محبت میں بلیک میلنگ روز بروز بڑھنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ ہماری نظر میں زیادہ تر وہ واقعات ہیں جہاں ایک فرد بلیک میل کرنے میں ملوث ہو۔ اس مختصر تحریر کے ذریعے ایسے خاندانوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو مل کر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔
ہر ادارے میں، ہر شعبے میں جہاں مرد و خواتین مل کر کام کرتے ہیں وہاں دلچسپی، الفت و چاہت کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر جیسے محبتوں کا انجام ہوتا ہے ان کا بھی انجام شادی یا جدائ کی صورت میں ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار یہ سنگین روپ بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ خواتین اپنے آنسوؤں کے سیلاب کے ساتھ گھر والوں کو ادارے میں بہا کر لے آتی ہیں۔ جدائ کا لفظ قصائ کی وہ تیز چھری ثابت ہوتا ہے جو مرد کی شہ رگ تک آ جاتا ہے۔ آڈیو، وڈیو ریکارڈ۔۔۔۔تصاویر اور گفتگو کے سکرین شارٹ۔۔۔سارا مواد مٹھی میں رکھ کر اپنی مرضی کے کام کرواۓ جاتے ہیں۔ پورا خاندان مل کر نکاح پہ زور ڈالتا ہے۔ وہ یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ جس رشتے کی بنیاد حرام پہ رکھی گئ ہو وہ حلال کے زمرے میں آ کر بھی حرام کا اثر رکھتا ہے۔ نکاح نہ ہونے کی صورت میں تقاضوں کی لمبی فہرست پیش کی جاتی ہے۔ تقاضے پورے نہ ہوۓ تو آڈیو ویڈیو ریکارڈ تو ہے ہی تختہءدار تک لے جانے کے لیے۔ پھر مفادات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ مرد پہ زمہ داری ڈالی جاتی ہے اس عورت کو ٹاپ کلاس عورت بنانے کی یعنی جس مرد پہ بوجھ ہے کہ اس نے بگاڑا اور وہ ایک برا مرد ہے اب وہی اسے سنوارے؟جو مرد اتنا برا ہے ان کے نزدیک وہ برا ہو کے اچھی عورت کیسے بنا سکتا ہے؟ادارے میں وہ عورت مٹھی میں مرد کی کمزوریاں دباۓ دندناتی پھرتی ہے۔ ٹاپ پوزیشن حاصل کرنا اس دھونس اور دھمکی کی بنیاد پہ اس کا مقصد ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ مرد سے بے وفائی کا بدلہ لیتی ہے اور اس سے زیادہ اونچی کرسی پہ بیٹھنا چاہتی ہے۔ کئ سال تک دھمکیوں اور طعنوں کے ذریعے اونچی کرسی پہ بیٹھی عورت مرد کو یا تو نیم پاگل بنا چکی ہوتی ہے یا دل کا مریض۔۔۔بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ موت کا سامان مرد کو دکھا دکھا کر زندگی کا سامان اکٹھا کرتی ہے۔
جہاں پورا خاندان ملوث ہو تو سمجھ جائیں وہاں پرورش کس درجے کی ہو گی۔ جتنی محنت دھونس پہ لگائ اتنی محنت پرورش پہ لگائ جاتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ ایسے خاندان بنیادی لحاظ سے بلیک میلر ہوتے ہیں اور وہ زندگی کے باقی معمولات میں بھی دھونس سے کام لیتے ہیں۔
یہ سچ ہے دل ٹوٹے تو درد تو ہوتا ہے لیکن کیا آپ کہ سکتے ہیں کہ اس کہانی میں وفا تھی۔ محبت کاروبار بن جاۓ وہ محبت کا درجہ کھو دیتی ہے۔ مرد حضرات قطعی طور پہ یہاں صحیح نہیں لیکن محبت کے نام پہ یہ سب کچھ کر جانا قطعی طور پہ مناسب نہیں۔
آج کل ان عنوانات پہ دھیان چلا گیا ہے کیونکہ معاشرے میں سب سے زیادہ چکر اس چکر سے خالی لفظ محبت سے ملتا ہے۔ جو بلیک میل کرے اسے وفا تھی ہی نہیں۔ ایسی حرکت چکر اور مکر سے بھرا دماغ کر سکتا ہے۔ جو دل سے محبت کرے گا وہ روۓ گا بے حد لیکن ضرر نہیں پہنچاۓ گا۔ انتہائ مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ بلیک میلر کہتا ہے "مجھے دراصل محبت ہے"
|