کچھ راستے بہت کٹھن ہوتے ہیں۔مشکلات ختم ہونے کا نام ہی
نہیں لیتیں۔انسان خود کے لئے مصیبتیں خود ہی تلاش کر کے لاتا ہے اور راہ پر
بچھا دیتا ہے۔پھر سوچتا ہے کہ اس پر کیسے چلا جائے.اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس
راہ پر چلنا دشوار ہے۔پھر صبر کرنا پڑتا ہے یا یوں کہنا شاید غلط نہ ہوگا
کہ انسان یہ سب خود کو صبر سکھانے کے لئے ہی کرتا ہے۔
''اُف عمر یہ دیکھو میرا سر پھٹا جا رہا ہے مجھے دوا لا دو میں سونا چاہتا
ہوں''
عمر اُٹھا اور جا کر کچن میں اوپر والی الماری سے دوا والا ڈبہ نکال کر اس
میں سے دوا لے آیا۔۔
''اب یہ دوا کیا سوکھی کھا جاؤں تاکہ گلے میں اٹک جائے تمہاری جان تو چھوٹے
مجھ سے ایسا ہی ہے نا عمر؟پانی بھی لے ہی آتے''۔۔۔علی شدید سر درد کی وجہ
سے غصہ کر رہا تھا،وہ چڑچڑا ہو چکا تھا۔خیر عمر نے پانی لا کر دیا اور تب
تک پاس بیٹھا رہا جب تک علی سو نہ گیا۔کچھ دیر اس کے پاس بیٹھنے کے بعد عمر
نے علی کے تپتے ہوئے ماتھے کو چوما اور کمرے سے باہر چلا گیا۔باہر نکلتے ہی
علی کے باؤ جی کو سلام کیا اور اپنے گھر کا رستہ لے لیا۔
عمر سوچوں میں گم گاڑی چلاتا رہا۔
اسے علی کے بیماری اور مشکلات سے قبل کے سہانے دن یاد آ رہے تھے. لیکن وقت
کا پہیہ ایسا گھوما تھا کہ ہر چیز بدل گئی تھی.
''یا خدا اب آگے کیا ہو گا؟
عمر سفر کے سارے دورانیے میں صرف اتنا ہی بولا اچانک اس کا دھیان سڑک پر
پڑے لال رنگ کے بستے پر گیا اپنی نظریں وہی جمائے عمر نے گاڑی کی رفتار کو
آہستہ کرنا شروع کر دیا۔اب عمر کی نظریں اس بستے پر تھیں۔وہ گاڑی میں بیٹھے
پانچ منٹ تک اس بستے کو گھورتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا اس بستے میں کیا ہو سکتا
ہے؟
اتنا قیمتی دکھنے والا بستہ ایسے کیوں پھینکا جا سکتا ہے؟
کیا کوئی اسے بھول گیا ہے؟یا یہ کسی دہشت گرد کی سازش ہے؟
لیکن اس ویرانے میں ایسی سازش کس کام کی؟
ضرور کوئی اسے جان بوجھ کر یہاں چھوڑ کر گیا ہے مگر اس میں ہو گا کیا؟
پیسے؟
کپڑے؟
یا کسی لاش کے ٹکڑے؟
کئی سوال اس کے ذہن میں اٹھ رہے تھے.اتنا سوچنا تھا کہ عمر بے اختیار بولا
''نہیں۔۔نہیں۔۔۔۔ میں نہیں جا سکتا''
مگر بے چینی اتنی تھی کہ اسے آخرکار رکنا ہی پڑا۔اﷲ کا نام لے کر گاڑی سے
اُترا مگر نظریں بستے پر ہی تھیں۔ڈرتے ڈرتے پاس گیا تو گاڑی کے پاس سے بلی
کی آواز سے چونک گیا۔اﷲ کے ذکر کو اور بلند کرتے ہوئے بستے کے آس پاس نمی
ڈھونڈنے لگا کہ کہیں خون موجود تو نہیں۔
مگر جیسے ہی بستے کے اندر سے ہلکی سی آواز آئی تو عمر ہکا بکا ہو گیا پاؤں
زمین پر جم گئے۔سردی کے موسم میں بھی پسینے آنے لگے۔مگر ہمت کر کے اس نے
بستے کی گلابی رنگ کی زپ کو کھولا اور دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اس لال رنگ کے
بستے میں ایک بچہ موجود تھا۔جس کی عمر اندازے کے مطابق قریب قریب چھ یا سات
ماہ ہو گی۔بچے کا رنگ سردی کی وجہ سے زرد پڑ چکا تھا۔عمر اس سوچ میں پڑ گیا
کہ اسے پولیس کے حوالے کر دینا چاہئے یا نہیں۔مگر اس نے پولیس کی لاپرواہی
کے کئی قصے ُسن رکھے تھے۔پھر وہ ان جھمیلوں میں پڑنا بھی نہیں چاہتا
تھا۔عمر نے اس بستے کو بند کیا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھتے ہی بستے کی
وہ گلابی زپ کو تھوڑا سا کھول دیا تاکہ بچہ باآسانی سانس لے سکے۔ وہ جلدی
سے گاڑی میں بیٹھ گیا اور بیٹھتے ہی آس پاس نظر دوڑانے لگا کہ کسی نے اسے
ایسا کرتے دیکھا تو نہیں.
کمرے سے گلاس کے گرنے کی آواز آئی۔باؤ جی آواز سن کر چوکنا ہو گئے اور بھاگ
کر کمرے کا دروازہ کھولا۔دروازہ کھولتے ہی دنگ رہ گئے.علی نیچے گرا ہوا
تھا۔باؤ جی بھاگ کر علی کے پاس گئے اور زور زور سے چلانا شروع ہوگئے
علی بیٹے اُٹھو۔۔
''تمہیں کیا ہوا ہے تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟''
باؤ جی بہت پریشان ہو چکے تھے۔
باؤ جی کی بے چینی اتنی بڑھ چکی تھی کہ علی کے ہوش میں آنے تک ان کے ماتھے
پر پریشانی کی سلوٹیں نہ ہٹنے والی تھیں۔
باؤ جی کو یاد آیا کہ گلاس کے گرنے کی بھی آواز آئی تھی انہوں نے اسی
پریشانی کے عالم میں دیکھا کہ کہیں شیشے کا گلاس ٹوٹ کر علی کے نا لگ گیا
ہو.
باؤ جی کی نظر علی کی ٹانگ پر گئی.اسکی ٹانگ سے خون بھی بہہ رہا تھا۔
باؤ جی یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ فون اُٹھا کر عمر کو کال کرنے لگے۔جب
بھی نمبر ملاتے دوسری طرف سے جواب نہ آتا۔
تقریباََ دس بار ایسا ہوا اور اس کے بعد کال مل گئی۔
''ہیلو میں بول رہا ہوں..کہاں ہو؟...کس حال میں ہو؟...جلدی آجاؤ...علی کی
طبیعت۔۔'' باو جی ایک ہی سانس میں بولتے چلے گئے.
میں ڈرائیور بات کر رہا ہوں'' اسلم باؤ جی کی بات کاٹتے ہوئے بولا...''صاحب
جی ہسپتال کے اندر گئے ہیں میں باہر گاڑی میں بیٹھا ہوں''
''ہسپتال؟...کیا ہوا؟..''باؤ جی نے کہا...''میری اس سے فوری بات کرواو بہت
ضروری ہے۔''
ڈرائیور جلدی سے گاڑی سے نکلا اور فون کان کے ساتھ لگائے ڈاکٹر اشفاق صاحب
کے کمرے کی طرف بھاگا کیونکہ ڈرائیور جانتا تھا کہ عمر صاحب اشفاق صاحب کے
کمرے میں ہونگے کیونکہ اشفاق صاحب عمر صاحب کے خالو تھے۔
دروازہ کھلتے ہی عمر اور اشفاق صاحب نے اسلم کو دیکھا
''صاحب جی فون ہے''
''اسلم کیا ہوا تم بھاگ کر کیوں آرہے ہو اور فون پر کون ہے؟''
''صاحب جی علی صاحب کے دادا جی کا فون ہے۔''
''اوہ مائی گاڈ میں فون گاڑی میں ہی بھول گیا تھا۔'' عمر نے کہہ کر فون کان
سے لگایا...''جی باؤ جی کیا حال ہے؟''
''عمر بیٹا جلدی آؤ علی گر گیا ہے اور خون بھی بہہ رہا ہے'' دوسری طرف سے
باؤ جی بولے
''خون؟گر گیا؟کیا ہوا کیا؟باؤ جی میں ابھی آرہا ہوں''
عمر اتنا کہتے ہی اسلم سے کہنے لگا کہ جب تک میں نہیں آتا تم یہاں ہی رہو
گے.
