پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ( نشان حیدر)

20اگست 1971ء کے دن پاک فضائیہ کے تین طیاروں کو تین تین منٹ کے وقفے سے تربیتی پرواز پر روانہ ہونا تھا۔پہلے دو طیارے فضا میں جا چکے تھے ، تیسرا طیارہ راشد منہاس اڑانے والے تھے ۔صبح گیارہ بج کرچھبیس منٹ پر پاک فضائیہ کے مسرورایئر بیس پر اپنے ٹرینر جیٹ طیارے T-33میں بیٹھے ہوئے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کو کنٹرول روم سے پہلی کلیرنس ملی تو طیارہ رن وے پر آہستہ آہستہ رینگنے لگا ۔لمحہ بہ لمحہ رفتار تیز ہونے لگی ۔گیارہ بج کر ستائیس منٹ پر انسٹرکٹرمطیع الرحمان دوڑتا ہو ا طیارے کے سامنے اچانک نمودار ہوا۔اس نے اپنی کار کی کھڑکی سے راشدمنہاس کو خطرے کا سگنل دیا ۔مطیع الرحمان چونکہ راشد منہاس کا انسٹرکٹر تھا اس لیے وہ سمجھا شاید طیارے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے ۔اس لئے راشد نے طیارہ روک لیا ،جس طیارے میں راشد سوار تھا وہ طیارہ دوہرے کنٹرول کا حامل تھا۔یعنی انسٹرکٹر اور پائلٹ آفیسر کے سامنے یکساں کنٹرول پینل تھے۔اس لئے جب زیرتربیت پائلٹ طیارے کو اڑاتا تو اس کے پیچھے بیٹھا انسٹرکٹر اس کی غلطیوں نشاندھی کرتے ہوئے اصلاح کرسکتاتھا۔تاہم دونوں سیٹوں کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار تھی ۔کینوپی بند ہوجانے کے بعد دونوں پائلٹ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہو سکتے تھے ۔نوعمر راشد ،انسٹرکٹر کے ناپاک عزائم سے بے خبرتھا،اس نے طیارے کو روک لیا اور اپنے چہرے سے ماسک ہٹا کر پوچھا مجھے کیوں روکا گیا ہے ؟ انسٹرکٹر نے جواب نہیں دیا بلکہ تیزی سے طیارے کے کاک پٹ میں داخل ہوگیا۔حالانکہ پرواز میں مداخلت کی اسے اجازت نہ تھی ۔انسٹرکٹر وردی میں بھی نہ تھا۔اس نے طیارے میں سوار ہوتے ہی اپنے دو ساتھیوں کو پیغام دیا کہ میں جودھپور جا رہاہوں تم میرے اہل و عیال کو لے کر فورا بھارتی ہائی کمیشن میں چلے جاؤ اور پناہ لے لو۔انسٹرکٹر کا پیغام سننے کے بعد راشد کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔اس نے فورا ماڑی پور کنٹرول ٹاور کو گیا رہ بج کر اٹھائیس منٹ پر پیغام بھجوایا کہ مجھے اغوا کیا جا رہا ہے ۔تم غدار انسٹرکٹر مطیع الرحمن کے ساتھیوں کو بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ لینے سے روکو۔اس اثنا ء میں غدار مطیع الرحمان نے کلوروفارم میں بھیگا ہوا رومال سونگھا کر راشد کو بیہوش کرنے کی کوشش کی ۔راشد کی آواز بھرائی ہوئی تھی ۔راشد کلوروفارم کے اثر سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہاتھا۔گیارہ بج کر تیس منٹ اور بیس سیکنڈ پر کنٹرول ٹاور سے راشد منہاس کو ہدایت ملی کہ وہ ہر صورت طیارے کو اغوا ہونے سے بچائے ۔ مطیع الرحمان نے طیارے پرکنٹرول حاصل کرکے گیارہ بج کر اکتیس منٹ پر طیارہ اڑا لیا اور اس کا رخ بھارت کی جانب کردیا۔یہ طیارہ 120ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے مشرق کی طرف جا رہاتھا ۔ غدارمطیع الرحمان کے پاس خفیہ دستاویزات بھی تھیں جنہیں وہ بھارت لے جانا چاہتا تھا ۔اگر دستاویزات ضائع کردی جاتیں اور غدار بھارت جانے میں کامیاب ہوجاتا تب بھی بہت سی راز کی باتیں بھارت کو معلوم ہوجاتیں ۔