”حقائق تو یہ ہیں“ اور”سلیم اللہ شیخ“ ایک تجزیاتی مطالعہ

کسی بھی مصنف کی تحریر کا اسلوب جانچنے کے لیے اور اس کے مواد پر اظہارِ رائے کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس ماحول اور گرد ونواح کا جائزہ لیا جائے جس میں مصنف پروان چڑھا، اسی لیے ہم نے سطورِ بالا میں اس مصنف کے شہر کے کچھ خصائص اور یہاں جنم لینے والی بڑی بڑی شخصیات کے صرف ناموں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب اپنے اندر ایک ادارہ تھے یا ہیں۔بہر حال اس مضمون میں ہمارے قلم سے جس مصنف پر حاشیہ آرائی ہوگی یقینا اس کا تعلق سطورِ بالا میں مذکور شہر ہی سے ہے اور مصنف کا نام سلیم اللہ شیخ ہے جب کہ ان کی تصنیف کا عنوان ہے”حقائق تو یہ ہیں“۔
”حقائق تو یہ ہیں“ اور”سلیم اللہ شیخ“ ایک تجزیاتی مطالعہ
افضل رضوی۔۔ایڈیلیڈ آسٹریلیا
کراچی پاکستان کے آبادی کے لحاظ دوسرے بڑے صوبے سندھ کا دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔اسے دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی اسی شہر میں قائم ہے۔ ان تمام خوبیوں سے بڑھ اس کا یہ امتیاز ہے ہے کہ بانی ئ پاکستان قائدِ اعظم محمدعلی جناح کا تعلق بھی یہیں سے تھا اور اسی نسبت سے ”شہرِ قائد“ کہا جاتا ہے۔اگرچہ روشنیوں کے اس شہر کو شاید کسی کی نظرِ بد لگ گئی جو یہ گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا لیکن باوجود کہ حالات دگر گوں رہے پھر اہل ِ علم وذوق یہاں سے جنم لیتے ہی رہے اور بابِ علم کے علمبردار ہمیشہ رواں دواں رہے اور اپنے علم وحکمت کے موتی میراثِ امتِ محمدیہ سمجھ کر ہر سو پھیلاتے ہی رہے۔یہ وہ شہر ہے جس نے اردو زبان وادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگانے والے ستارے پروان چڑھائے، وہ ستارے کہ جو زبان و ادب کی تاریخ کے درخشندہ باب ہیں۔ ان ستاروں میں؛ابواللیث صدیقی،انور مقصود،فرمان فتح پوری،فاطمہ ثریا بجیا،حکیم محمد سعید –محمد حسن عسکری،حسینہ معین، ابن انشاء،ابن صفی،افتخار عارف، جمیل جالبی،جمیل الدین عالی،جون ایلیا،مشتاق احمد یوسفی، رئیس امروہوی، صادقین، شاہد احمد دہلوی،عقیل عباس جعفری،مشفق خواجہ، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹرمعین الدین عقیل، ناصر علی سید اورڈاکٹر ڑئیس صمدانی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
مندرجہ بالا اسمائے گرامی دیکھ کر یہ بات سب پر اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کراچی سے کئی نامور شخصیات نے شہرت ِدوام حاصل کی اور یہ سلسلہ رکا نہیں اور یقینا اس سرزمین سے پہلے ہی کی طرح ہر دور میں علماء، محققین، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار اور شعراء پید ا ہوتے رہیں گے اور شہرِ قائد کا نام ہمیشہ روشن کرتے رہیں گے۔
کسی بھی مصنف کی تحریر کا اسلوب جانچنے کے لیے اور اس کے مواد پر اظہارِ رائے کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس ماحول اور گرد ونواح کا جائزہ لیا جائے جس میں مصنف پروان چڑھا، اسی لیے ہم نے سطورِ بالا میں اس مصنف کے شہر کے کچھ خصائص اور یہاں جنم لینے والی بڑی بڑی شخصیات کے صرف ناموں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب اپنے اندر ایک ادارہ تھے یا ہیں۔بہر حال اس مضمون میں ہمارے قلم سے جس مصنف پر حاشیہ آرائی ہوگی یقینا اس کا تعلق سطورِ بالا میں مذکور شہر ہی سے ہے اور مصنف کا نام سلیم اللہ شیخ ہے جب کہ ان کی تصنیف کا عنوان ہے”حقائق تو یہ ہیں“۔
سلیم اللہ شیخ 16 /اکتوبر 1975 کو کراچی میں پیدا ہوئے یوں سندھی ان کی مادری زبان ٹھہری۔انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم لیاقت آبادکے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی۔پھر نامساعد حالات کے باعث تعلیمی سلسلہ تعطل کا شکار رہا؛لیکن انہوں نے حالات کے سامنے اپنا سرنگوں نہ کیا بلکہ محنت، جستجو اور جدو جہدکو شعار بناتے ہوئے زندگی کو بندگی بناکراپنے راستے خود ہموار کیے۔ابتدا میں ایک دکان پر سیلز مین کا کام کیا اور پھر ایک کارخانے میں ملازمت اختیار کرلی۔یہاں صرف ملازمت نہیں کی بلکہ بجلی کے سوئچ اور ساکٹ بنانے