''خالو مجھے کچھ دیر کی اجازت دیں میں ابھی حاضر ہوتا ہوں''
یہ کہہ کر وہ گاڑی کی طرف بھاگا۔
وہاں باؤ جی رات کے اس پہر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔کبھی گیٹ کو
دیکھتے تو کبھی لاش کی مانند پڑے اپنے لخت جگر کو۔باؤ جی کی بے چینی بڑھتی
جا رہی ہے.
اﷲ کا ورد کے علاوہ ابھی وہ کچھ کرنے سے قاصر تھے۔
جب اور انتظار نہ ہوا تو فون اُٹھا کر پھر سے عمر کو کال ملانے لگے۔
عمر گاڑٰی چلاتے وقت موبائل فون کی طرف دھیان نہ لا سکا۔
اسی اثنا میں باؤ جی کو بھی پریشانی کے باعث چکر آنے لگے۔
مگر وہ چکر اس وجہ سے واپس ہو لئے کہ باؤ جی نے گاڑی کے ہارن کی آواز سن لی
تھی باؤ جی کو سکون کا سانس آیا اور کھڑکی کی جانب بھاگے اور سوچا ضرور عمر
ہو گا۔
''بھاگو جلدی بھاگو دروازہ کھولو''
باؤ جی نے چوکیدار سے کہا.
چوکیدار نے بھاگ کر دروازہ کھولا عمر گاڑی اندر لے آیا اور بھاگتا ہوا کمرے
میں پہنچا تو علی کو زمین پر گرا دیکھ حیران رہ گیا اسے جلدی سے اُٹھایا
اور گاڑی میں ڈالنے لگا۔
باؤ جی بار بار صرف اتنا کہتے رہے کہ دیکھ کر دھیان سے چوٹ بھی لگی ہے
کہیں پھر سے گر نہ جائے۔
''باؤ جی آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا آپ گھر بیٹھیں میں اسے لے
کرجا رہا ہوں۔''
اتنا کہتے ہی عمر کی گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
عمر کا سفر علی کے گھر سے لے کر ہسپتال تک انتہائی کٹھن گزرا تھا.
عمر نے اشفاق صاحب کو کال کی۔
''اشفاق صاحب ایک اور مریض لے کر آرہا ہوں آپ ابھی نہ جائیے گا۔اور بچہ
کیسا ہے؟''
''جی عمر بیٹا آجاؤ میں ادھر ہی ہوں اور بچہ نہیں وہ بچی ہے اور خطرے سے
باہر ہے۔''
''تھینک گاڈ۔۔۔''
عمر نے سکون کی گہری سانس خارج کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کی تاریکی میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ایک لڑکی دور آسمان پر موجود چاند کو
دیکھ رہی تھی. اُس چاند کی روشنی سے سارا صحن روشن تھا.۔ہلکی ہلکی ہوا
سائیں سائیں کی آواز کے ساتھ چل رہیں تھی۔آنکھوں میں آنسو لئے وہ لڑکی کافی
دیر تک یہ نظارہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتی رہی۔یوں لگ رہا تھا کہ وہ یہ
سب اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لینا چاہتی ہو.وہ اپنی نظروں کو چاند پر ہی
جمائے بیٹھی تھی جب ہی بادلوں میں کھینچا تانی شروع ہوئی اور چند لمحوں میں
چاند ان کے پیچھے کہیں چھپ گیا. کون جانے چاند کس کے دکھ سے منہ چھپا بیٹھا
تھا.
ہواؤں میں بھی تیزی آنے لگی اور زور زور سے چلنے لگیں.وہ اپنے خیالوں میں
گم تھی اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہو گا۔
چاند اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا اور اسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں
ہوا کہ وہی چاند جسے وہ پچھلے کئی وقت سے دیکھ رہی تھی اب وہ وہاں موجود
نہیں تھا۔یوں لگتا تھا کہ جیسے اسکا ذہن کہیں اور ہی بھٹک رہا تھا اور
نظریں کہیں اور۔اُس کے ذہن میں کیا چلتا تھا وہ اپنے گھر والوں کو بھی نہ
بتاتی تھی۔ان لمحات میں اسکی ماں دو بار آکر جا چکی تھی مگر اسے بھنک تک نہ
لگی تھی۔اور اُس بیتے وقت میں اس نے خود سے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ '' محبت
کرنا تو کوئی جرم نہیں؟''۔اس کے اپنے ہی سوال نے اسے اندر سے ہلا کر رکھ
دیا تھا۔
کچھ ہی لمحوں کے بعد بارش کی بوندوں نے بادلوں سے نکل کر چھلانگیں لگا
دیں۔بادلوں نے بھی اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لئے زور زور سے گرجنا شروع
کر دیا۔معاً اس نے دوبارہ خود کو اسی جگہ پایا جہاں وہ رہتی تھی اب وہ اپنے
خیالوں سے باہر آ چکی تھی۔ساتھ والے کمرے میں موجود ماں کے کھانسنے کی آواز
سن کر وہ فوراََ سے ماں کے پاس چلی گئی. جانے سے پہلے آنسوؤں کو صاف کرنا
نہ بھولی تھی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر صرف اتنا ہی کہہ پائی
''امی جان آپ ابا جان سے بات کیوں نہیں کرتے؟
''میری جان تیرے ابا جی سے بات کرنا بے سود ہے وہ کسی کی نہیں سنتے تم تو
جانتی ہو میری بچی۔''
''پر ماں میرا قصور تو بتائیں آپ لوگوں کی عزت رکھنا میرا فرض ہے مگر ایک
بار یہ تو سوچا ہوتا کہ آگے جا کر حالات کیسے ہو جائنگے۔ میں آپ کی بیٹی
ہونے کے ساتھ ایک مکمل انسان بھی ہوں.جسکے کچھ جذبات بھی ہیں ''
اقراء کے ابا نے سلیم بھائی جان کو زبان دے رکھی تھی کہ اقراء کا نکاح چچا
سلیم کے بیٹے معاذ سے ہو گا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب اقراء کی عمر کم و بیش
4 ماہ تھی اور آج اس بات کوتقریباََ بیس سال بیت چکے تھے. اب حالات بدل چکے
ہیں اقراء جوان ہو چکی تھی اور یونیورسٹی کی طالبہ تھی وہ پڑھائی کے ساتھ
ساتھ دوسری سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا کرتی تھی۔اسی دوران اسے اسکے
جذبات و احساسات کو سمجھنے والا مل گیا تھا۔اسکی ناراضی اور غصے پر جان
نچھاور کرنے والا.
