بچوں! میں آج ایک نظم سُناتا ہوں
جو کہ میرے ابو نے لکھی ہے۔ جس میں نانی اماں کا ذکر بڑے اچھے انذاز میں
پیش کیا گیا ہے ۔اُمید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔
پھر سے آؤ بہلا دو نانی اماں
کوئی کہانی سنا دو نانی اماں
تھک گیا ہوں بہت میں گنتے گنتے
ستارے یہ سارے گنوا دو مجھے نانی اماں
وہ جو شیر ہے تمہاری کہانی میں
ویسا ہی بنا دو مجھے نانی اماں
میں تو بس روتا ہی آیا تھا جہاں میں
کیسے ہنستے ہیں؟سکھا دو مجھے نانی اماں
جس سے خوش رہیں امی و ابو بھی میرے
ایسا نسخہ کیمیا بتا دو مجھے نانی اماں
جس دیس میں رہتی ہیں تمہاری پریاں
وہ دیس بھی دکھا دو مجھے نانی اماں
شہزادہ کہ جس پہ عاشق ہیں پریاں
ملوا دو اُس سے مجھے نانی اماں
کھا جاؤں گا سارا شہد مرتباں کا
کسی شکل یاں سے ہٹا دو مجھے نانی اماں
تو سخی دل ہے تبھی تو میری پیاری
دو چار آنے تھما دو نانی اماں
ہاں اُس آدم خور دیو سے مجھے
اک بار اور ڈرا دو مجھے نانی اماں
میں بھی دیکھوں تو خوشبووں کا شہر
کبھی سیر گلستاں کرا دو مجھے نانی اماں
مار کر پھونک ایک میری پیشانی پر
درد سر سے بچا دو مجھے نانی اماں
ڈرتا ہوں بہت میں ابھی اندھیرے سے
پاس اپنے سلا دو مجھے نانی اماں
اک بار ذرا ہاتھ میرا پکڑ کر
کوئی راہ صحیح دکھا دو مجھے نانی اماں
مجھے کتنا چاہتیں ہیں دل سے آپ
خود اپنی زبانی بتا دو مجھے نانی اماں
سنا کر دوبارہ پیار کی لوری مجھے
وادی خواب میں پہنچا دو مجھے نانی اماں
رکھ کر سر پہ میرے ہاتھ اب پھر
اچھی سی دعا دو مجھے نانی اماں
مجھ بھوکے کو پراٹھہ دو آپ پیاری
ساتھ گرم دودھ پلا دو مجھے نانی اماں
تم اب بھی حسیں ہو بڑی نانی اماں
ذرا شرما کے دکھا دو مجھے نانی اماں
یہی کہتا رہے گا پرویز تجھ سے
ماں جیسی ممتا دلا دو مجھے نانی اماں |