بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیۡمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
۱۔القرآن۔۔۔۔۔
اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ
یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ
حَذَرَالۡمَوۡتِ ؕ وَاللہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾
یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (ف
۲۶) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب موت کے ڈر سے (ف ۲۷)
اور اللّٰہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے (ف۲۸)
تشریح و تفسیر۔۔۔
جیسے اندھیری رات میں کالی گھٹا چھائی ہو اور بجلی کی گرج و چمک جنگل میں
مسافر کو حیران کرتی ہو اور وہ کڑک کی وحشت ناک آواز سے باندیشۂ ہلاک
کانوں میں انگلیاں ٹھونستا ہو ، ایسے ہی کُفّار قرآنِ پاک کے سننے سے کان
بند کرتے ہیں اور انہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کے دلنشین مضامین
اسلام و ایمان کی طرف مائل کر کے باپ دادا کا کُفری دین ترک نہ کرا دیں جو
ان کے نزدیک موت کے برابر ہے ۔
پار۰ ۱ ۔ البقرة آیت ۱۹
۱۔القرآن۔۔۔۔۔
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہَ
جَہۡرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنۡتُمْ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۵۵﴾
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک اعلانیہ
خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے
ثُمَّ بَعَثْنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ
﴿۵۶﴾
پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو
پار۰ ۱ ۔ البقرة آیت ۵۶
تشریح و تفسیر۔۔۔
جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارہ میں اپنی جانیں دے دیں تو اللہ
تعالٰٰی نے حکم فرمایا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام انہیں گو سالہ پرستی کی
عذر خواہی کے لئے حاضر لائیں حضرت ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے طور پر لے
گئے وہاں وہ کہنے لگے اے موسٰی ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو
علانیہ نہ دیکھ لیں اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ
مر گئے حضرت موسٰی علیہ السلام نے بتضرع عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا
جواب دوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعد دیگرے زندہ فرما دیا
مسئلہ: اس سے شان انبیاء معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے ''
لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ '' کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کیے گئے حضور سید
عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انبیاء
کی جناب میں ترک ادب غضب الٰہی کا باعث ہوتا ہے اس سے ڈرتے رہیں مسئلہ: یہ
بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبولان بارگاہ کی دعا سے مردے زندہ
فرماتا ہے۔
جب حضرت موسٰی علیہ السلام فارغ ہو کر لشکر بنی اسرائیل میں پہنچے اور آپ
نے انہیں حکم الہی سنایا کہ ملک شام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی
اولاد کا مدفن ہے اسی میں بیت المقدس ہے اس کو عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے
جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ مصر کا چھوڑنا بنی اسرائیل پر
نہایت شاق تھا اول تو انہوں نے اس میں پس و پیش کیا اور جب بجبرو اکراہ
حضرت موسٰی و حضرت ہارون علیہما السلام کی رکاب سعادت میں روانہ ہوئے توراہ
میں جو کوئی سختی و دشواری پیش آتی حضرت موسٰی علیہ السلام سے شکایتیں کرتے
جب اس صحرا میں پہنچے جہاں نہ سبزہ تھا نہ سایہ نہ غلہ ہمراہ تھا وہاں دھوپ
کی گرمی اور بھوک کی شکایت کی اللہ تعالٰی نے بدعائے حضرت موسیٰ علیہ
السلام ابر سفید کو انکا سائبان بنایا جو رات دن انکے ساتھ چلتا شب کو ان
کے لئے نوری ستون اترتا جس کی روشنی میں کام کرتے انکے کپڑے میلے اور پرانے
نہ ہوتے ناخن اور بال نہ بڑھتے اس سفر میں جو لڑکا پیدا ہوتا اس کا لباس اس
کے ساتھ پیدا ہوتا جتنا وہ بڑھتا لباس بھی بڑھتا۔
۱۔القرآن۔۔۔۔۔
فَقُلْنَا اضْرِبُوۡہُ بِبَعْضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحْیِ اللہُ الْمَوْتٰی ۙ
وَیُرِیۡکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوۡنَ ﴿۷۳﴾
تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو (ف۱۲۲) اللّٰہ یونہی
مردے جلائے گا اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل
ہو(ف۱۲۳)
پار۰ ۱ ۔ البقرة آیت ۷۳
تشریح و تفسیر۔۔۔
(۱۲۲) بنی اسرائیل نے گائے ذبح کرکے اس کے کسی عضو سے مردہ کو مارا وہ
بحکمِ الٰہی زندہ ہوا اس کے حلق سے خون کے فوارے جاری تھے اس نے اپنے
چچازاد بھائی کو بتایا کہ اس نے مجھے قتل کیا اب اس کو بھی اقرار کرنا پڑا
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر قصاص کا حکم فرمایا اس کے بعد شرع کا
حکم ہوا کہ
مسئلہ: قاتل مقتول کی میراث سے محروم رہے گا
مسئلہ : لیکن اگر عادل نے باغی کو قتل کیا یا کسی حملہ آور سے جان بچانے کے
لئے مد افعت کی اس میں وہ قتل ہوگیا تو مقتول کی میراث سے محروم نہ ہوگا۔
(ف123)
اور تم سمجھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ مردے زندہ کرنے پر قادر ہے اور روز جزا
مردوں کو زندہ کرنا اور حساب لینا
۱۔القرآن۔۔۔۔۔
قُلْ اِنۡ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللہِ خَالِصَۃً
مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ
﴿۹۴﴾
تم فرماؤ اگر پچھلا گھر اللّٰہ کے نزدیک خالص تمہارے لئے ہو نہ اوروں کے
