک دو نہیں بلکہ کم از کم چھ حملہ آور پی این ایس پہنچ گئے ۔( طالبان کے ذرائع کے مطابق اس کاروائی میں 15 جنگجوﺅں نے حصہ لیا، جبکہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق ان کی تعدادتقریباً 20تھی) انہوں نے خار دار دار تاروں کی حفاظتی باڑھ کو کاٹ ڈالااور سیڑھیوں کی مدد سے انتہائی اہم اور حساس پی این ایس کی بلند چار دیواری کو پھلاند کر اندر داخل ہوگئے۔ (ظاہر ہے سیڑھیاں بھی وہ اپنے ساتھ لائے تھے) اندر داخل ہوکر وہ تقریباً دو کلومیٹر فاصلے پراندر کھڑے ہوئے طیاروں تک پہنچ گئے اوربم دھماکوں سے دو ’پی تھری سی اوریون‘ (P-3C Orion) طیاروں کو تباہ کردیا۔ ایراسٹیشن کے عملے کوان کی موجودگی کا پتہ تب چلا جب بم دھماکو ں کی آواز سے سارا علاقہ گونج اٹھا اور تباہ شدہ طیاروںسے شعلے بلند ہونے لگے۔اربوں ڈالر کے یہ طیارے پاکستانی بحریہ کا اہم اثاثہ تھے جو سمند ر میں آب دوزوں اور دیگر جہازوں کی آمد و رفت پر نظر رکھتے تھے۔ امریکا نے یہ اس لئے فراہم کئے تھے تاکہ افغانستان میں ناٹو کےلئے رسد لانے والے بحریہ کے جہازوں کو کوئی گزند نہ پہنچانے پائے۔ اس کاروائی کے بعد حملہ آوروںنے ایک عمارت پر قبضہ کرلیا اور اگلے 16گھنٹے تک کمانڈوز کا مقابلہ کرتے رہے۔ بحریہ کے سربرا ہ نعمان بشیر نے کاروائی ختم ہونے کے بعد اطلاع دی کہ چار حملہ آوروں کی لاشیں ملی ہیں جب کہ غالباً دو فرار ہوگئے۔ بحریہ کے ترجمان عرفان الحق نے بتایا کہ نیوی کے ہیلی کاپٹر برابر چکر لگاتے رہے اور ٹریفک کنٹرول ٹاور پر نشانے باز تعینات کئے گئے۔ انہوں نے کہا ”خداکا شکر ہے کہ اسٹیشن حملہ آوروں سے پاک ہوگیا اور آپریشن مکمل ہوگیا۔“

چلئے آپریشن تو مکمل ہوگیا مگر اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ یہ حملہ آور راکٹ لانچر، خود کار اسلحہ اور گولا بارود کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے زیر اثر کسی سرحدی اڈے سے آئے تھے یا طالبان پاکستان نے سندھ میں بھی اپنے قدم جمالئے ہیں اور کراچی یا اس سے متصل کسی مقام پر اپنا محفوظ اڈابنا لیا ہے؟یا پھر کچھ مقامی جنگجو گروپ ان کے ساتھ مل گئے ہیں اور ضروری سہولتیں فراہم کررہے ہیں؟ ایک خبر ڈان ٹی وی نیٹ ورک پر یہ آئی ہے لشکر جھنگوی سے طالبان کی سانٹھ گانٹھ کا سراغ ملا ہے۔حالانکہ مسلکی اختلاف کے باعث اس کا امکان نظر نہیں آتا۔بہر حال جو بھی صورت ہو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اور خصوصاً آئی ایس آئی اس تمام صورتحال سے با خبر ہیں یا بیخبر؟ سرحدی علاقے سے مہران تک کا طویل فاصلہ حملہ آوروںنے اسلحہ کے ساتھ کس طرح طے کیا اور انتہائی حساس خطہ ہونے کے باوجود کراچی تک کے اس سفر کے دوران وہ کسی چیک پوسٹ پر پکڑے کیوں نہیں گئے؟

یہ کاروائی رات ساڑھے دس بجے شروع ہوئی اور دوسری دن دوپہر ڈھائی بجے تک چلی۔جوابی کاروائی شروع ہوتے ہی سینکڑوں کمانڈوز نے اس پورے خطے کو گھیر لیا تھا۔ہیلی کاپٹر بھی گشت لگا رہے تھے۔ ایسی صورت میں کم از کم دو حملہ آوروں کا بچ نکلنا کیا بغیر داخلی اور مقامی مدد کے ممکن ہے؟ اس کاروائی سے ایک بات یہ صاف ہوگئی کہ سرکاری خفیہ نظام اور پی این ایس کا حفاظتی نظام قطعاً ناکام ہوگئے جب کہ تحریک طالبان پاکستان کی سراغرسانی کا نظام انتہائی چوکس ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ کس راستہ سے پی این ایس کمپاﺅنڈ تک پہنچنا ممکن ہے اور کس سمت سے اندر داخل ہوا جاسکتا ہے؟ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ میلوں میں پھیلے ہوئے احاطہ میں ’اوریون ‘طیارے کس مقام پر کھڑے ہیں اوررات کی تاریکی میں ان تک کیسے پہنچا جائے؟ کیا یہ ساری معلومات فوج کے داخلی اور باخبر عناصر کی شرکت کے بغیر ممکن ہے؟ پاکستان کے دہشت گرد عناصر نے 26 اور28اپریل کو پاکستانی بحریہ کی بسوں پر حملے کرکے مطلع کردیا تھا کہ اب ان کا نشانہ پاکستانی بحریہ ہے۔اس کے اسباب کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔

تحریک طالبان پاکستان دسمبر 2007 میں بیت اللہ محسود کی سربراہی میںوجود میں آئی ۔ اس وقت اس کے دو مقاصد بیان کئے گئے تھے، پاکستان میں نظام شریعت کا قیام اور افغانستان میں ناٹو افواج کا مقابلہ۔ اگرچہ محسود 5 اگست 2009 کو ایک حملے میں مارے گئے مگر یہ تحریک روبروز مضبوط ہوتی رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل، اسلام آباد کی لال مسجد کا واقعہ جس میں 105افراد جان بحق ہوئے، 30 مارچ 2009کو لاہور میں پولیس اکیڈمی پر حملہ جو 8گھنٹہ جاری رہا، 13مئی کو صوبہ سرحد کے ضلع چار سدہ میں پیرا ملٹری اکیڈمی پر حملہ جس میں 120 کیڈٹ جا ن بحق ہوئے، اور پیشاور میں 20مئی کو امریکی سفارتکاروں پر حملہ وغیرہ اور اب یہ مہران کا حملہ اسی تحریک طالبان پاکستان کی کاروائی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کون ان کو اتنے فنڈ فراہم کررہا ہے کون ایسی تربیت اور سپورٹ فراہم کررہا ہے جس کے بل بوتے یہ عناصر نہ صرف پاکستان کی سول حکومت کو بلکہ فوج کو بھی زچ دینے لگے ہیں؟ جو خطہ اس تحریک کا مرکز کہاجاتا ہے ، جس کو امریکا اپنے ڈرون میزائلوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس میں داخلی ذرائع ایسے نہیں کہ اتنے مالی وسائل فراہم ہو سکیں اورنہ وہاں ایسے تربیت دینے والے ماہرین دستیاب ہوسکتے ہیں۔ پھر کون ہے جواس تحریک کے پس پشت ہے اور کس کے مفادات کی اس کے ذریعہ تکمیل ہورہی ہے جس کےلئے آج پورے پاکستان کو میدان جنگ میںبدل دیا گیا ہے؟ان کاروائیوں سے تحریک کے اعلان شدہ دونوں مقاصد میںسے کسی ایک کی بھی راہ ہموار ہوتی نظر نہیں آتی۔گزشتہ چند ماہ سے، خصوصاً ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان میں جو صورت ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ داخلی یا مدنی جنگ کی ہے۔یہ جنگ بالکل ایسی ہے جیسی عراق ، افغانستان، لیبیا ، یمن، بحرین ، تیونس، مصر اور شام کے گلی کوچوں میں لڑی جارہی ہے۔ان جنگوں کا مقصد کیا ہے ،یہ دنیا میں کس کی استعماریت ، کس کی بالادستی قائم کرنے کےلئے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ساری جنگیںمختلف عنوانات سے اسی امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کی مقاصد کی تکمیل کےلئے ہیں جس پاکستان 1948 سے اپنا مہربان دوست قراردیتا ہے۔افغانستان میں روسیوں کے خلاف امریکی مہم میں شمولیت اختیار کرکے اس نے گویا روس کے ساتھ اپنے رشتوں کو منقطع کرلیاتھا اور امریکا پر کلی انحصار کی غلط حکمت عملی پر انحصار کرلیا تھا۔ اب وہ ایک دوسری غلطی کرنے پر آمادہ نظر آتاہے۔ ایک دوسری بڑی طاقت پر کلی انحصار۔پاکستان کے پالیسی ساز شاید یہ بھول گئے بین اقوامی رشتوں میں دوستی نہیں مفادات اصل بنیاد ہوتے ہیں۔ یہ مفادات صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی اور حربی بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں تو دوستی کا مطلب کچھ نہیں ہوتا۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنی معیشت، صنعت اور تجارت کو مستحکم کرنے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار ، بڑی طاقتوں کے درمیان غیر جانبدار رہنے کے بجائے ایک طاقت پر انحصار کی پالیسی پاکستان کےلئے تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔پاکستان کی افرادی طاقت جاپان، کوریا، تائیوان اور جرمنی سے کم نہیں۔ پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑا کیوں نہیں ہوسکتا۔ کاش بیرونی امداد، جنگ کا جنون اور پڑوسیوں کو نیچا دکھانے کی پالیسی پاکستان کونہ لے ڈوبی ہوتی۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال پر ایک پہلو سے اور غور کرنا چاہئے۔ افغانستان پر امریکاکے حملے اور اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کے بعد اس کےلئے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور امریکا کا ساتھ دینے کے باوجود شکررنجیاں بڑھی ہیں۔ پاکستان ایک نیوکلیائی ملک ہے۔ اگر طالبان نے اپنے قیام کے چار سال کے اندر اس قدر رسائی اور صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ بحریہ کے اڈے کو بھی یرغمال بنالے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے وہ نیوکلیائی ایندھن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا جس کو ’ڈرٹی بم‘کے طور پراستعمال کرنا آسان کام ہے۔ اندازہ کیجئے کہ ایک تولہ جوہری مواد اگر کسی دریا کے دہانے میں ڈالدیا جائے تو اس سے کیسی بھیانک تبائی پھیلے گی؟ اب پاکستان لاکھ کہتا رہے کہ اس کی نیوکلیائی تنصیبات محفوظ ہیں، لیکن کل کو اگر امریکا سلامتی کونسل میں اس اندیشے کو لیکر پہنچ جائے اور مطالبہ کرے کہ پاکستان کے نیوکلیائی اثاثوں کو ’بین اقوامی نگرانی‘ میں لینے کے لئے کاروائی کی اجازت دی جائے تو کیا اس کو اسی طرح یہ اجازت نہیں مل جائے گی، جس طرح لیبیا پر ’نو فلائی زون‘ کے قیام کے عنوان سے مل گئی ہے اور جس کوبہانا بناکر اسے تباہ و برباد کیا جارہاہے؟

پاکستان میں جنگجوﺅں کے کئی گروپ سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان فوج ان میں بعض کو اثاثہ تصور کرتی ہے۔ مثلاً وہ گروپ جو کشمیر میں یا افغانستان میں سرگرم رہے ہیں۔ ان کی سرکوبی پر وہ آمادہ نہیں ۔ لیکن تحریک طالبان اور اسی طرح کے جو دوسرے گروپ پاکستان میں خون خرابے میں مصروف ہیں ان کے خلاف جبراً و قہراًکاروائی کرتا ہے مگر ادھوری ۔ ہمارا عندیہ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک لازمی عفریت ہے۔ کسی ہدف کو حاصل کرنے کےلئے اس کا استعمال ایک خطرناک نظریہ ہے جس کو ترک کرنا ہوگا۔ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے بلاوجہ اس کا رخ ہندستان دشمنی کی طرف موڑنا چاہا اور امریکا کو بھی یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر اس نے ڈرون حملے بند نہیں کئے تو پاکستان کاروائی کریگا۔پاکستانی میڈیا میں بھی ہند کے خلاف مہم بازی ہوتی ہے اور بلا ادنا شہادت اس طرح کے حملوں میں ملوث کرنے کی بیہودہ کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کے گمراہ کن پروپگنڈے سے پاکستان کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ مسٹر پاشا کے یہ دونوں بیانات سفارتی نقطہ نظر سے دانشمندانہ نہیں ہیں۔ ہندستان نے روز اول ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اس کا کوئی ارادہ ایبٹ آباد جیسے حملے کرنے کا نہیں ہے ۔ صدر امریکا او بامہ نے یہ جواب دیدیا ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو امریکا پھر ایسے ہی حملے کریگا۔بہر حال 2 مئی کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے بد بخانہ حملوں سے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے بڑبولے پن کی قلعی کھل گئی ہے۔اب پاکستان کےلئے بہتر راہ یہی ہے اور وہ بشمول افغانستان اپنے پڑوسیوں کے معاملات میں دلچسپی پر قابو پائے اور خود اپنے وجود کی بقا کےلئے اپنی صنعت وتجارت پر توجہ مرکوز کرے تاکہ بیرونی انحصار ختم ہو۔ہندستان کی قیادت بار بار یہ واضح کرچکی ہے کہ ایک مستحکم پاکستان ہی ہندستان کے حق میں اور اسی کے لئے وہ کوشاں بھی ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.