اس لیے غدار انسٹرکٹر کا بچ نکلنا بھی ملک و قوم کے لیے نقصان کا پاعث تھا ۔چنانچہ گیارہ بج کرتیتس منٹ بیس سیکنڈ پر راشد منہاس نے دوبارہ ہوش میں آنے کے بعد کنٹرول ٹاور کو اطلاع دی کہ مجھے طیارے سمیت اغوا کیا جارہا ہے،راشد کم عمر اور جسمانی اعتبار سے بھی مطیع الرحمان کی نسبت کمزور تھے انہیں اس بات کا علم تھا کہ طاقت سے وہ غدار کا مقابلہ نہیں کرسکتے ،اس کے باوجود مطیع الرحمان کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی ۔انسٹرکٹر کی کوشش تھی کہ طیارے زیادہ بلندی پر نہ جائے کیونکہ وردی میں نہ ہونیکی وجہ سے آکسیجن کی کمی اسے موت کے گھاٹ اتار سکتی تھی ۔نیچی پرواز کرنا بڑی مہارت کا کام تھا ،اس بات کا انسٹرکٹر کو بخوبی احساس تھا،راشد منہاس نے چند سیکنڈ بعد پھر کنٹرول ٹاورسے رابطہ کیا کہ میں ہرممکن کوشش کررہا ہوں کہ غدار مطیع الرحمان کے منصوبے کو خاک میں ملا دوں۔بے شک میں کمزور ہوں لیکن مجھے اپنی قومی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے۔مجھے اپنی جان کی پروا نہیں ،میں انتہائی اہمیت کی حامل دستاویزات اور طیارے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوں۔اس کے ساتھ ہی کنٹرول ٹاور کا رابطہ ختم ہو گیا ۔پاک فضائیہ کے طیارے راشد منہاس کے طیارے کو تین گھنٹے تک تلاش کرتے رہے لیکن ناکام رہے ۔اب حق و باطل کا معرکہ شروع ہوچکا تھا۔ایک طرف فن ہوابازی کا ماہر اور تجربہ کار مطیع الرحمان تھا تو دوسری جانب دبلا پتلا، کمزور اور نو آموز پائلٹ آفیسر راشد منہاس تھا جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا ۔انسٹرکٹر مسلح ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے طاقتور بھی تھا ۔غدار انسٹرکٹر راشد کو زندہ رہنے پر مجبورکررہاتھا لیکن وہ ایسی زندگی کو موت پر ترجیح دیتے ہوئے ٹیپو سلطان کے اس قو ل کا پیروکار تھا کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ۔چند ساعتوں کا فاصلہ درمیان میں حائل تھا کہ پاک فضائیہ کا طیارہ بھارت کے حدود میں داخل ہوجاتا ،چنانچہ راشد منہاس نے اپنی پوری جسمانی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا ۔غدار کو اپنی موت نظر آرہی تھی ،لیکن راشد کے جسم میں قدرت نے بلاکی طاقت پیدا کردی تھی ان کا ایمان پختہ اور کامل یقین تھا کہ شہادت کی موت کسی نصیب والے کو ہی ملتی ہے ۔اسی شہادت کی موت کی طلب میں وہ پاک فضائیہ میں شامل ہواتھا ۔جیسے ہی طیارہ دھماکے سے زمین سے ٹکرایا ویسے ہی غدار انسٹرکٹر مطیع الرحمان اور اس کے منصوبے خاک میں مل چکے تھے جبکہ راشد منہاس شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوچکے تھے ۔
اے راہ حق کے شہیدو وطن کی تصویرو ....... تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

21اگست 1971ء کو پاک فضائیہ کے عظیم پائلٹ آفیسر راشد منہاس کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیاگیا ۔راشدمنہاس پاک فضائیہ کے پہلے آفیسر ہیں جنہیں نشان حیدر سے بعد از شہادت نوازا گیا۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 661718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.