اپوزیشن مگر کہاں۔۔؟

چورحکومتیں توہم نے بہت دیکھیں تھیں لیکن یہ غالباًپہلاموقع ہے کہ اس ملک کے اندرچورحکومتوں کے ساتھ اب چوراپوزیشن بھی ہمیں دیکھنے کومل رہی ہے۔ویسے اپوزیشن وہ ہوتی ہے جس کی اپنی پوزیشن ٹھیک ہو۔یہ بھی بھلاکوئی اپوزیشن ہے ۔۔؟جن میں شامل ن،پ،ج،ع ودیگرکی اپنی پوزیشن ٹھیک ہے اورنہ ہی سمت سیدھی۔واقعی بزرگ ٹھیک کہتے ہیں ہاتھ اپنے آلودہ ہوں توپھربڑے بڑے چوروں کے ہاتھ اورگریبان پکڑنے کی بھی جرات اورہمت نہیں ہوتی۔ویسے ظالم کو ظالم کاہاتھ روکتے ہوئے شرم توآتی ہے نا۔اپوزیشن آج کس منہ سے موجودہ ظالم حکمرانوں کے ہاتھ روکے۔۔؟یاگریبان پکڑے۔۔؟سترسال سے اس ملک اورقوم کولوٹتے لوٹتے اپوزیشن کے اپنے ہاتھ لو ٹ ماراورکرپشن کی دھول سے اس طرح اٹکے ہوئے ہیں کہ اب ان ہاتھوں کو دوسروں کی طرف بڑھاتے ہوئے بھی انہیں شرم محسوس ہورہی ہے۔اس لئے توہم کہتے ہیں کہ دوسروں پرہاتھ ڈالنے یاگریبان پکڑنے کیلئے اپنا تن،من اوردھن صاف رکھناچاہیئے۔لوگ کہتے ہیں کہ ایسی حکومت کبھی نہیں دیکھی مگرہم کہتے ہیں کہ ایسی ڈھیٹ،بے حس،بے جان اوربے شرم اپوزیشن کبھی نہیں دیکھی۔اتنی ڈھیٹ،بے حس اوربے شرم توظالموں کی یہ حکومت بھی نہیں جتنی مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جے یوآئی،جماعت اسلامی ،اے این پی اوردیگرکے مربے اورحلوے سے بنی یہ نام نہاداپوزیشن ہے۔ہمیں تو یہ پڑھایا،سمجھایااوربتلایاگیاتھاکہ اپوزیشن کاکام حکومت وقت کے ہاتھ ظلم وستم اورغلط کاموں سے روکناہوتاہے مگراس اپوزیشن نے توبے حسی اوربزدلی کی انتہاء کرکے نہ صرف یہ ثابت کردیاہے کہ ہم نے اپوزیشن کے بارے میں جوکچھ پڑھاتھا۔۔سمجھاتھایاسناتھاوہ سب غلط سرے سے ہی غلط تھابلکہ ساتھ یہ بھی بتادیاکہ اپوزیشن کاکام صرف حکومت وقت کاگریبان پکڑنااورراستہ روکنانہیں بلکہ حکومتی مظالم اورغلط اقدامات پر کھسروں کی طرح ناچنابھی ہوتاہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کواقتدارسنبھالے ہوئے دوسال پورے ہوگئے ہیں۔ان دوسالوں میں پی ٹی آئی حکومت نے عوام کش اقدامات اٹھانے اورپالیسیوں کوفروغ دینے کے علاوہ کیاکیا۔؟ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی آج ہے۔دس روپے والی شے پچاس اورپچاس والی پانچ سوتک پہنچ چکی ہے۔کاروبارمکمل طورپرتباہ ہوچکے ہیں ۔فیکٹریاں بنداورکارخانوں کوتالے لگ چکے ہیں،بیروزگاری میں اس قدراضافہ ہواہے کہ جس کی کوئی حدنہیں۔ایک کے بعدایک غلط قدم اٹھانے اورپالیسی ترتیب دیکرحکومت نے عوام کاتوجینامحال کردیاہے مگردوسری طرف کیاکمال کی ڈھٹائی ہے کہ اپوزیشن ان عوام کش اقدامات پرٹس سے مس نہیں ہورہی۔بڑھتی مہنگائی ،بیروزگاری ،غربت اوربھوک وافلاس کی وجہ سے لوگوں کی جانوں میں خون خشک سے خشک ترہوتاجارہاہے مگراپوزیشن میں شامل ان بڑے بڑے سانڈاورمگرمچھوں کی صحت پرذرہ بھی کوئی اثرنہیں پڑرہا۔موجودہ حکمرانوں کوتواقتداراورطاقت کی رنگینیوں اورعیاشیوں سے فرصت نہیں پرظلم یہ ہے کہ اپوزیشن کوبھی عوام کی کوئی فکرنہیں۔عوام بھوک سے مریں یامہنگائی تلے دبیں،حکمرانوں کے ساتھ اب اپوزیشن کابھی اس سے کوئی سروکارنہیں۔ہرسیاسی سانڈکواپنی پڑی ہوئی ہے۔نیب سے کس طرح بچنااورآگے کیسے بڑھناہے۔۔؟یہ اس وقت اپوزیشن کامین مقصدہے۔لوگ عمران خان کی حکومت کو ملک کے موجودہ مسائل اورتباہی کی ذمہ دارقراردے رہے ہیں ۔اوریقینناًکچھ غلط پالیسیوں اوراقدامات کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت موجودہ مسائل اورتباہی کی ذمہ دارہے بھی۔ لیکن انصاف کی نظرسے اگردیکھاجائے توعمرانی حکومت سے زیادہ ملکی مسائل اورتباہی کی ذمہ داریہ موجودہ اپوزیشن ہے۔حکومت کاتوکام ہی کچھ کرناہے۔سوال یہ ہے کہ اس اپوزیشن نے اب تک حکومت کوبرے کام کرنے کیوں دیئے۔۔؟اپنی ذات اورمفادکے لئے احتجاج،مارچ،جلسے ،جلوس اورہڑتال کرنے والے اپوزیشن کے ان لیڈروں نے کیاعمران خان کی اس حکومت میں ایک باربھی کبھی عوام کیلئے کوئی احتجاج،کوئی مارچ،کوئی جلسہ،کوئی جلوس یاکوئی ہڑتال کی۔۔؟مہنگائی اس حکومت میں سوفیصدبڑھی۔چینی کی قیمت اسی دور میں پچاس سے سوپرگئی۔ادویات کی قیمتیں اسی حکومت میں غریبوں کی پہنچ سے دورہوئیں۔آٹے کے بحران نے بھی اس حکومت میں جنم لیا۔بیروزگاری بھی اسی حکومت میں عام ہوئی۔غریبوں کی جھونپڑیوں کوتجاوزات کیخلاف آپریشن کے نام پراسی حکومت میں مسمارکیاگیا۔مگرکیاکسی کویادہے۔اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی۔جے یوآئی۔جماعت اسلامی اوراے این پی سمیت کسی ایک سیاسی جماعت اورپارٹی نے ان میں سے کسی ایک مسئلے پرکبھی کوئی احتجاج کیاہو۔؟کوئی مارچ کیاہو۔؟کوئی جلسہ یاجلوس نکالاہو۔؟کہیں کوئی ہڑتال کی ہو۔؟سچ تویہ ہے کہ جوں جوں اورجب جب حکمرانوں نے عوام کے گردنوں پرقدم رکھے تب تب اپوزیشن میں شامل یہ سارے تماشادیکھتے رہے اوریہ ظالم آج بھی صرف تماشاہی دیکھ رہے ہیں ۔سیاست کے نام پرمنافقت کوئی ان سے سیکھیں۔عوام کی محفلوں،جلسوں اورجلوسوں میں عوام عوام کارونارونے والے ان نام نہادسیاسی ٹھیکیداروں سے بڑے چور،بے حس اوربے شرم اورکوئی نہیں۔خودپرآئے توپھریہ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔نہ گرمی دیکھتے ہیں اورنہ بارش۔