علی،اقراء سے سینئر تھا۔ یونیوسٹی میں منعقد کردہ مشاعرہ میں انکی ملاقات
ہوئی اور انہی کچھ لمحات میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نظر کے ساتھ ساتھ دل
بھی ملا بیٹھے۔اقراء بہت حساس طبیعت کی لڑکی تھی وہ علی کے ساتھ گزرا ہر
وقت یادگار بنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی۔وہ اسے اپنی دنیا سمجھ بیٹھی
تھی مگر اسے کیا معلوم تھا کہ قدرت کو کچھ اور منظور ہونے والا ہے۔
ایک روز علی اور اقراء یونیورسٹی کے بعد علی کے گھر چلے گئے اس نے اپنے
دوست عمر کو بھی گھر بلایا اور اتنا ہی کہا کہ جلدی گھر آؤ تمہیں کسی سے
ملوانا ہے۔گھر میں علی اور باؤ جی کہ علاوہ کوئی بھی نہ ہوتا تھا۔باؤ جی
علی کے دادا تھے علی کے والدین کچھ عرصہ پہلے ایک کار ایکسیڈنٹ میں مارے جا
چکے تھے۔عمر گھر آیا باؤ جی اور عمر کو کہا کہ ماں باپ کے بعد آپ لوگوں نے
میرا بہت ساتھ دیا ہے مجھے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی آج آپ لوگوں کو
ایسے انسان سے ملوانے والا ہوں جو مجھے میرے وجود کا احساس دلاتی ہے جو
مجھے جینا سکھا رہی ہے۔یہ اقراء ہے اس سے میں یونیورسٹی میں ملا تھا۔عمر
اور باؤ جی کے چہرے خوشی سے گلنار ہوگئے.
باؤ جی نے اُٹھ کر اقراء کے سر پر پیار دیا اور کہا. ''بیٹا ہمیشہ خوش
رہو۔''
عمرجھٹ سے بولا ''بھابھی جی ہمارے لڑکے پر ایسا کیا جادو کر دیا۔۔۔''
اقراء کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ واضح دیکھی جا سکتی تھی۔
''مجھے علی میں وہ نظر آیا جو بچپن سے اب تک خوابوں میں دیکھا ہے۔''اقراء
بولی.''محبت دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی وہ سیدھا اندر آجایا کرتی ہے اور دل میں
جگہ بنا کر اثر چھوڑنا شروع کر دیتی ہے۔
''واہ واہ واہ واہ واہ''۔۔۔۔۔۔عمر کو تو مانو واہ واہ کہنے کے پیسے دیے گئے
تھے وہ واہ واہ کرتا چلا گیا۔
''چلو بھئی بس بھی کرو''۔۔علی بولا۔۔۔۔''۔اب آپ لوگ سمجھے میرے دل کو یہ
کیوں بھا گئی۔''
''جی جی سمجھ گئے جناب شاعر صفت انسان کو محبوبہ بھی افسانوی ملی۔''
ہاہاہا باؤ جی قہقہہ لگا کر ہنسے۔۔۔
''بیٹا خوش رہو اور اپنے گھر والوں سے بات کرو اور ہمیں گھر آنے کا شرف
بخشو۔''
یہ سننا تھا کہ اقراء کے حواس باختہ ہو گئے وہ کچھ پل کے لئے جیسے صدمے میں
چلی گئی.
علی اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اسے ہلا کر پوچھا کہ ''کیا ہوا''
''نہیں کچھ نہیں۔۔۔علی گھر جانا ہے مجھے اب کافی دیر ہو چکی ہے۔''
''ارے ایسے کیسے''۔۔۔۔عمر بولا۔۔۔
''بھابھی جی کچھ کھا پی کر تو جائیں پہلی بار آئی ہیں۔''
''نہیں عمر بھائی ان شاء اﷲ میں پھر آؤنگی۔''
''جی اچھا ٹھیک ہے۔''
علی اقراء کو چھوڑنے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں پھیلی مہیب خاموشی عجیب سا حبس پیدا کر رہی تھی۔
''اقراء کیا ہوا کچھ بولو تو سہی...باؤ جی اور عمر سے مل کر کیسا
لگا؟...تمہیں پتہ ہے یہ لوگ ہی میری زندگی ہیں اور شرارتی لڑکی مجھے یہ تو
بتاؤ یہ اچانک سے تمہیں کیا ہوا کہ گھر نہ رک سکی اور اپنے گھر جانے کی رٹ
لگا لی۔۔۔۔ارے میں کب سے بول رہا ہوں اور تم چپ ہو...لو بھئی پتہ بھی تو
چلے ایسی کیا بات ہے۔...نہیں بتانا؟''
اقراء علی کو سُن رہی تھی مگر اسکے معصوم چہرے پر چھائی اداسی دیکھی جا
سکتی تھی۔ ان کے اندر ایک طوفان موجزن تھا. وہ اپنے وجود میں بکھری لہروں
کے تلاطم کو ٹھنڈا کر رہی تھی. وہ آنے والے وقت کا سوچ کر جیسے رک سی گئی
تھی.
''ٹھیک ہے بھئی نہ بتاؤ میں بھی چپ ہو جاتا ہوں
آئندہ بولوں گا ہی نہیں''
یہ سن کر اقراء نے فوراً سے بیشتر اپنا چہرہ علی کی طرف کیا اور کہا. ''علی
نہیں تم ایسا نہ کرنا تم نہیں بولو گے تو کائنات خاموش ہو جائے گی ہر چیز
بے سُری ہوگی یہ رنگینیاں ختم ہو جائینگی
الفاظ بے معنی ہو جائینگے تم ایسا مت کرنا.بولو جتنا بولنا ہے....بولو میں
سن رہی ہوں نا...پوچھو کیا پوچھ رہے ہو۔''
''ایک تو جب تم یہ پیارے پیارے بلکہ میٹھے میٹھے جملے بولتی ہو تو دل کرتا
ہے سب غم بھلا دوں
اچھا یہ بتاؤ ہوا کیا ہے۔''
''علی تم گاڑ ی ذرا سائیڈ پر روکو میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں جو تمہیں
بہت اطمینان سے سننا ہے۔''
ارے بھئی ایسا کیا ہے بتاتی جاؤ میں سن رہا ہوں.''
''نہیں علی پلیز'' اقرا نے اصرار کیا
''اوکے بابا یہ لو.'' علی نے گاڑی کو بریک لگائے اور ڈرائیونگ سیٹ کو ذرا
سا پیچھے کھسکا کر بولا...''ہاں بابا اب بولو کیا بات ہے یہ لب کیا بولنا
چاہتے ہیں''
''علی میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عشق ایک ایسا مرض ہے جو لا علاج
ہوتا ہے اور مجھے یہ مرض ہو چکا ہے مگر یہ مرض میرے لئے واقعی جان لیوا
ہے۔'' اقراء نے کہا.
''ہیں کیا مطلب؟ اقراء کیا کہنا چاہتی ہو کھل کر بتاؤ''
اقراء علی کو سب کچھ بتاتی چلی گئی اور علی اسے اطمینان سے سنتا رہا سب کچھ
سننے کے بعد علی نے اقراء کو گھر چھوڑا اور عمر کو کال کی.
''عمر جانی کہاں ہے؟''
''بھائی گھر ہوں!''
''میرے گھر آجا!''
''بھائی ابھی تو آیا تھا''
''بھائی آجا ضرورت ہے تیری۔'' علی کی آواز بھاری ہو چکی تھی
''میرے بھائی کیا ہوا ہے اچھا رک میں آرہا ہوں۔''
کچھ ہی دیر میں عمر اور علی ایک ساتھ موجود تھے
''ہاں بھائی بول کیا ہوا؟'' عمر نے گفتگو کا آغاز کیا.
''عمر تمہیں اقراء کیسی لگی؟''
ارے یہ بات تھی یار کال پر ہی پوچھ لیتا ضرور چکر لگوایا'' عمر علی کے سوال
پر حیرن ہوا تھا
''عمر میں سنجیدہ ہوں''
''اچھا اچھا۔۔۔بھابھی بہت اچھی ہیں تیرے لئے ایک دم پرفیکٹ ہیں۔..مگر ہوا
کیا؟''
''ہاں عمر پرفیکٹ تو ہے مگر وہ میرے لئے نہیں ہے۔''
''ہیں کیا ہوا کیا کہہ رہا ہے تو بول کیا رہا ہے؟...عمر حیران ہو
گیا...''بھائی بتا مجھے۔''
علی نے عمر کو اقراء کی وہ سب باتیں بتادیں جو اس نے اسے گاڑی میں بتائی
تھیں۔وہ باتیں سلیم کے بیٹے معاذ کے متعلق تھیں کہ ان کے گھر والے انکا
فیصلہ انکے بچپن میں ہی کر چکے تھے۔
عمر غصے سے آگ بگولا ہو گیا
''اسکی اتنی ہمت جب یہ سب جانتی تھی تو تم سے محبت کا ڈھونگ کیوں
رچایا؟...علی تم بھی بچے ہو کسی کی بھی باتوں میں آجاتے ہو۔''
''عمر میری بات تو سنو...یہ بات اقراء کو بھی کچھ دن پہلے معلوم ہوئی وہ
کچھ دنوں سے سہمی سہمی رہتی تھی اسی لئے اپنے گھر لایا تھا کہ تم لوگوں سے
ملے گی تو اچھا محسوس کرے گی۔''
''اچھا پھر کیا کرنا ہے اب''....عمر صوفے پر پالکی مارتے ہوئے
بیٹھا...''اسے معلوم کیسے ہوا؟''
''اقراء نے کچھ دن پہلے ہی اپنی ماں سے ہمارے بارے میں بات کی تھی مگر یہ
سب سنتے ہی اسکی ماں نے اقراء کو سب بتا دیا اور اقراء کے والد سے بات کرنے
سے منع کر دیا۔عمر کچھ کر میں اس کے بغیر دنیا کے رنگ نہیں دیکھ پاؤں گا۔''
علی بولا
''علی میری بات سنو اب ساری کوششیں بے سود ہونگی کیونکہ تم جان چکے ہو کہ
اسکے والد ایسا کبھی نہ ہونے دینگے۔'' عمر نے دوٹوک جواب دیا
''نہیں کرو کچھ تم کچھ بھی کر سکتے ہو'' علی نے پراعتماد لہجے میں کہا
''اچھا اچھا رکو کچھ سوچنے دو۔'' عمر سوچ میں پڑ گیا.
لیکن وقت کے بے رحم پہیے نے دو معصوم دلوں کو چیرنے کا فیصلہ کر لیا تھا.
وہ فیصلہ جس سے کتنی ہی زندگیاں تبدیل ہونے والی تھیں پر وقت کہاں کسی کے
لئے رکتا ہے.بس بعض انسان کہیں رک جاتے ہیں اور کچھ انسان کھو جاتے ہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا سارا نظام درہم بھرم ہوا تھا سب ہاتھوں پر ہاتھ رکھے ٹوٹے سامان کو
دیکھتے رہے اقراء گھر میں داخل ہوئی تو سب بکھرا دیکھ کر پریشان ہو
گئی۔اقراء نے بمشکل حلق سے سانس اتارا اور کمرے میں چلی گئی۔
اور اپنے بابا کے چلانے کی آوازیں سننے لگی وہ اﷲ سے دعائیں مانگنے لگی.
''یا اﷲ سب خیر ہو۔تو سب جانتا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ یا اﷲ سب خیر رکھنا''
معاً اقراء کے بابا اسکی والدہ کا ہاتھ پکڑے کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ
''لے تیری لاڈلی آگئی پوچھ لے اس سے تجھے میری بات کا یقین نہ آئے گا۔''
اب اقراء کی والدہ کیا بولتی وہ تو سب جانتی تھیں۔اقراء ان سے اپنے دل کی
بات بیان کر چکی تھی۔
اقراء ہمت کرکے بولی. ''بابا کیا ہوا ہے؟''
''کیا ہوا ہے؟...یہ تو مجھ سے پوچھ رہی ہے۔خدا غارت کرے تجھے تو نے ہماری
عزت مٹی میں ملا دی اور پوچھتی ہے کیا ہوا ہے؟''
اقراء آنسوؤں کوروک نہ پائی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر زمین کو دیکھتی رہی۔
''محلے کے لڑکوں سے اب میں تیری رنگ رنگیلوں کے قصے سنوں گا؟''
''بابا یہ جھوٹ ہے یہ الزام ہے آپکو کسی نے غلط بیانی کی ہے۔خدا کہ لئے
ایسا الزام نہ لگائیں.''
''میں تیری شکل نہیں دیکھنا چاہتا دفع ہو جا میری نظروں کے سامنے سے''
یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ اقراء کو بات سمجھنے کا موقع بھی نہ مل سکا. لیکن
وہ اپنے گھر میں پرائی ہو چکی تھی. اس کے تمام جذبات کو ایک لمحے میں جلا
دیا گیا تھا اس کو باکردار سے کب بد کردار بنا دیا گیا اسے معلوم ہی نا
ہوا. وہ یہ سمجھ ہی نا پائی کہ محلے کے چند اوباشوں کے کہے سے اسکی قسمت اس
کے بابا کیسے بدل سکتے ہیں؟ کیا ان کا یقین اتنا چھوٹا اور کم تر تھا جو
کسی کی بھی بات سن کر بکھر گیا تھا. لمحوں نے اسکو صدیوں کے غم دے دیئے
تھے. وہ صحراوں میں بھٹکتی ایک بے بس روح بن گئی تھی. جس کو اس کے اپنوں کی
زبان کی لوٹ لیا تھا.
اُدھر علی اور عمر اقراء کے بابا کو کسی طرح منانے کے منصوبے بنا رہے تھے
اور اِدھر دیکھتے ہی دیکھتے اقراء کے والد نے سلیم کے بیٹے معاذ سے اسکی
سادگی سے شادی کروا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر ہسپتال کے اندر گاڑی لے گیا اور اندر جانے سے پہلے ڈرائیور کو کال کر
کے باہر بلا لیا
وہ گاڑی سیدھا ایمرجینسی یونٹ کے باہر لے گیا علی کو جلدی سے سٹریچر پر
لٹایا گیا عمر نے ڈرائیور کو کہا ''جلدی سے گاڑی پارک کے آؤ۔''
علی کو اندر لے جایا گیا اور اشفاق صاحب ایمرجنسی وارڈ میں جاتے ہوئے نظر
آئے
ڈرپ اور دو ایک انجیکشن لگانے کے بعد اشفاق صاحب عمر کے پاس آئے اور کہا.
''تم پریشان نہ ہو معمولی سا زخم ہے سب ٹھیک ہو جائے گا''
''شکریہ خالو بہت شکریہ'' عمر کے چہرے پر شکر آمیز مسکراہٹ تھی۔
''لیکن یہ سب ہوا کیسے؟''...اشفاق صاحب عمر سے اندر کی بات جاننا چاہتے تھے
کیونکہ انہوں نے عمر کو ابھی یہ نہ بتایا تھا کہ علی کو ہوش بھی آیا تھا
اور وہ ایک ہی نام بار بار دہرا رہا تھا اور وہ نام اقراء کا تھا۔
''چلو ادھر سے چلتے ہیں میں تمہیں بچی کے پاس لے کر چلتا ہوں جسے تم لے کر
آئے تھے اور یہ سب بھی مجھے میرے کمرے میں جا کر بتاؤ''
عمر نے اسلم کو تلقین کی کہ یہاں سے ہلنا مت اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو
تم فوری مجھے اطلاع کرو.یہ کہہ کر وہ اشفاق صاحب کے کمرے میں چلا گیا۔
''خالو میں بچی کو دیکھنا چاہوں گا''
''ہاں عمر ادھر آؤ دکھاتا ہوں اس معصوم کلی کو تم بڑے صحیح وقت پر لے آئے
تھے ورنہ بچے سردی کو برداشت نہیں کر پاتے۔''
'' یہ اب بالکل خطرے سے باہر ہے نا؟''
''ہاں عمر اب تم بے فکر رہو اور مجھے ایک بات بتاؤ یہ اقراء کون ہے؟''
عمر حیران رہ گیا...''اقراء؟''
عمر کو ایک لمحے کے لئے خود بھی سمجھ نہ آیا کہ اقراء ہے کون۔
''اشفاق صاحب کیا ہوا؟اور یہ نام آپ نے کہاں سن لیا؟''
''عمر جب میں وارڈ میں تھا تو علی کو ہوش آیا تھا اور وہ بار بار اقراء کا
نام لے رہا تھا۔''
'' اب آپ سے کیا چھپانا میں بتا دیتا ہوں'' عمر نے تمام تفصیل اشفاق صاحب
کو بتا دی.
''خالو اب اسکا کیا بنے گا میں دن رات یہی سوچتا ہوں مجھے اس کی پریشانی
کھائے جاتی ہے۔''
''عمر تمہارے مطابق اسکے مقدر میں اب وہ لڑکی نہیں رہی جسے وہ چاہتا ہے''
''جی ''
اور یہ بھی سچ ہے کہ اسکا دل اب کسی اور سے نہیں لگتا بلکہ یہ لگانا ہی
نہیں چاہتا''
''جی۔۔۔۔میں کیا کروں میں اسکے ساتھ وقت گزارتا ہوں مگر اب تو یہ بھی میری
شکل دیکھ دیکھ کر اُکتا چکا ہے۔۔۔۔۔مگر میں اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔''
عمر بیچارگی سے بولا
اشفاق صاحب نے کچھ سوچنے کی غرض سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر سر کو پیچھے کی
طرف ٹکا دیا اور سوچنا شروع کیا.
لمبی سانس لینے کے بعد اشفاق صاحب نے عمر کی طرف دیکھا اور کہا کہ
َ''عمر بیٹا دیکھو...عشق اگر انسان سے ہو جائے تو تکلیف بھی دیتا ہے سکون
بھی لیکن ایک ذات ایسی ہے جس سے عشق کرنے کے بعد سکون ہی سکون ہے تکلیف
نہیں ملتی۔''
''میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔'' عمر ناسمجھی سے بولا
''دیکھو بیٹا علی کو اس انسان سے محبت ہے جو اسے مل نہیں سکا اوراب شاید
کبھی مل بھی نہ سکے
میرا مشورہ ہے اسے اس سے محبت کرنا سکھاؤ جو اسے مل جائے گا۔..
''میں سمجھ گیا کیا خوب بات کہی آپ نے
کیونکہ نہ اس کا دل کسی انسان سے لگتا ہے نہ کسی شے سے ''اسے عشق پیدا کرنے
والے سے عشق کرنا ہو گا۔'' مگر یہ سب ہو گا کیسے؟...عمر سر کھجاتے ہوئے
بولا
''بیٹا ایک بابا جی ہیں ان کے پاس جاؤ وہ تمہیں تمہارا مقصدِ حیات بتائیں
گے''
''جی بہتر مجھے انکا نمبر دے دیں یا کوئی لنک؟''
اشفاق صاحب نے قہقہہ لگایا....''ہاہا ہاہا نہیں عمر یہ کوئی فیس بک والے
بابا جی نہیں ہیں انکے پاس جانے کے لئے محنت درکار ہے.''
''کیسی محنت؟''
بیٹا اسے قرآن پڑھاؤ اور خود بھی پڑھو اسے مذہب سے جوڑو.اسے وہ بتاؤ جس سے
انسان اﷲ کے قریب ہو جاتا ہے. بیٹا وہی ایک ذات ایسی ہے جو بے نیاز ہے.
پھر اسکے بعد میں تمہیں خود بابا جی کہ پاس لے جاؤں گا''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''صاحب میں اندر آجاؤں؟'' یہ اسلم کی آواز تھی
''جی اسلم آؤ علی کا بتاؤ کیسا ہے اب؟''
''جی صاحب کو ہوش آگیا ڈاکٹر صاحب نے یہ پرچی دی ہے''
''ٹھیک ہے یہ مجھے دو اور تم وہی رہو میں ابھی آتا ہوں''
''جی ٹھیک ہے صاحب جی''
اسلم دروازہ بند کر کے چلا گیا
''دکھاؤ عمر یہ پرچی ادھر دو''
اشفاق صاحب نے اس پرچی کو دیکھا اور سائیڈ پر رکھ دی
''آؤ اسکو ملنے چلیں''
اشفاق صاحب اور عمر،علی کو ملنے چلے گئے
''علی میرے بھائی اب کیسے ہو؟ دیکھو تو ذرا کتنا خوبصورت انسان لیٹا ہوا
ہے'' عمر اسکے چہرے پر ہنسی لانا چاہتا تھا
علی نے عمر کی طرف ہاتھ بڑھایا عمر نے اسکا ہاتھ تھام لیا
اشفاق صاحب نے علی کی فائل کا جائزہ لیا اور کہا ''بیٹا بہت جلد تم گھر چلے
جاؤ گے۔عمر تم ذرا میری ایک منٹ بات سنو میں نے گھر بھی جانا ہے''
''جی انکل میں آیا'' عمر نے اُٹھ کر علی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا میں
ابھی آیا
''عمر اسکا جتنا خیال رکھ سکتے ہو رکھو''
''پریشانی کی بات ہے؟'' عمر تشویش سے بولا
''نہیں عمر بس اس کی رپورٹس اتنی بھی نارمل نہیں ہیں اسے دماغی آرام اور
سکون کی ضرورت ہے۔
کل تم اسے گھر لے کر جا سکتے ہو زخم کل تک بہت بہتر ہو جائے گا اور اس بچی
کو میں فلحال بچہ وارڈ میں بھجوا دیتا ہوں اسکی فکر نہ کرو اسکا بعد میں
سوچیں گے ابھی علی کا خیال رکھو۔'' اشفاق صاحب نے کہا.
''جی بہتر انکل جی آپکا احسان مند ہوں'' عمر نے ممنوئیت سے کہا
''کیسی باتیں کر رہے ہو بیٹے ہو تم میرے، سلامت رہو''
اتنا کہہ کر اشفاق صاحب چلے گئے.
عمر علی کے پاس گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا
عمر ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا تاکہ اسکا ذہن اقراء کی طرف نہ جائے مگر
علی بار بار اسکا ذکر شروع کر دیتا
''عمر اسکو خبر دو میں بیمار ہوں صرف ایک بار بتا دو وہ جہاں بھی ہو گی
آجائے گی'' علی بضد تھا
''علی میرے بھائی وہ نہیں آسکتی تو جانتا ہے کہ اب اس کی شادی ہو چکی ہے''
''نہیں تم نہیں جانتے یہ دو طرفہ عشق ہے اسکی ڈوری کوئی نہیں کاٹ سکتا میں
معاذ کے آگے ہاتھ جوڑ لوں گا اسکے پاؤں پڑ جاؤں گا کہ مجھے میری اقراء واپس
دے دے۔''
''نہیں علی وہ ایسا نہیں ہونے دے گا. تقدیر پر فیصلوں پر انسان کو سوال کا
اختیار نہیں ہوتا. اب تم خود کو سمبھالو اور اس معصوم کو بھی دعا دو کہ اب
وہ جہاں رہے عزت و احترام کے ساتھ رہے. محبت کی ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے
کرو. اب وہ اپنا آشیانہ شروع کر چکی ہے. اس کو اب واپس پانے کی بات کرنا
غلط ہے اور یہ بات محبت سے خود غرضی کی جانب انسان کو لے جاتی ہے. مجھے
معلوم ہے تمہارا عشق بے لوث تھا.
تم فلحال خاموش رہو اور آرام کرو بالکل کچھ بھی نہیں سوچنا ورنہ میں یہاں
کسی بھی نرس سے شادی کروا دونگا
وہ دیکھ وہ والی آنٹی تیرے لئے ٹھیک رہے گی''
علی مسکرایا...عمر کی مذاق کی عادت تھی اور وہ علی کے لئے فائدہ مند ثابت
ہوئی۔
علی کو جب گھر لے جایا گیا تو عمر ہی تھا جس نے اسے اپنی باتوں میں لگائے
رکھا اور کتاب لے کر پاس بیٹھ جایا کرتا تھا۔
وہ ذیادہ تر مذہب کی کتابیں پڑھتا تھا تاکہ علی یہ سب جان سکے اور سمجھ
سکے۔ہم بطور انسان تخلیق کیوں کیے گئے تھے. اللّہ کی ذات انسان سے کیا
چاہتی ہے. انسان کی حقیقی فلاح کا راستہ کیا ہے. واجبی سا دینی علم رکھنے
والے علی کے دل کے اندر ایک ایک بات گھر کرتی چلی جا رہی تھی. اس کا وجود
اندر سے دوبارہ جڑ رہا تھا مگر اس بار اس کی جگہ کہیں اور تھی.
