میں ٰاس خاک کا حصہ

چودہ اگست کے حوالے سے ایک تحریر

 
میں یہ جینز اور شرٹ ہی پہن کے جاٶں گا پارٹی میں،میں کوٸی میلاد یا مجلس میں نہیں جارہا جو کرتا شلوار ہی پہن کے جاٶں اور میں لباس کے ذریعے پہچان بنانے والوں میں سے نہیں ہوں،علی نے منہ بگاڑ کہ اپنے ابو کو جواب دیا ،،اور ابو کے ہاتھ علی کو وہ سفید کرتے پاجامے کا تھیلا بڑھاتے بڑھاتے رُک گٸے۔آزادی کے مہینے کی آمد تھی علی کے ابو نے سوچا اس بار گھر کے سب افراد ایک جیسے کپڑے پہن کر اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیں گے ،لیکن اپنے ابو سے اونچا قد نکالتے ہوۓ بارہویں جماعت کے طالب علم علی کے مزاج آسمان کو چھو رہے تھے جب سے اُس نے زوہیب کی سنگت اختیار کی تھی جب سے اُس کے رویے میں تبدیلی آرہی تھی یہ بات گھر میں سب نے ہی محسوس کی تھی،زوہیب علی کا نیا دوست بنا تھا علی اور اُس کی ملاقت جِم میں ہوٸی تھی جہاں علی روزانہ صبح ورزش کرنے جاتا تھا ایک دو دفعہ زوہیب گھر پہ بھی علی کو چھوڑنے آیا تھا یوں گھر والے زوہیب کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان گۓ تھے کے زوہیب کے والد اسٹیل ملز میں ملازم ہیں اور ایک بھاٸی آرمی میں ہے۔

13اگست کے دن میں سب گھر والے شام کی چاۓ پر جمع تھے ٹی وی پر 14 اگست سے متعلق پروگرام ،نغمے اورڈاکومینٹریز دیکھاٸی جا رہی تھیں چینل آگے پیچھے کرتےہوۓ اچانک علی کی چھوٹی بہن چینخی امی علی بھاٸی ٹی وی پر اتنا کہنا تھا کے سب گھر والوں کی توجہ ٹی وی کی جانب ہوگٸ کیا دیکھتے ہیں کسی کالج کہ اسٹیج پہ ماٸیک ہاتھ میں لیے جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس علی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہو ا ہے ”میں رنگ ونسل کی تقسیم کو نہیں مانتا میں کیا نہں مانتا ہمارے اسلام میں ہی اس چیز کو ممنوع قرار دیا ہے اور پاکستان کی تو بنیاد ہی اسلامی فکرو فلسفہ پہ رکھی گٸی ہے عدل و انصاف،مساوت اخوت صرف ہمارے مذہب کا ہی حصہ نہیں بلکہ ہماری قوم و ملت کے بھی بنیادی عناص ہیں تو پھر کیوں ہم مہاجر،بلوچی ،پنجابی اور سندھی سراٸیکی جیسی قوم میں بٹے ہوے ہیں خون اورآنسوں کا رنگ تو سب انسانوں کا ایک ہی ہوتا ہے ہم تو پھر مسلمان اور ایک قوم ہیں تو ہمارے رویوں میں اور سوچوں میں اتنا تضاد کیوں ہے،اسلامیہ کالج پشاور سے خطاب کرتے ہوے قاٸد اعظم نے فرمایاتھا”نظریہ پاکستان کا مطلب ایک ایسی تجربہ گاہ قاٸم کرنا ہے جہاں اسلام اور سنت کا قانون ہو اور لوگ اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق گزار سکیں
 “
آج قاٸد اعظم۔ہمارے درمیان ہوتےوہ تو یہ دیکھ کر ہی دنگ رہ جاتے کہ میں نے علاقاٸی جغرافیاٸ آزادی تو حاصل کر لی لیکن ابھی تک میری قوم اور ملت پر مغربی اور ہندوانہ رنگ چڑھا ہوا ہے اِن کے ذہنوں پہ ابھی تک ہندوں کی ثقافت غالب ہے ٹرک بھر کے جہیز لینا شادی میں تمام غیر ضروری رسموں پہ بے دریغ پیسہ لٹانا ناچ گانے کو ثقافت کا حصہ بنا کر لوگوں کو دعوت نظارہ پیش کرنا صرف اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے؟کہی ہمیں دقیانوسیی ہونے کا خطاب نہ مل جاۓ اس ڈر سے سارے ناجاٸز کام کرکےاسلامی قوانین کا سر ِعام۔جنازہ نکل دینا اور پھر خود کو محب وطن کہنا ہم نےطاپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ اندرون سندھ اور پنجاب کے کٸی علاقوں میں جاٸیداد کے خاطر بہن بیٹیوں کے لیے وٹّہ سّٹہ جیسے معاملات کوا ہمیت دینا ساری عمر کے لیے ان کی خواہشات اور ضروریات کا گلا گھونٹا اور اپنی جیت سمجھنا ہم اس کو آزادی سمجھتے ہیں ۔سرسید احمد خان کہتے ہیں انسان کو رسم و رواج کا پابند ہونا چاہیے اور جو رسمیں بے کار ہوں ان کو ترک کردینا چاہیے وہ رسم و رواج جو ہمارےاسلاف اور اثاثوں کی حفاظت کریں ان کو فروغ دینا چاہیے افسوس ہم نے سرحدی آزادی حاصل کر لی لیکن ذہن پر ابھی بھی مغرب اور ہندوں کے رنگ کی چھاپ ہے ۔

