سورۃ منافقون
منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان
کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے
کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا
تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی
اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف
کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک
کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے
کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور
اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے
کا اعلان کر دیتاہے۔
(علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "لسان العرب" )
مُنافقت کا معنی ٰ ہے اپنے قول او رعمل سے وہ کچھ ظاھر کرنا جو دِل میں
موجود عقائد و عزائم کے خِلاف ہو اور اِسلام میں منافقت کا مفہوم، دِل میں
کفر، شرک اور گناہوں کا اقرار اور عمل کے وجود کے ساتھ، اپنے آپ کو قولی
اور عملی طور پر اِیمان والا، اللہ کی توحید کو ماننے والا، اور گناہوں سے
دُور رہنے و الا ظاہر کرنا۔
قارئین :آئیے ہم سورۃ المنافقون پڑھتے ہیں ۔03462914283
سورۂ منافقون مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ المنافقین
۴/۲۷۰)۔ اس سورت میں 2 رکوع،11آیتیں ہیں ۔
وجہ تسمیہ :
اس سورت کی ابتداء میں منافقوں کی صفات بیان کی گئیں اور نبی کریم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے متعلق ان کا
مَوقف ذکر کیا گیا،اس مناسبت سے اس سورت کو’’سورۂ منافقون ‘‘ کہتے ہیں ۔
آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ سورۃ منافقون میں ہم سے کیا خطاب کیا گیا ہے ۔
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں منافقوں کے نفاق کو ظاہر کیا گیا
اور ان کے بارے میں بتایا گیا کہ منافق جھوٹ بولتے اور جھوٹی قسمیں کھاتے
ہیں ۔نیز اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1) …اس سورت کی ابتداء میں بتایاگیا کہ منافق اپنے دلی عقیدے میں ضرور
جھوٹے ہیں اور اپنی جان بچانے کیلئے انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے
اور زبان سے ایمان لانے اور دل سے کفر کرنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان
کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جس کی وجہ سے وہ ایمان کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں
سکتے۔
(2) …مسلمانوں کو بتایاگیا کہ منافق لوگ تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتے
رہو۔
(3) … یہ بتایا گیا کہ منافقوں کا یہ گمان باطل ہے کہ وہ مدینہ منورہ پہنچ
کر مسلمانوں اور ان کے آ قا و مولیٰ محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مدینہ منورہ سے نکال دیں گے۔
(4) …اس سورت کے آخر میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی
اطاعت اور ا س کی عبادت کرنے میں مصروف رہیں ،اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے
مقابلے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کریں اور اس میں دیر نہ
کریں کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ۔
آیئے ہم سب ذرا اپنے بارے میں سوچیں تو کہ ہم کونسی سی نشانیاں پائی جاتی
ہیں ؟ اور ہمارے اَرد گِرد کس کس میں کیا کیا نشانی پائی جاتی ہے ؟ اور اگر
ہمارے اندر اِن میں سے کوئی نشانی ہے تو اُس سے نجات کی کوشش کریں، اور
اپنے جِس مُسلمان بھائی بہن میں اِن میں سے کوئی نشانی پائیں اُسے بھی
حِکمت اور نرمی کے ساتھ آگاہ کرتے ہوئے اصلاح کی رغبت دلائیں، اللہ تعالیٰ
ہم سب کو مُنافقت اور مُنافقین سے محفوظ رکھے آمین ۔
|