مشہور قوال فتح علی خاں کے گھر 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل
آباد میں ایک بچے نے جنم لیا بچے کو اپنے والد محترم اور تایامبارک علی خان
کو دیکھتے ہوئے قوالی سے شغف پیدا ہوا اپنے شوق کے تسکین کے لئے جب قوالی
گائی تو ان کی پہچان نصرت فتح علی خان کے نام سے ہوئی ان کے خاندان نے قیام
پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے ہجرت کرکے فیصل آباد میں
سکونت اختیار کی تھی آپ کے دادا افغانستان کے دارالحکومت کابل کے رہنے والے
پٹھان کے شاخ نورزئی سے تعلق رکھتے تھے جو بعد میں بھارت کے صوبے مشرقی
پنجاب کی شہر جلندھر میں آبسباد ہوئے پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا
تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے
ہوا استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور
اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے صوفیائے کرام
کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے
پناہ شہرت نصیب ہوئی۔ان کی مشہور قوالی’’علی مولا علی‘‘ایک یادگار قوالی
تھی انہیں صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل
کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی’’دم مست قلندر مست مست‘‘ریلیز ہوئی۔اس
مشہور زمانہ قوالی سے پہلے خاں صاحب امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے
نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’’دم مست قلندر
مست مست‘‘کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس
کی دعوت دی گئی بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا
پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی ف’’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘کا ساؤنڈ ٹریک
تھا بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘اور
بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازع فلم ’’بینڈٹ
کوئین‘‘‘کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی آپ کے والد آپ کو ڈاکٹر بنانا چاہتے
تھے لیکن نصرت فتح علی خان کے سامنے تو ایک اور ہی دنیا تسخیر کی منتظر تھی
ساز و آواز سے نصرت فتح علی کی روح اور دل کی ہم آہنگی ہی کے باعث سننے
والے ان کے کلام میں کھو جایا کرتے ہیں استاد نصرت فتح علی خان نے بین
الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاٹائم میگزین نے 2006ء میں
ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کیریئر
کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیانصرت
فتح علی خان کی قوالیوں کے پچیس البم ریلیز ہوئے جن کی شہرت نے انہیں گینز
بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی ان کے مقبول گیتوں میں’’ اکھیاں اڈیک
دیاں‘‘،’’یار نا وچھڑے‘‘،’’میرا پیا گھر آیا‘‘ اور میری زندگی سمیت متعدد
شامل ہیں نصرت فتح علی خان کی ایک حمد’’ وہ ہی خدا ہے‘‘ کو بھی بہت پذیرائی
ملی جبکہ ایک ملی نغمے ’’میری پہچان پاکستان‘‘ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے
لئے گایا گیا گیت’’ جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم‘‘ آج بھی لوگوں کے
دلوں میں بسے ہیں نصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت
اور پذیرائی ملی جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور
اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیااستاد نصرت فتح علی خان نے جس طرح
اپنے فن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا اس طرح فن موسیقی میں پاکستان
کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کا کریڈٹ صرف اور صرف استاد نصرت فتح علی
خان کو جاتا ہیان کی فنی خدمات کے صلہ میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے
پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نواز اگیا وہ بیک وقت موسیقار بھی تھے اور
گلوکار بھی تھے ،1995ء میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997ء
میں انہیں گرامی ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیاوہ گردوں کے عارضے میں مبتلا
تھے اور 48سال کی عمر میں 16اگست 1997ئء کودنیا سے کوچ کر گئے رب کائنات ان
کے درجات بلند اور مغفرت فرمائے
|