میرا لونگ گواچا جیسے گانے کی آواز مشہور اداکارہ اور گلوکارہ مسرت نذیر کی زندگی ڈاکٹر بننے سے ایک ڈاکٹر کی بیوی بننے تک کیسے محدود ہوئی؟ جانیں

image
 
پاکستان فلم انڈسٹری میں پنجابی فلموں کی حیثیت ہمشہ ریڑھ کی ہڈی کی سی رہی ہے اسی وجہ سے پاکستان فلم انڈسٹری کو لالی وڈ کا نام بھی دیا جاتا ہے کیوں کہ لاہور کی حیثیت پاکستان کے لیے وہی ہے جو انڈیا کے لیے بمبئی کی ہے۔ پنجابی فلموں کے لیے ہیروئین کا انتخاب بھی اسی سوچ کے پیش نظر کیا جاتا ہے کہ ہیروئین کی جسامت اور نقوش پنجاب کی جٹی کی طرح ہونے چاہیے- یہی سبب ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں ہمیشہ اونچی لمبی بھاری جسامت کی ہیروئن نے عروج کا ایک بڑا وقت دیکھا تھا- مسرت نذیر کو پاکستان فلم انڈسٹری کی پنجابی فلموں کی پہلی جٹی ہیروئن قرار دیا جائے تو یہ غلط نہیں ہو گا- 1955 میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والی مسرت نذیر نے اگرچہ بہت طویل وقت تک فلم انڈسٹری میں کام نہیں کیا مگر جتنا کام کیا صف اول کی ہیروئن کے طور پر ہی کیا-
 
ابتدائی زندگی
مسرت نذیر 13 اکتوبر 1940 میں پیدا ہوئیں ان کا تعلق لاہور سے تھا اور ان کے والد ایک سرکاری ملازم تھے وہ ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جن کا شوبز کے شعبے سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مسرت کے والد ان کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر ڈاکٹر بنوانے کے خواہشمند تھے اور یہی خواہش مسرت نذیر کی بھی تھی ۔ اس کے ساتھ گانے گانے اور گنگنانے کا شوق بھی انہیں بچپن ہی سے تھا ان کی خوبصورت آواز نے ان کے اس شوق کو چار چاند لگا دیے تھے- مگر خاندانی پس منظر کے سبب انہوں نے گلوکاری کو ایک شوق سے زيادہ اہمیت کبھی نہ دی تھی ۔ امتیازی نمبروں سے میٹرک اور انٹر کرنے کے بعد جب ڈاکٹر بننے کا مرحلہ آیا تو ان کے خاندان کی کمزور معاشی حالت ان کے پیروں کی زنجیر بن گئی اور چاہنے کے باوجود وہ اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا نہ کر سکیں ۔ اس موقع پر انہوں نے گلوکاری کے فن سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ریڈیو پاکستان پر بطور گلوکارہ نغمہ سرا ہوئيں- مگر یہاں ان کے شوق کی تو تکمیل ہو گئی مگر وہ معاشی میدان میں گھر والوں کا ہاتھ ریڈیو کےکم معاوضے کے سبب نہ بٹا سکیں-
 
image
 
فلمی کیرئير کا آغاز
اس موقع پر انہوں نے لاہور فلم انڈسٹری میں بطور گلوکارہ قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا جہاں ان کی ملاقات انور کمال پاشا سے ہوئی جو کہ مایہ ناز ڈائریکٹر تھے اور انہیں مسرت نذیر میں چھپی ہوئی پنجابی ہیروئین نظر آگئی اور انہوں نے مسرت نذیر کو اداکاری کی دعوت دے ڈالی- جس کو اپنے والد کے منع کرنے پر مسرت نذیر نے ٹھکرا دیا مگر انور کمال پاشا بضد ہو گئے اور انہوں نے مسرت نذیر کے والد کو اجازت دینے پر محبور کر دیا اور 1955 میں اپنی فلم قاتل کے لیے مسرت نذیر کو ایک سائڈ رول میں کاسٹ کر لیا- مگر اس ثانوی نوعیت کے کردار میں بھی مسرت نذزیر نے اپنی دھاک اس طرح بٹھائی کہ فوراً ہی شیخ لطیف نے مسرت نذیر کو اپنی فلم پتن میں اس وقت کے مشہور اداکار سنتوش کمار کے مقابل بطور ہیروئين کاسٹ کر لیا- یہ فلم مسرت نذیر کی زندگی کو بدل ڈالنے کا باعث بنی اور اس کے بعد انہوں نے پھر پلٹ کر نہ دیکھا اور ایک کے بعد ایک ہٹ فلمیں دیتی گئيں-
 
فلمی کیرئير کے عروج پر ان کا رویہ
مسرت نذير کا شمار ایک قدامت پسند گھرانے سے تھا اس وجہ سے انہوں نے اپنے پورے کیرئير میں اس بات کا خیال رکھا اور شہرت کے عروج کے باوجود انہوں نے ساتھی اداکاروں سے صرف کام کی حد تک تعلق رکھا اور کبھی بھی کسی کو ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہ دی- یہی وجہ تھی کہ ان کا پورا کیرئير کسی بھی قسم کی افواہ یا افئير کی خبر سے پاک رہا- اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کبھی بھی فلموں میں کام کرتے ہوئے کسی قسم کے فحش رقص کی فلم بندی کی اجازت نہ دی اور جتنا کام کیا بہترین کیا- انہوں نے 33 اردو اور 14 پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور انہیں تین نگار ایوارڈ بھی ملے- اس کے علاوہ ان کو 1989 میں صدارتی ایوارڈ براۓ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا-
 
image
 
فلمی کیرئير کا اختتام
1962 میں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل کرنے والی مسرت نذیر کی کامیابیوں کا سفر تیزی سے جاری تھا مگر اس وقت میں ان کی زندگی کو ایک ڈاکٹر نے بدل کر رکھ دیا- ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھنے والی مسرت نذیر خود تو ڈاکٹر نہ بن سکیں مگر ایک ڈاکٹر ارشد مجید کی بیوی ضرور بن گئيں اور اپنے عروج میں کیرئير کو چھوڑ کر اپنے ڈاکٹر شوہر کے ہمراہ کینیڈہ روانہ ہو گئیں- اور اس کے بعد انہوں نے دوبارہ پلٹ کر نہیں دیکھا اور فلم انڈسٹری میں صرف ان کی یادیں اور باتیں ہی رہ گئیں-
 
image
 
بطور گلوکارہ پاکستان واپسی
شادی کے بیس سال بعد وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اللہ نے ان کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازہ تھا- وہ اور ان کے شوہر پاکستان میں ہمیشہ کے لیے رہنا چاہتے تھے اسی وجہ سے ان کے شوہر نے لاہور میں ایک ہسپتال قائم کیا اور مسرت نذیر نے بھی اپنے گلوکاری کے شوق کو دوبارہ سے شروع کیا ان کے گانے میرا لونگ گواچا ، لٹھے دی چادر اور چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ نے انہیں دوبارہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ کر دیا اور ان کے گانے زبان زدعام ہو گئے- مگر ان کے شوہر اور بچے پاکستان میں سیٹل نہ ہو سکے اور کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ کینیڈا شفٹ ہو گئے ۔ اب مسرت نذير کینیڈا میں ہی اپنے بچوں کے ہمراہ رہتی ہیں اور ان کے دونوں بیٹے ڈاکیومنٹری فلمیں بناتے ہیں اور مسرت نذير ایک گھریلو عورت کے طور پر زںدگی گزار رہی ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: