روک لو اُسے ، جانے نا دو



میرا بس نہیں چل رہا کہ وقت کو روک لوں ۔روشنی کی رفتار سے سفر کرے کوئ تو آئنسٹائن کے مطابق وقت صفر یعنی رک جاتا ہے اور ایک مثال دی گئ کہ چلتی ٹرین میں بیٹھے اگر کھڑکی سے گھڑی کی سوئ کی طرف دیکھا جاے تو سوئ کی رفتار بہت سست یا تقریباً رکی ہوئ دکھائ دیتی ہے ۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ چلتی ٹرین میں بیٹھا رہوں ۔ ویسے بھی آپ ایر پورٹ پر بیٹھے ہوں یا پلیٹ فارم پر تو آپ کچھ دیر کے لیے رک سے جاتے ہیں ۔ بہت سی مصروفیات ، گھر بار ، کاروبار چھوڑ آتے ہیں اور منزل ابھی دور ہوتی ہے تو کچھ ہلکا ہلکا محسوس کرتے کچھ نیا خیال ذہن میں آتا ہے کیونکہ پرانے خیال رک سے جاتے ہیں ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقت کو کیسے روکا جاے اور کیوں روکا جاے یا ماضی کی طرف جا کر وقت کو پیچھے لے جانے کی خواہش صرف دو صورتوں میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ خوبصورت یاد ہو اور دل چاہے کہ سب پھر سے ویسا ہو جاے اور دوسرا یہ کہ کچھ غلط ہو گیا ہو جسے جا کر ٹھیک کر دیا جاے تو ہاں ممکن ہے اور اس کے لیے اپنی غلطی کا اعتراف اور معافی کی درخواست سے ممکن ہے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہونے کا فائدہ اٹھا کر ماضی کا دروازہ بند کر دیا جاے۔

اگر زندگی کے سفر میں پسندیدہ ساتھ نصیب ہو جاے تو نا منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور نا کوئ پرانی یاد ستاتی ہے اور پھر وقت رک جانے کی خواہش نا پوری ہو سکنے کے باوجود تھوڑی دیر کو وقت رک سا جاتا ہے اور سودا مُک سا جاتا ہے جس میں نا کوئ نفع نا کوئ نقصان اور انسان ہو جاتا ہے حیران۔
سلامتی بانٹتے سلامت رہے ایمان۔

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 265120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.