عمر اور علی دونوں ہی پڑھے لکھے تھے اسی لئے انہیں کچھ بھی سمجھنے کے لئے
ذیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑتی تھی اور تو اور علی اب پہلے سے بہت بہتر ہو چکا
تھا مگر اقراء کا تذکرہ وقفے وقفے سے کرتا رہتا تھا مگر عمر اسکی رگ رگ سے
واقف ہو چکا تھا.
ایک روز اشفاق صاحب کا فون آیا علی کے بارے میں پوچھتے رہے علی بھی پاس ہی
موجود تھا
اشفاق صاحب نے اس سے بچی کے بارے میں پوچھا کہ کیا کرنا ہے ہم ذیادہ دیر
ہسپتال میں نہ رکھ پائینگے۔
''اشفاق صاحب بچی کے بارے میں تو میں نے کچھ نہیں سوچا چلیں میں ابھی کچھ
سوچ کر بتاتا ہوں''
علی فوراََ بولا ''بچی کون سی بچی؟''
''علی جب تم بیمار تھے تو مجھے واپسی پر ایک بیگ ملا تھا جس میں ایک بچی
موجود تھی میں اسے ساتھ ہی لے گیا تھا۔''
''کہاں ہے وہ بچی مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تم بھی شہزادے ہو عمر''
''لو بھئی تم نے کیا کر لینا تھا''
''میں اسے پالوں گا اسے اپنا لوں گا۔''
عمر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا...''یہ تم کیا کہہ
رہے ہو علی''
''میں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں اسکا نام اقراء رکھوں گا''
''اُف میرے خدایا''
''عمر تم چپ رہو اور اشفاق صاحب کو کال کرو مجھے وہ بچی ابھی اپنانی ہے''
''اچھا بابا یہ لو''
''ہیلو انکل کیسے ہیں آپ انکل جی میں تو نہ کچھ سوچ پایا مگر شہزادے علی نے
کچھ سوچا ہے
اس نے تو بچی کا سنتے ہی رٹ لگا لی ہے کہ وہ بچی یہ اپنائے گا اور اس کی
دیکھ بھال کرے گا'' عمر ساری بات بتائی
''علی نے ایسا کہا ہے؟''
''جی انکل''
''بیٹا کیا تم نے میری باتوں پر عمل کیا تھا جو میں نے تم سے کہی تھیں؟''
''جی انکل میں نے اتنا عمل کیا کہ اس کے ساتھ ساتھ میں بھی سمجھ دار ہو گیا
ہوں کونسی کتاب ہے جو میں نے اسے پڑھ کر نہ سنائی ہو''
''شاباش ایک عظیم اجر تمہارا منتظر ہے سلامت رہو۔
ٹھیک ہے یہ بچی اسکو دے دو اور میں نے فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ میں تم دونوں
کو کل ہی بابا جی کے پاس لے کر جاؤں گا۔''
''ارے واہ آخر وہ گھڑی آگئی جس کا ہمیں انتظار تھا''
''جی عمر بیٹا آج میں بچی بھجوا دونگا اسکے کاغذات وغیرہ دیکھ لینا''
''جی بہتر بہت شکریہ'' عمر نے فون بند کیا اور علی سے بولا. ''لے بھئی خدا
نے تجھے رحمت عطا کر دی''
''خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے عمر مجھے معلوم ہے یہ پھل مجھے اﷲ اور اسکے
رسولﷺ سے محبت کی وجہ سے ملا ہے۔جتنا شکرادا کروں کم ہے۔''
عمر کی آنکھوں میں آنسو تھے ''میرے بھائی تو نے میرا دل جیتا ہے آج۔''
اپنے آنسوؤں کو صاف کرکے علی کو گلے لگایا اور کتاب لے کر اسکے پاس بیٹھ
گیا
تھوڑی ہی دیر میں اشفاق صاحب کا ڈرائیور بچی کو لے آیا ساتھ ہی انکی کال
بھی آگئی انہوں نے کہا کسی بھروسہ مند خاتون کو ڈھونڈو جو اسکی دیکھ بھال
کرے تم لوگوں سے یہ نہ ہو پائے گا.
''جی انکل ضرور بلکہ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ ہم اسکی دیکھ بھال کے لئے کسی
کو کام پر رکھیں گے''
''اوکے ٹھیک ہے کل صبح تم دونوں میری طرف آجانا بابا جی کے پاس جانا ہے''
''جی بہتر بہت شکریہ۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''علی اٹھو بابا جی کے پاس جانا ہے۔''
علی ساری رات ٹھیک سے سو نہ سکا تھا وہ بچی کے ساتھ وقت بِتاتا رہا جب کبھی
زرا سی آنکھ لگ جاتی تو بچی کے شور سے اُٹھ جاتا.
''عمر تھوڑا اور سونے دو'' علی خمار آلود آواز میں بولا
''نہیں بھائی اُٹھو اشفاق صاحب وقت کے پابند ہیں ہمارا انتظار کر رہے
ہونگے'' عمر نے کیا...''یہ بچی باؤ جی کے حوالے کرو آج ہی اسکا بندوبست بھی
کریں گے گڑیا کے لئے نئے کپڑے بھی لائیں گے۔''
''گڑیا کا نام بھی ہے اقراء نام ہے اسکا'' علی چلایا
''اچھا بابا اچھا غصہ نہ کرو اُٹھو۔''
علی اور عمر اشفاق صاحب کے گھر پہنچے تو پہلے سے انہیں اپنا منتظر پایا
''چلو بچو چلیں ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے تم لوگ وقت کی پابندی کیوں نہیں
کرتے''
اشفاق صاحب کی پیاری سی ڈانٹ انہیں اچھی لگی
اشفاق صاحب نے انہیں گاڑی میں بیٹھ کر بابا جی کے بارے میں سب بتایا انہوں
نے بتایا کہ میں تمہاری خالہ کے جانے کے بعد ان بابا جی سے ملا تھا میرے دل
میں اﷲ سے بہت گلے شکوے بھر چکے تھے مجھ سے میری شریکِ حیات چھین لی
تھی۔مگر جب میں ان سے ملا مجھے معلوم ہوا کہ اصل میں زندگی کیا ہے۔
اشفاق صاحب باتیں کرتے رہے اور گاڑی ایسے رستے پر مڑ چکی تھی جہاں آبادی
بہت کم تھی۔
ایک سادہ سے گھر کے باہر جا کر گاڑی کی بریک لگی
تینوں اُتر کر کھڑے ہوگئے, دروازہ کھٹکھٹایا
اندر سے ایک سفید داڑھی والے بابا جی آئے
آنکھیں انکی موتی سی معلوم ہوتی تھیں اور چہرے پر مانو نور تھا ہاں وہ نور
ہی تھا
''اشفاق بیٹا تم آئے ہو آجاؤ اندر آجاؤ...یہ دو نوجوان کون ہیں؟''
تینوں اندر چلے گئے
''بابا جی یہ والا عمر ہے میرا رشتے دار ہے میرے بیٹوں جیسا ہے اور یہ لڑکا
علی ہے یہ عمر کا دوست ہے'' اشفاق صاحب نے واضع کیا.