لئے تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر سچے ہو (ف۱۶۵)
وَلَنۡ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیۡدِیۡہِمْ ؕ وَاللہُ
عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۵﴾
اور ہرگز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے (ف۱۶۶) ان بداعمالیوں کے سبب جو آگے
کرچکے (ف۱۶۷) اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو
تشریح و تفسیر۔۔۔
(ف165)
یہود کے باطل دعاوی میں سے ایک یہ دعوٰی تھا کہ جنتِ خاص انہی کے لئے ہے اس
کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے زعم میں جنت تمہارے لئے خاص ہے اور
آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے
مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو موت کی تمنا کرو کہ تمہارے
دعویٰ کی بنا پر تمہارے لئے باعث راحت ہے اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو
یہ تمہارے کذب کی دلیل ہوگی حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ موت کی تمنا کرتے
تو سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔
(ف163)
توریت کے احکام پر عمل کرنے کا۔
(ف164)
اس میں بھی ان کے دعوائے ایمان کی تکذیب ہے۔
(ف165)
یہود کے باطل دعاوی میں سے ایک یہ دعویٰ تھا کہ جنتِ خاص انہی کے لئے ہے اس
کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے زعم میں جنت تمہارے لئے خاص ہے اور
آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے
مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو موت کی تمنا کرو کہ تمہارے
دعویٰ کی بنا پر تمہارے لئے باعث راحت ہے اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو
یہ تمہارے کذب کی دلیل ہوگی حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ موت کی تمنا کرتے
تو سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔
(ف166)
یہ غیب کی خبر اور معجزہ ہے کہ یہود باوجود نہایت ضد اور شدت مخالفت کے بھی
تمنائے موت کا لفظ زبان پر نہ لاسکے۔
۱۔القرآن۔۔۔۔۔
وَوَصّٰی بِہَاۤ اِبْرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَیَعْقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ
اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ
مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۱۳۲﴾ؕ
اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے کہ اے میرے
بیٹو بیشک اللّٰہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیا تونہ مرنا مگر مسلمان
اَمْ کُنۡتُمْ شُہَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوۡبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ
لِبَنِیۡہِ مَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعْدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ
وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا
وَّاحِدًا ۚۖ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾
بلکہ تم میں کے خود موجود تھے (ف۲۴۱) جب یعقوب کو موت آئی جبکہ اس نے اپنے
بیٹوں سے فرمایا میرے بعد کس کی پوجا کرو گے بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا
ہے آپ کا اور آپ کے والدوں ابراہیم و اسمٰعیل (ف۲۴۲) و اسحاق کا ایک خدا
اور ہم اس کے حضور گردن رکھے ہیں
پار۰ ۱ ۔ البقرة آیت ۱۳۲
تشریح و تفسیر۔۔۔
(ف240)
جن کے لئے بلند درجے ہیں تو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کرامت دارین کے
جامع ہیں تو ان کی طریقت و ملت سے پھرنے والا ضرور نادان و احمق ہے۔
(ف241)
شان نزول: یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی انہوںنے کہا تھا کہ حضرت یعقوب
علیہ السلام نے اپنی وفات کے روز اپنی اولاد کو یہودی رہنے کی وصیت کی تھی
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہتان کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی ۔(خازن) معنیٰ
یہ ہیں کہ اے بنی اسرائیل تمہارے پہلے لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کے آخر
وقت ان کے پاس موجود تھے جس وقت انہوںنے اپنے بیٹوں کو بلا کر اُن سے اسلام
و توحید کا اقرا رلیا تھا اور یہ اقرار لیا تھا جو آیت میں مذکور ہے۔
(ف242)
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے آباء میں داخل کرنا
تو اس لئے ہے کہ آپ ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے' جیسا کہ
حدیث شریف میں ہے اور آپ کا نام حضرت اسحاق علیہ السلام سے پہلے ذکر فرمانا
دو وجہ سے ہے ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق علیہ السلام سے چودہ سال بڑے ہیں
دوسرے اس لئے کہ آپ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے جد ہیں۔
اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ
وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیۡ تَجْرِیۡ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنۡفَعُ
النَّاسَ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحْیَا
بِہِ الۡاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪
وَّتَصْرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ
وَالۡاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾
بیشک آسمانوں (ف۲۹۲) اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنااور کشتی
کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللّٰہ نے آسمان سے
پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلادیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور
پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا
باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں .
پار۰ ۱ ۔ البقرة آیت ۱۶۴
تشریح و تفسیر۔۔۔
(۲۹۲) کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبود
اعتقاد کرتے تھے انہیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس
کے سوا کوئی معبود نہیں اس لئے انہوں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے ایسی آیت طلب کی جس سے وحدانیت پر استدلال صحیح ہو اس پر یہ آیت
نازل ہوئی اور انہیں یہ بتایا گیا کہ آسمان اور اس کی بلندی اور اس کا بغیر
کسی ستون اور علاقہ کے قائم رہنا اور جو کچھ اس میں نظر آتا ہے آفتاب مہتاب
ستارے وغیرہ یہ تمام اور زمین اور اس کی درازی اور پانی پر مفروش ہونا اور
پہاڑ دریا چشمے معاون جواہر درخت سبزہ پھل اور شب و روز کا آنا جانا گھٹنا
بڑھنا کشتیاں اور ان کا مسخر ہونا باوجود بہت سے وزن اور بوجھ کے روئے آب
پر رہنا اور آدمیوں کا ان میں سوار ہو کر دریا کے عجائب دیکھنا اور تجارتو
ں میں ان سے باربرداری کا کام لینا اور بارش اور اس سے خشک ومردہ ہو جانے
کے بعد زمین کا سر سبزوشاداب کرنا اور تازہ زندگی عطا فرمانا اور زمین کو
انواع و اقسام کے جانوروں سے بھر دینا جس میں بیشمار عجائب حکمت و دیعت ہیں
اسی طرح ہواؤں کی گردش اور ان کے خواص اور ہوا کے عجا ئبات اور اَبر اور اس
کا اتنے کثیر پانی کے ساتھ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہنا یہ آٹھ انواع
ہیں جو حضرت قادر مختار کے علم و حکمت اور اس کی وحدانیت پر برہان قوی ہیں
اور ان کی دلالت وحدانیت پر بے شمار وجوہ سے ہے اجمالی بیان یہ ہے کہ یہ سب
امور ممکنہ ہیں اور ان کا وجود بہت سے مختلف طریقوں سے ممکن تھا مگر وہ
مخصوص شان سے وجود میں آئے یہ دلالت کرتا ہے کہ ضرور ان کے لئے موجد ہے
قادر و حکیم جو بمقتضائے حکمت و مشیت جیسا چاہتا ہے بناتا ہے کسی کو دخل و
اعتراض کی مجال نہیں وہ معبود بالیقین واحد ویکتا ہے کیونکہ اگر اس کے ساتھ
کوئی دوسرا معبود بھی فرض کیا جائے تو اس کو بھی اس مقدورات پر قادر ماننا
پڑے گا اب دو حال سے خالی نہیں یا تو ایجاد و تاثیر میں دونوں متفق الارادہ
ہوں گے یا نہ ہوں گے اگر ہوں تو ایک ہی شئے کے وجود میں دو موثروں کا تاثیر
کرنا لازم آئے گا اور یہ محال ہے کیونکہ یہ مستلزم ہے معلول کے دونوں سے
مستغنی ہونے کو اور دونوں کی طرف مفتقر ہونے کو کیونکہ علت جب مستقلہ ہو تو
معلول صرف اسی کی طرف محتاج ہوتا ہے دوسرے کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور
دونوں کو علت مستقلہ فرض کیا گیا ہے تو لازم آئے گا کہ معلول دونوں میں سے
ہر ایک کی طرف محتاج ہو اور ہر ایک سے غنی ہو تو نقیضین مجتمع ہوگئیں اور
یہ محال ہے اور اگر یہ فرض کرو کہ تاثیر ان میں سے ایک کی ہے تو ترجیح بلا
مرجح لازم آئے گی اور دوسرے کا عجز لازم آئے گا جو اِلٰہ ہونے کے منافی ہے
اور اگر یہ فرض کرو کہ دونوں کے ارادے مختلف ہوتے ہیں تو تمانع و تطار
دلازم آئے گا کہ ایک کسی شئے کے وجود کا ارادہ کرے اور دوسرا اسی حال میں
اس کے عدم کا تو وہ شئے ایک ہی حال میں موجود و معدوم دونوں ہوگی یا دونوں
نہ ہوگی یہ دونوں تقدیر یں باطل ہیں ضرور ہے کہ یا موجودگی ہوگی یا معدوم
ایک ہی بات ہوگی اگر موجود ہوئی تو عدم کا چاہنے والا عاجز ہوااِلٰہ نہ رہا
اور اگر معدوم ہوئی تو وجود کا ارادہ کرنے والا مجبور رہا اِلٰہ نہ رہا
لہذا ثابت ہوگیا کہ الہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور یہ تمام انواع بے نہایت وجوہ
سے اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ |