جمعہ نامہ:آج کھلا دشمن کے پیچھے دشمن تھے ،اور وہ لشکر اس لشکر کی اوٹ میں تھا

ارشادِ ربانی ہے: ’’ خبردار صاحبانِ ایمان ،مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں ‘‘۔ سورہآل عمران کی اس آیت 28 کا درس ہو تو سامعین اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ ہے اگر ہم کافروں سے دوستی نہیں کریں گے تو ان تک اسلام کی دعوت کیسے پہنچائیں گے؟ اس کیوجہ یہ ہےکہ بیشتر اردو ترجموں میں ’ولی ‘ کا ترجمہ دوست کیا گیا ہے لیکن یہاں معاملہ شناسائی یا رفاقت کا نہیں بلکہ ولایت کا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۷ میں جہاں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ولی استعمال ہوا ہے تو اکثر لوگوں نے اس کا ترجمہ مددگار، کارساز اور سرپرست کیا ہے۔اب اگر سوال کیا جائے کہ کسی کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے کیا اس کو اپنا سرپرست یا کارساز بنانا ضروری ہے؟ تو ہرکوئی جواب دے گا کہ ہرگز نہیں ۔ اس تناظر میں جائزہ لینا چاہیے کہ فی الحال اسرائیل سے دوستی کے مراسم استوار کیے جارہےہیں یا اسے مددگار ، کارساز اور سرپرست بنایا جارہا ہے ؟ ویسے غاصب اسرائیل تو اپنے ظلم و جبر کے سبب اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس سے دوستانہ تعلقات رکھے جائیں لیکن یہاں تو معاملہ دوستی سے بہت آگے بڑھا ہوا ہے ۔

اس آیت میں مذکور’مومنین کے سوا یا چھوڑ کر‘ کا اطلاق تو سیدھے سیدھے فلسطینی مسلمانوں پر ہوتا ہے ،یعنی اپنے معتوب بھائیوں کی مدد و سرپرستی کرنے بجائے ان کے دشمنوں کو اپنا سرپرست و کارساز بنا لینا اہل ایمان کو زیب نہیں دیتا بلکہ یہ تو ایمان کے سراسر منافی ہے۔ آگے فرمایا کہ :’’جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا ‘‘۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ اہل ایمان سے تعلق توڑکر ان کےدشمنوں کو ولی بنانے والوں سے اللہ تعالیٰ اعلان برأت فرما رہا ہے۔ اس بات کو سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت سے سمجھا جاسکتا ہے فرمان ربانی ہے:’’اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمن کو اپنا ایسا (جگری) دوست نہ بناؤ کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگو ‘‘۔ یعنی جس کو تم اپنا ولی سمجھ رہے ہو وہ نہ صرف تمہارا بلکہ اللہ کا بھی دشمن ہے۔ اس کے بارے میں مزید فرمایا کہ :’’حالانکہ وہ اس (دینِ) حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے اور وہ رسولِ خدا(ﷺ) کو اور خود تم کو محض اس بنا پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو ‘‘۔ غاصب اسرائیل نہ صرف حق کا منکر ہے بلکہ اس کا فلسطینیوں کو جلا وطن کرنا بھی جگ ظاہر ہے اور چونکہ پوری امت جسد واحد ہے اس لیے ان کو وطن سے نکالنا خود ہمیں بے وطن کرنے کے مترادف ہے۔

اسرائیل سے دوستی کرنے والے چونکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلے ہی نہیں ہیں اور چوری چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا رفاقت کا اعلان کررہے ہیں اس لیے آیت کےاس حصےکا اطلاق تو ان پر نہیں ہوتا کہ :’’ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے گھروں سے) نکلے ہو؟ تم چھپ کر ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو‘‘ لیکن اس کے بعد والی بات تو من و عن ان پر صادق آتی ہے کہ :’’اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔سورۂ آل عمران کی آیت28 میں :’’مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے ‘‘ کا استثناء توان پر نہیں ہوتا لیکن جو فرمایا گیا کہ :’’اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘ کا اطلاق ضرور ہوتا ہے۔ فی زمانہ اقتدار کی ہوس میں دشمن سے ہاتھ ملانے والے اس حقیقت سے غافل ہو گئے ہیں کہ انہیں پلٹ کر اپنے رب کے پاس جانا ہے۔ اسی سورہ کی آیت 26 بات واضح کرتی ہے:’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔ حکمراں جب اس قائدۂ کلیہ کو فراموش کردیتے ہیں توانور سادات کی طرح پہلےان کی عزت کو ذلت سے بدلا جاتا ہے اور پھر اقتدار سے بھی محروم کردیا جاتا ہے کیونکہ ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220761 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.