''اچھا تم دونوں اس طرف بیٹھ جاؤ اور علی کو میرے پاس بیٹھنے دو۔'' بابا جی
نے فرمایا
علی اور عمر دونوں حیران تھے کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا۔جبکہ اشفاق صاحب نے
مسکراہتے ہوئے بابا جی کہ ہاتھ چومے اور حکم کے مطابق بیٹھ گئے
عمر کا ماتھا ٹھنکا اس نے فوراََ یہی اندازاہ لگایا کہ یہ بابا جی تو واقعی
پہنچے ہوئے ہیں دیکھتے ہی مریض پہچان گئے حالانکہ علی کے ماتھے پر مریض
لکھا بھی نہیں ہوا۔
عمر کے ایسا سوچنے پر بابا جی نے اسکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا
عمر ایک پل کے لئے ششد رہ گیا...''یہ ہو کیا رہا ہے۔''
بابا جی نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا...''علی کچھ سناؤ کبھی کچھ گنگنایا
ہو''
عمر مذید پریشان ہو اٹھا کیونکہ علی بہت پہلے گانے گایا کرتا تھا مگر یہ
یہاں گانے سنائے گا؟یا میرے خدا یہ لڑکا اب کیا کرے گا کہیں اس نے گانا
شروع کر دیا تو کیا ہوگا اشفاق صاحب کی عزت کی کیا رہے گی
اشفاق صاحب اطمینان سے بیٹھے سب دیکھتے رہے۔
''جی بابا جی میں اﷲ کے حبیب حضرت محمد ﷺ کی شان بیان کر کے سناتا ہوں ایسا
کرنا تو میرے بس میں نہیں مگر میں کوشش کرتا ہوں۔''...ایسا کرتے ہی علی نے
نعت خوانی شروع کر دی عمر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس نے یہ سب کب سیکھا
تھا یہ تو بس گانے گاتا تھا۔
نعت سُن کر بابا جی نے علی کے کندھے کو تھپتھپایا..عمر یہ سب دیکھ کر عجیب
کیفیت میں تھا. اس نے دیکھا کہ علی کی آنکھوں میں آنسو تھے.
بابا جی نے علی کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے پوچھا ''بیٹا اگر کبھی تمہیں
تمہارے خواب میں آپﷺ کا دیدار ہو جائے تو تم انکے در پر حاضری کے منظر کے
لیے کیا عرض کرو گے؟''
علی نے کہا...''بابا جی میں آپ کے اس سوال پر صدقے جاؤں قربان جاؤں میں
نظریں جھکا کر ہاتھ باندھ کر بڑے ہی ادب سے آواز کو دھیمے رکھتے ہوئے عرض
کروں گا یا رسولﷺ میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ جب بھی میں مدینہ پاک آؤں
میں آپ سے عشق کی انتہا کے لئے دنیا سے ناآشنا ہو کر گم ہو جاؤں اور وہاں
بارش ہو رہی ہو تاکہ میرے اندر عشق کی تپش باہر کی بارش سے مل جائے اور
میرے آنسوؤں کو چھپنے کا ٹھکانہ مل سکے. میرا عشق صرف آپ کے لیے ہے تو کوئی
اور کیونکر میری بے قراری کو دیکھے.
اور وہ کیاخوب شعر ہے نا کہ
کیسے انکی چوکھٹ پر خود پہ قابو پاؤنگا
ذکرِ مصطفیﷺ سے ہی چشمِ تر نکلتے ہیں''
عمر یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا اس نے سوچا کہ کتابیں تو دونوں نے پڑھی تھیں
پھر اس پر ذیادہ اثر کیسے ہوگیا
''واہ میرے شیر واہ''
یہ الفاظ عمر کے منہ سے یکدم نکلے۔
بابا جی،علی اور اشفاق صاحب نے عمر کی طرف دیکھا عمر شرمندہ ہو گیا
''معذرت چاہتا ہوں روک نہ پایا خود کو''
بابا جی مسکرائے اور بولے ''تمہارے دل کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں اﷲ تم دونوں
کی دوستی سلامت رکھے۔''
''آمین'' دونوں نے یک زبان ہوکر بولا تھا
''علی بیٹا میری تمنا ہے کہ تم اﷲ کے دوست بن جاؤ
تمہاری کُل کائنات وہی ہے تمہارے عشق کی نہ بجھنے والی پیاس کبھی دنیاوی
محبت سے تر نہ ہو پائے گی
اﷲ سے لو لگا لو وہ صاف دل والے پیاسے کو پاس بلاتا ہے اور اپنے قریب کرتا
ہے وہ تمہیں سکون دے گا وہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے بیٹا عشق ایک آگ ہے
جو محبوب کے سوا سب جلا دیتی ہے تمہارا راستہ عشق مجازی سے شروع تو ہوا ہے
مگر تمہیں عشقِ حقیقی کی طرف جانا ہے جب کوئی انسان عشق میں مبتلا ہوجائے
تو اسکا مقصود صرف معشوق ہوتا ہے۔ اور معشوق کے علاوہ ساری خواہشات اسکے
اندر سے آہستہ آہستہ ختم ہوناشروع ہو جاتی ہیں۔ نہ روزگار کی فکر، نہ کھانے
پینے کا ہوش نہ اپنے فرائض کا احساس اور نہ اپنے حقوق کا احساس۔ یعنی معشوق
کو پانے کی شدید خواہش انسان کو ہر چیز سے بے پروا اور غافل کر دیتی
ہے۔انسان کی صحت بھی گرنے لگتی ہے۔ عاشق سوکھ کر کانٹا ہوجائے، اس کی رنگت
پیلی ہوجائے تو یہ ایک معمول کی بات ہے۔...روحانی ترقی کیا ہے جانتے ہوکیا
ہوتی ہے؟ بابا جی نے نرمی سے علی کو تفصیلاً سمجھا کر سوال کیا
''نہیں بابا جی'' علی بولا
''روحانی ترقی کے لئے نفسانی خواہشات کو دبانا اور ترک کرنا پڑتا ہے۔ کھانے
کی خواہش کم سے کم کی جائے۔ نا کسی کی غیبت، نا چغلی نا فالتو بات، نا بے
حیائی کے کام الغرض ساری نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کی جائے۔
جب ایک عاشق صادق عشق میں کافی عرصے تک مبتلا رہے اور آہستہ آہستہ تمام
نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لے تو اسکی روح بہت طاقت ور
ہوجائے گی اور قرب الہی کا مزا چکھنے لگے گی۔ اور ایک وقت آئے گا جب عاشق
صادق قرب الہی کی لذت معشوق مجازی کے شوق سے بہت زیادہ پانے لگے گا تو
معشوق مجازی اسکا مقصود نہیں رہے گا اور عشق حقیقی اسکی منزل پا لے گا۔
تم میری ان باتوں کو گھر جا کر لازمی دہرانا، سمجھنا
ان پر عمل کرنا ہوگا۔''
''جی بابا جی میں سمجھ گیا ان شااﷲ میں ضرور عمل کرو نگا''...علی کی آواز
بھاری تھی جیسے وہ ابھی بھی رو رہا ہو۔
''تم لوگوں کو اجازت ہے جا سکتے ہو''...بابا جی جائے نماز پر بیٹھ گئے اور
وہ سب سلام کر کے چلے آئے.
''علی یہ سب کیا ہوا میں تو حیرت میں مبتلا ہوں''
عمر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھا
''عمر میں خود انکی باتوں میں کھو چکا ہوں تمہیں کیا بتاؤں''
علی گھر گیا بچی کو پیار کیا اسکے ساتھ وقت گزارتا مختلف کتابیں پڑھتا یوں
وقت گزرتا رہا اس نے کہیں پڑھا تھا کہ ''اﷲ کے ساتھ کاروبار کرو''
اس نے ایسا ہی کیا ہوا تھا بزنس کا بہت سا حصہ خیراتی اداروں کو خیرات دیتا
تھا رزق میں کبھی کمی نہ آئی تھی۔
باؤ جی علی کو ایسا کرتے دیکھ بہت خوش ہوتے تھے۔
اور عمر تو مانو اپنا گھر بھول ہی گیا تھا کبھی کبھی اپنے گھر جایا کرتا
تھا اسکے گھر والے سب جانتے تھے
علی اور عمر دن رات اﷲ کے بندوں کی مدد میں لگے رہتے یہاں تک کہ دونوں کا
کاروباری منافع اتنا ہو چکا تھا کہ ایک مدرسہ بناسکتے تھے.