لیکن دوسال سے جب عوام پرآئی ہوئی ہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ان کی طرف سے توحکومت عوام کی چمڑی اڈھیریں یاخون چوسے پرصرف ان چوروں کوکچھ نہ کہیں۔عوام کودکھلاوے کیلئے یہ سارے باہرباں باں کرتے ہیں لیکن اندرسے یہ سب حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔یہ خودچوراورحکومت کے ساتھی نہ ہوتے توکیا۔۔؟حکومت اس طرح غریبوں پردوڑتی۔؟ان کی اصلیت تواس دن ہی ظاہرہوگئی تھی جب ایک طرف انہوں نے حکومت کودھاندلی کی پیداواراورناجائزقراردیااوردوسری طرف خوداگلے دن نئے واسکٹ اورشیروانیاں پہن کے جاکرحکومت کوحکومت بنانے کے لئے اسمبلی میں بیٹھ گئے۔حکومت اگرناجائزاوردھاندلی کی کوکھ سے نکلی تھی توپھریہ ممبری کی تنخواہیں ومراعات لینے اورتجوریاں بھرنے کے چکرمیں اسمبلیوں کے اندر کیوں بیٹھے۔۔؟میٹھامیٹھاہڑپ اورکڑواکڑواتوں۔کے مصداق یہ ایک طرف حکومت کوناجائزاوردھاندلی زدہ قراردے رہے ہیں دوسری طرف یہ اسی حکومت کی برکت سے اسمبلیوں میں بیٹھ کربھاری تنخواہیں اورمراعات بھی لے رہے ہیں۔حکومت اگرناجائزہے توپھراس کی برکت سے ملنے والی تنخواہیں اورمراعات کیسے جائزاورحلال ہیں۔۔؟حقیقت تویہ ہے کہ موجودہ حکومت کو اس چوراپوزیشن نے ہی سہارادیاہواہے۔یہ چوراپنی سترسالہ چوریاں اورگناہ چھپانے کے لئے اپوزیشن کالبادہ نہ اوڑھتے توآج ملک اورقوم کی یہ حالت نہ ہوتی۔چورکو اپنی چوری چھپانے کے لئے واقعی کچھ بھی کرناپڑتاہے۔اگرایسانہ ہوتاتومسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی ،جے یوآئی ،جماعت اسلامی اوراے این پی کب کی اس حکومت کے خلاف سڑکوں پرنکل آتیں۔22کروڑعوام کی خاطرموجودہ حکومت کے خلاف باہرنکلناان اپوزیشن جماعتوں کے لئے قرض کادرجہ رکھتاہوگالیکن دوسری طرف اس حکومت اورنیب سے خودکوبچانااوراپنے گناہ چھپاناان کے لئے فرض بن کررہ گیاہے۔ اپنی جان پرآئے توپھرقرض نہیں فرض کودیکھاجاتاہے۔سواسی مجبوری کے تحت یہ اپوزیشن اس حکومت کے خلاف کچھ کرنے سے عاجزاورقاصرہے۔لوگ اوردنیاچاہے کچھ بھی کہے ۔حق اورسچ بس یہی ہے کہ یہ اپوزیشن اس حکومت کے خلاف زبانی نعروں،دعوؤں،وعدوں اورمینڈکوں کی طرح چیخ وپکار کے سواکچھ نہیں کرے گی۔کیونکہ سترسال سے اس ملک اورقوم کولوٹتے لوٹتے اپوزیشن کے اپنے ہاتھ لو ٹ ماراورکرپشن کی دھول سے اس طرح اٹکے ہوئے ہیں کہ اب ان ہاتھوں کو دوسروں کی طرف بڑھاتے ہوئے بھی انہیں شرم محسوس ہورہی ہے۔اس لئے عوام یہی سمجھیں کہ اس ملک میں جس طرح حکومت نہیں اسی طرح اپوزیشن بھی نہیں۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 132142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.