بچوں کے رجحانات- ترجیحات پر توجہ کی ضرورت

کم پڑھے لکھے یا ایجوکیشن کے اعتبار سے مڈل کلاس (متوسط طبقے) میںیہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین بچوں کی غیر ضروری نگہداشت پر تواپنی توجہ صرف کرتے ہیں لیکن جو باتیں بچوں کے لئے مفید ہوسکتی ہیں، ان کے مستقبل کو تابناک بناسکتی ہیں، ان پر یا تو بچوں کے سرپرست کی نگاہ نہیں ہوتیں، یا پھر اسے وہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور غیر ضروری اور غیراہم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔عام طور پر یہ باتیں مسلم طبقے میں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں والدین اور سرپرست حضرات اپنے بچوں کے رجحانات اور ان کی جائز ترجیحات پر دھیان نہیں دیتے اور ہر معاملے میں اپنی خوشی اور خواہشات کو ان پر تھوپتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ فیزیکلی اور فطری طور پر سارے بچے یکساں نہیں ہوتے۔ کوئی بہت ذہین ہوتا ہے تو شرارتیں بھی کم نہیں کرتا۔ کچھ بچے کند ذہن ہوتے ہیں پر شرارتی بھی ہوتے ہیں۔ بعض بچے بہت کم گو لیکن بلاکے ذہین و فطین ہوتے ہیں۔کسی کی دلچسپی تعلیم میں ہوتی ہے تو کوئی ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتا ہے اور بچوں کی یہ دلچسپیاں ان کے لڑکپن میں بھی جھلکتی ہیں۔ جووالدین بچوں کی نظر انداز کردیئے جانے والی ان حرکتوں کو بغور دیکھتے ہیں اور بچپن سے ہی ان کی جائز ترجیحات کا احترام کرتے ہیں، ایسے بچے آگے چل کر اس میدان میں اچھا کر گزرتے ہیں۔ لیکن جن والدین کی نظر ان باتوں پر نہیں ہوتی اور وہ بچے کی بیجا اور غیر ضروری چیزوں پر نظر رکھتے ہیں یا پھر ان کے نزدیک بچوں کی خواہشات کا کچھ بھی لحاظ نہیں ہوتا، بلکہ خواہ مخواہ کی اپنی مرضی ان پرلاگو کرتے ہیں، جیسے : ایک بچہ اسکول میں پڑھنے کا خواہا ں ہوتا ہے، لیکن سرپرست صاحبان انہیں مذہب کی ضروری تعلیم کے علاوہ اعلیٰ تعلیم پر بھی مجبور کرتے ہیں جو غلط ہے۔ اسکول لائن میں دیکھیں تو بعض بچوں کے خیالات میںسادگی ہوتی ہے، لیکن انہیں ڈاکٹر انجینئر بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ بچے والدین کی خواہشات کا احترام کرنے ہوئے تو اسے قبول کرلیتے ہیں، البتہ وہ اس میدان میں کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دے پاتے ۔ایسے میںوالدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کی بہتر نگہداشت کے ساتھ ان کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر نظر رکھیں۔ ان کی معمولی ایکٹیویٹیز کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ لڑکپن ہی سے کسی بچہ کے اندر کچھ نیاکرنے کا شوق دکھائی دے تو اس کی مدد کریں اور حوصلہ بڑھائیں۔ آپ کا یہ تعاون سے بڑھا ہاتھ اور حوصلہ بڑا کرنے والے کلمات بچوں کی دلچسپی میںمہمیز کا کام کریں گے اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرے گا، پھر نتیجے کو آپ بار آور ہوتا دیکھیں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک تو پہلے سے ہی بچے کی اس میدان میںدلچسپی تھی ،اس پر والدین کی پوری توجہ اور حوصلہ افزائی نے سہاگے کا کام کیا نتیجتہ بچہ اس عمل میں پختہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے برعکس جو والدین ان باتوںپر دھیان نہیں دیتے یا قطعی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ایسے بچوں کو دیکھا جاتا ہے یا اس کے بارے میں سنا جاتا ہے کہ فیلیور ہوگیا اور ناکامی اسے ہاتھ آئی۔اب تو بارہایہ سنا جاتاہے کہ فلاں لڑکا یا لڑکی نے امتحان کی ناکامی سے خودکشی کرلی۔ یہ بڑا ہی چبھتا ہوا سوال ہے کہ آخراکثریت کے حصے ناکامی کیوں آتی ہے ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ والدین کی یہی بے توجہی ہے۔ اور بچہ کے امتحانات کے اندر کسی سبجیکٹ میں ناکامی کی بھی یہی اہم وجہ ہے۔ یوں تو ناکامیاں تقدیر کے راستے ہی آتی ہیں، لیکن سارا الزام تقدیرپرڈالنا انصاف نہیں ،بلکہ کامیابی کا دارومدار انسان کے ذاتی عمل پر ہوتا ہے اور عام طور پر یہاں دیکھا گیا ہے کہ انسان کامیاب اپنی دلچسپی کے میدان میں ہی ہوتا ہے۔
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58124 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More