ایک ہمارے حکمران قاٸد اعظم تھے جنھوں نے اپنے اصولوں کے خلاف جھکنا ہی نہیں سیکھا تھا جو سرکاری خزانے سے اپنے لیے ایک پیالی چاۓ پینا اور جرابوں کی جوڑی تک خریدنے کو اپنے وطن سے غداری سمجھتے تھے اور آج یمارے لیڈر کسی جلسے میں جانا ہو تو سینکڑوں گاڑیاں انِکی خدمت میں صرف ہوجاتی ہیں گھنٹوں ٹریفک روک دیا جاتا ہے دوکانیں بند کرادی جاتی ہیں کہ لیڈر کی آمد ہورہی اور اُس لیڈر کے لیے اتنا وقت صرف کیا جا رہا ہوتاہے جس کے پاس آپ کی بات سننے کےلیے چند لمحے بھی نہ ہوں اتنی سیکیورٹی ایک حکمران کو دی جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی دوسری جگہ بے موسم حادثہ پیش آجاتا ٹریفک رُکنے سے ایمبولینس میں موجود مریض کی زندگی کی سانسی کم ہونے لگتی ہیں یعنی لیڈر کی آمد مریض کے لیے ”موت کا فرشتہ“ ثابت ہوٸی اور بہی بہت کچھ ہوتا ہے غرص ایک آدمی کی آمد کے لیے ہزاروں کی سیکیورٹی طلب کر کے حکومت خود اپنا اور اپنی قوم۔کا وقت برباد کرنے میں آگے آگے ہوتی ہے۔

ہر ٹی وی اور پریس کانفرنس کے لیے ڈیزاٸنر سے خاص قسم کے مہنگے برانڈڈ کپڑے سلوانا اور چہرے پہ مکاری عیاری اور افسوس کے ملے جلے تاثرات لے کر آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسوں سجاٸے ہر سانحہ پر جھوٹی تسلی اور دلاسے دینا بس یہاں آکر سارے حکمرانوں کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے میں نے اپنی نصابی پکتاب میں پڑھا تھا سرسید احمد خان کا شمار تو بہت اچھے اور کھاتے پیتے گھرانے میں ہوتا تھا لیکن انھوں نےمسلمانوں جدید علوم اور اسلامی علوم کی طرف راغب کرنے کے لیے کٸی ادارے قاٸم کیے اور ان اداروں کی تعمیر کے لیے خود گھر گھر جا کر اپنی پگڑی کا شمِلہ نیچے رکھ کر چندہ جمع کیا، انگریزوں ،ہندوٶں کے خلاف مسلمانوں کے کھوۓ ہوۓ اذہان کو بیدار کرنے کے لیے آپ نے ”اسباب بغاوتِ ہند “ نامی کتابچہ لکھ کر برِ صغیر کی تاریخ میں ایک نٸی تاریخ رقم کردی لیکن افسوس سرسید احمد خان پاکستان کو بنتا ہوا نہیں دیکھ سکے” اٹھا کے خاکیوں کو گنبدِ افلاک کے نیچے،
وہ سیّد سوگیا اپنے وطن کی خاک کے نیچے۔

لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھےمرنے کے بعد جب اُن کے اثاثوں کا احتساب کیا گیا تو لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی کچھ دریافت نہ کرسکیں ،پاسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق جس شخص کا قمیض کے نیچ پہننے تک کا بنیان اور جرابیں بھی پھٹی ہوٸی نکلیں وہ کیا اثاثہ بناۓ گا لیاقت علی خان نے ہی لندن میں قاٸد اعظم کا ساتھ دینے کی حامی بھری پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا جیسے ایک ماں اپنے بچے کو شکمِ مادر میں پالتی ہے۔ گویا لیاقت علی خان پاکستان اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے، سینے پہ گولی کھا کر اور زمین پر لڑُھکتے ہوۓ بھی کلمہ کے بعد آپ کی زبان پہ یہ الفاظ تھے ”خدا پاکستان کی حفاظت کرے“ محبت کا یہ عالم اپنی سرزمین سے یقیناً ان ہی جیسے لوگوں کے لیے میر تقی میر کہہ گۓ ہیں ،
”مت سہل جانو ہمیں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردوں سے انسان نکلتے ہیں“۔

پاکستان کے جھنڈے میں ہرے اور سفید رنگ کا ملاپ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ اس ملک میں مسلم اکثریت کے ساتھ غیر مسلم اقلیتیں بھی ہیں جس میں ہندو،عیساٸ،پارسی اور فرنگی شامل ہیں لیکن شہر میں نکل کر دیکھیں تو با مشکل ہی چند شہری مسلم ثقافت کا نمونہ نظر آٸیں گے آدھی سے زیادہ عوام اپنے رہن سہن اور اندازِگفتگو سے خود کو دوسری دنیا کے باسی کہلاتے نظر آٸیں گے۔شیکسپیر کہتا ہے ”ملک آزاد نہیں ہوتے لوگوں کا طرز فکر اور ذہن آزاد ہونے چاہیے ملک خود بہ خود آزاد ہوجاتے ہیں“۔مجھے خود کو صرف ایک دن کے لیے پاکستانی ،سچا مسلمان، وطن سے اظہارِ محبت اور یکجہتی ظاہر کرنے کے لیے کسے سفید اور ہرے رنگ کے لباس کی ضرورت نہیں مجھ سے یہ منافقت نہیں ہوگی صرف چند تصاویر بنانے کے لیے میں خود پہ یہ رنگ سجاٶ پاکستان زندہ باد کے نعرہ لگاٶں اور گھڑی بارہ کا ہندسہ جیسے ہی پار کرے میں پھر سے اپنی جوُن میں لوٹ آٶں، محبت اور اظہار یکجہتی ظاہر کرنے کے لیے صرف ایک رنگ کے کپڑے ہی نہیں دل بھی ایک لِے اور سرگَم پہ ہمکنے چاہیںے جب ہی ہم ملت کا پاسباں ایک ہے کی جیتی جاگتی مثال کہلاٸیں گے،میرا آج کا تیار شدہ سفید جوڑا میرے بیڈ پہ پڑا ہے میں نہہیں پہن سکا میں اپنے روز مرہ کے حلیے میں آپ لوگوں کے سامنے ہوں لیکن دل ابھی بھی پاکستان کی محبت سے سرشار ہے مجھے بہت افسوس ہے ابو لیکن مجھ سے یہ منافقت نہیں ہو سکتی کہ صرف رنگ اور لباس کی حد تک ہم ایک ہوں نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوسکتا میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں کرتا رہوں گا پاکستان زندہ باد“۔

علی اپنی تقریر ختم کرچکا تھا ہال تالیوں کی آواز سے گونج رہا تھا میرے دل میں ایک شور برپا تھا کے واقعی صرف جیتے جاگتے وجود پہ سفید لباس سجالینے سے ہم وطن سے محبت کا اظہار نہیں کرسکتے مزہ تو جب ہے جب ہم نے وطن سے محبت کی ہو جسم خاک و خون میں لت پت ہوں جب ہمیں سفید رنگ میں لپیٹا جاۓ شہادت کا مرتبہ حاصل ہو، اور سلامی پیش کی جاۓ اور گھر والے شہید کا خاندان کہلاٸیں۔آج مجھے زوہیب اور علی کی دوستی پر فخر محسوس ہورہا تھا یہ زوہیب ہی ہے جس نے میرے بیٹے کے سینے میں حب الوطنی کا دیا روشن کیا ہے۔

 

Mohsin Ahmed
About the Author: Mohsin Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.