پہلے باؤ جی اور پھر بابا جی سے اجازت لے کر انہوں نے یہ کام شروع کر دیا
رات دن ایک کر چُکے تھے۔
بچی جو کہ اب بڑی ہو رہی تھی وہ سکول بھی جانے لگی اسکی دیکھ بھال میں بھی
کوئی کمی نہ آئی
وہ علی کو بابا کہتی تھی۔
اور علی اسے میر ی اقراء بٹیا کہا کرتا تھا۔
علی اور عمر اﷲ کے کاموں میں اتنا مشغول ہو چکے تھے کہ دنیاوی خواہشات کی
طلب نہ رہی۔
وہ صرف اتنا چاہتے تھے کہ ایک ایسا شاندار مدرسہ بنے جس میں ہزاروں بچے اﷲ
اور اسکے رسولﷺ کا نام لے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز علی اور عمر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
''عمر ہم کیا تھے اور کیا بن گئے ہیں نا؟''
علی اور عمر ایک دوسرے کی طاقت تھے ان کی دوستی مثالی تھی.
''میں جب تمہیں پاس پاتا ہوں تو خود کو مکمل محسوس کرتا ہوں۔تم نہ ہوتے تو
میں گمراہ ہو چکا ہوتا۔تمہارے توسط سے ہی میں بابا جی سے مل پایا
اور یہ سب دیکھو کہ اب میں دنیا کا کتنا خوش نصیب انسان ہوں۔عمر اﷲ تم سے
راضی ہو''
''آمین میرے بھائی دیکھو اﷲ پاک نے دوستی دلوں میں ڈالی ہی اس لئے تھی کہ
ہم اسکے بتائے ہوئے راہ پر چل سکیں۔یہ بے تُکی خواہشات بلاوجہ کی ضرورتیں
کتنی بے رنگ سی ہیں نا؟ اصل رنگ تو اﷲ کی قُربت میں ہیں۔'' عمر نے کہا
''بے شک عمر اﷲ ہم سے ضرور خوش ہو گا اور یہ مدرسہ کسی امدادی فنڈز سے نہیں
چلے گا بلکہ یہ ہم خود چلائیں گے اﷲ ہمیں اتنا دے گا کہ کمی نہ آپائے گی۔
بھئی میں نے تو سوچ رکھا ہے کہ اس مدرسے کی تعمیر مکمل ہوتے ہی پہلی فجر کی
آذان میں ہی دونگا وہ کیا دن ہو گا۔'' علی نے کہا
''سبحان اﷲ علی اﷲ تم سے راضی ہو ان شاء اﷲ ایسا ہی ہو گا'' عمر کو دلی
خوشی ہوئی
''اچھا تم ایسا کرو اقراء کے سکول کے کام ایک نظر دیکھو. میں ذرا نماز ادا
کر لوں'' اتنا کہہ کر علی کمرے میں چلا گیا اور نماز کے لئے وضو بنانے لگا.
ادھر عمر اقراء سے باتیں کرنے لگا اسے سکول کے کام میں مدد کرنے لگا. ننھی
معصوم گڑیا اب دونوں کے جینے کی وجہ بن گئی تھی.
علی جائے نماز سیدھا کر رہا تھا اور پیار سے مسکراتے ہوئے اقراء کو دیکھ
رہا تھا۔عمر یہ منظر دیکھ کر خوش ہو رہا تھا عمر کو یاد آیا کہ علی کو باؤ
جی کا پیغام دے گا کہ اب اسے بھی شادی کر لینی چاہئے۔مگر اسکے دل میں بے
چینی سی آگئی وہ الجھنوں کا شکار ہو گیا. وہ اس بے چینی کو کوئی نام دینے
سے قاصر تھا.
وہ اقراء کو یہ کہہ کر پانی پینے چلا گیا کہ بیٹا آپ کام کرو میں ابھی آیا۔
عمر جب پانی پی کر کمرے میں آیا تو بیٹھ کر علی کو دیکھتا رہا.علی سجدے میں
تھا عمر علی کو اس وقت تک دیکھنا چاہتا تھا کہ جب تک وہ سجدے سے اُٹھ نہ
جاتا مگر جب سجدہ طویل ہو گیا تو عمر نے علی کو آواز دی مگر وہ نہ ہلا جب
پاس جا کر ہلایا تو بے جان جسم کی طرح دوسری طرف گر گیا
''علی علی کیا ہوا ہے اُٹھو'' عمر تڑپ اٹھا
علی نہ بول سکا وہ خاموش ہو گیا تھا وہ مصروف تھا اپنے محبوب سے باتیں کرنے
میں.یوں نظریں چرا لینا سانسیں روک لینا یہ ثابت کر چکا تھا کہ وہ اپنے
خالقِ حقیقی سے جا ملا ہے۔وہ ایسی وفات پا چکا تھا جس کی خواہش ہر مسلمان
کرتا ہے. وہ سجدے میں تھا اﷲ سے باتیں کرتے ہوئے ہی اﷲ کے پاس جا چکا تھا
مرنے سے پہلے اسکا دل صاف ہو چکا تھا دنیاوی خواہشات مر چکی تھیں۔وہ اﷲ کا
دوست بن چکا تھا۔
انکی دوستی کا رشتہ سفرِ عشق اختیار کر چکا تھا۔
گھر میں سوگ منانے والے لوگ بہت زیادہ نہ تھے مگر جب یہ خبر پھیلی تو
ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنازہ میں شریک ہوئے۔
علی مرنے سے پہلے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا تھا ایسا گھر بنا کر گیا
تھا جو کبھی ڈھایا نہیں جا سکے گا۔
عمر نے مدرسے کے کام کو جاری رکھا اورایک دن وہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچا جب
مدرسے کا افتتاح ہوا تو عمر نے علی کی معصوم خواہش خود پوری کی اس نے فجر
کی آذان دی جب وہ اذان دے رہا تھا تو علی کو اپنے ساتھ محسوس کر رہا
تھا۔اسکی خوشبو خود میں محسوس کر رہا تھا۔
ہزاروں بچے اس مدرسے سے استفادہ کر رہے تھے
علی اور عمر کا جو بزنس تھا وہ بند نہ ہوا اس سے ملنے والے منافع سے عمر نے
اور بھی مدرسے اور بے گھروں کے لئے گھر بنوانے کی ٹھانی۔
علی کی محبت دنیا میں بھی سچی تھی وہ نکاح جیسے مقدس رشتہ میں بندھ جانا
چاہتا تھا مگر دنیا کے عجیب و غریب رواج اس کے معصوم دل کو نا سمجھ سکے اور
اسکو توڑ کر رکھ دیا تب اس کو وہ ملا جس کی تمنا ہر کوئی کرتا ہے مگر یہ
نصیب کی بارش ہے جو کسی کسی پر برستی ہے اس کی بے لوث محبت پاکیزہ جذبات
اسکو انسانوں سے اٹھا کر اللّہ کی محبت کی جانب لے گئے تھے. یہ اس ذات کی
محبت تھی جہاں کبھی کسی کا دل نہیں ٹوٹتا. وہاں بس مرادیں بر آتی ہیں. اس
کو اللّہ کی محبت کو ایسا دل میں بسایا کہ اس کے قلب سے دنیا نکل گئی. اس
کو ایسا محبوب مل گیا جو ابدی ہے. اس نے روگ ختم کر کے ایسی اڑان بھر لی جس
پر زمانہ رشک کرتا ہے. وہ سچے اور صاف دل کا انسان اس پر فریب انسانوں کی
بستی سے اپنے مالک کے حضور چلا گیا جہاں اعمال اچھے ہوں تو انسان دکھوں سے
ماورا ہو جاتا ہے. اور شاید علی وہ چیز پا گیا تھا جس کی تمنا اس کے دل کے
اندر چھپی ہوئی تھی. عمر راہ دیکھتا رہا اور اس کا دوست اس کا بھائی منزل
پا گیا.
اقرا جب بھی پوچھتی کہ بابا کہاں ہیں تو
عمر اسے پیار سے صرف اتنا کہتا تھا
''کہ اﷲ کے پاس کسی کام سے گئے ہیں۔''
|