میں مہارت بھی حاصل کی۔لیکن جلد ہی اس مشقتی ملازمت کو خیر آباد کہا تو ایک مقامی اسکول میں ملازمت مل گئی اور یوں حالات بدلنے لگے۔تعلیم کا جو سلسلہ ٹوٹا تھا 2003 ء میں اسکول کی ملازمت کے بعداس کادوبارہ آغاز ہوانیز اسی اسکول میں بتدریج ترقی کرتے کرتے آفس مینجرہوگئے۔اسی دوران انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر جامع کراچی سے بی۔اے اور ایم۔اے کے امتحانات بھی پاس کر لیے۔اس دوران اسکول کی ملازمت کے ساتھ ساتھ روزنامہ جنگ (لندن ڈیسک) سے بھی وابستہ ہوگئے۔2008 ء سے روزنامہ جنگ (لندن ڈسیک)سے بحیثیت ایڈیٹوریل اسسٹنٹ وابستہ ہیں۔یوں اسکول اور جنگ دونوں کی نوکری چلتی رہی۔
سلیم اللہ شیخ کی محنت اور استقامت کو دیکھ کر یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اللہ یقینا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی سلیم اللہ نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھائی تو عثمان پبلک اسکول کی انتظامیہ نے انہیں او لیول کیمپس اردو پڑھانے کی پیشکش کر دی جسے انہوں نے بصد خوشی قبول کر لیا۔اب نہ صرف پڑھارہے ہیں بلکہ اساتذہ کی تربیتی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔2016ء میں SPELT انٹر نیشنل کانفرنس میں بھی ایک ورکشاپ کرا چکے ہیں۔
2016میں ہی پیراماؤنٹ پبلشرزکے لیے اسلامیات کی دو نصابی کتب مرتب کیں۔ مضامین کا مجموعہ '' حقائق تو یہ ہیں فضلی پبلشرز کے زیرِ اہتمام'' جون 2020 ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ان ایک تالیف بعنوان”جدید ذرائع ابلاغ کی تاریخ اور ان کا موئثر استعمال ''جلد شائع ہوگی۔
”حقائق تو یہ ہیں“ میں کل چوالیس مضامین ہیں جنہیں سات مختلف عنوانات _____معاشرہ اور ثقافت /سماجیات، وطنیت، مذہب، بین الاقوامی، شو بز، طنزو مزاح اور متفرق ____میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے عنوان کے تحت 14(کیا بھارت کو پاکستان سے جنگ کی ضرورت ہے؟، کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟، عورتوں سے متعلق غلط سوچ کا خاتمہ کریں، شکر، چند اصلاح طلب غلطیاں، فلسطینی مسلمانوں کی وقعت گدھ سے بھی کم، آج کے نوجواں سن لے میری فغاں، کرکٹ کے لیے ایک خواب، بسنت جشنِ بہاراں، اپریل فوکل کی تاریخ اور نقصانات،ہیں تلخ بہت بندہئ مزدور کے اوقات، باز گشت، ہمارا نظامِ تعلیم اور طبقاتی تفریق) دوسرے عنوان کے تحت5 (عبدالقدیر خاں: ایٹمی پروگرام اور عالمی سازشیں، 23مارچ اور حب الوطنی،جاگو ایلِ وطن جاگو، قیامِ پاکستان کا مقصد،ستمبر 1965 اورستمبر2009)،تیسرے عنوان کے تحت8(اوبامہ کی صدارت اور مسلمانوں کی تاریخ، مغرب شریعت سے خوفزدہ کیوں؟، وہی خدا ہے، نبیﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں، شیطان:مقرب سے مردود، اسلام اور وید، رودادسفرِ معراج ﷺ، سوچتا ہوں کہ توبہ کرلوں لیکن)، چوتھے عنوان کے تحت4(کیا اسلام امریکہ کا دشمن ہے؟، امریکی دہشت گردی کی تاریخ، لبرٹی حملہ بھارت کی سازش، شہید حجاب: مرواشیربینی)، پانچویں عنوان میں بھی4 (اداکار شکیل صدیقی پر تشدد، مغرب کے اصل چہرے کی ایک جھلک، آج کل کے اشتہارات:سلو پوائزن، میڈیا: بڑھتی ہوئی فحاشی)، چھٹے عنوان میں 5 (لوڈ شیڈنگ کے فوائد، حصہ دوم، بس کاسفر، شعر شاعر اوع فلمی شاعری، سیاست اور سائیکل سواری)اور ساتویں عنوان کے تحت 4(بھارت میں بھی طالبان، سوائین وائرس: انسانوں کا نیا دشمن، بلیک واٹر کالا پانی، تین خبریں تین سبق)مضامین شامل کیے ہیں۔

اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب پر کسی سے کوئی مقدمہ یا دیباچہ نہیں لکھوایا اور اس کا پیشِ لفظ بھی خود ہی رقم کیا ہے جو ان کی خود اعتمادی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پیشِ لفظ میں اس مجموعہئ مضامین کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
] ہماری ویب ڈاٹ کام پر[ نئے لکھاریوں کوہماری ویب کے لیے لکھنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ سوچا کہ فائدہ تو نہیں ہوگا اور نہ ہی مضمون شائع ہو گا لیکن لکھ کر آزمانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔اس لیے ایک چھوٹا سا مراسلہ نما مضمون لکھ کر بھیج دیا۔اگلے دن حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ مضمون ویب سائٹ پر موجود تھا۔بہت خوشی ہوئی۔اگلے دن پھر ایک مضمون لکھ مارا۔ وہ بھی شائع ہوگیا۔بس پھر کیا تھا، لکھنے کا وہ شوق جو مرتا جارہا تھا ایک بار پھر زندہ ہو گیا۔
اس مجموعہئ مضامین میں سلیم اللہ شیخ نے اپنے وہ مضامین شامل کیے ہیں جو انہوں نے دس بارہ سال پہلے لکھے تھے۔
حقائق تو یہ ہیں کہ سلسلہئ مضامین کے پہلے عنوان کے تحت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کے قلم سے واقعی حقائقسامنے آگئے ہیں کیونکہ جس طرح باوجود اس کے کہ بھارت ہمیں چہار سو آنکھیں دکھا رہاہے لیکن گھر گھر میں مہابھارت دیکھی جاتی ہے اور اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کو یہ محسوس ہو ا ہے کہ بھارت کو ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی شاید اب ضرورت نہیں کیون کہ ہم نے خود اپنی معاشرت اس کے ہاتھ دے دی ہے۔دیکھیے”کیا بھارت کو پاکستان سے جنگ کی ضرورت ہے؟“ میں اپنے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے ملتج ہیں:
میری اپنے تمام ہم وطنوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ خدارا اپنی تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر پرائی تہذیب اور ثقافت کو نہ اپنائیں۔اور میں ان سے اقبال عظیم کی اس نظم کے ذریعے یہی التجا کروں گاکہ
؎ اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے
بھارت کے عزائم اور اپنی خامیوں کا ذکر کرنے کے بعد ایک اور مضمون میں انتہاپسندی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ایک لمبی جنگ لڑ کے آج ایک بار پھر پر امن ملکوں کی صف میں شامل ہو رہا ہے لیکن خدشات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی سلسلے کی وضاحت میں ”کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟“ میں رقم طراز ہیں اور کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں کہ:
اس [تشدد کی] تعریف کی زد میں خود سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف بھی آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے 8سالہ آمرانہ دور میں عوام کی اکثریت کی رائے اور مرضی کے برخلاف شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا، خلافِ اسلام قوانین کا نفاذ کیا اور ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک نہ ختم ہونے والی آگ کا ایندھن بنا دیا جس آگ کی تپش آج ہمارے اپنے ملک میں محسوس کی جارہی ہے۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی پر قلم اٹھانے کے بعد عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے، معاشرے میں پائی جانی والی اس سوچ کی نشاندہی کی ہے جس میں محج عورت ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے شرم و حیا کی بساط لپیٹ دی ہے اور بے راہ رو ہوگئی ہے۔مصنف کے مطابق عورت ہی نہیں مرد کا بھی یہی حال ہے اور وہ اپنے آپ کو بری الزمہ نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اگر عورت بے راہروی پر اتری ہے تو اس مین مرد کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا عورت کا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ”کہ کیا آج کے مرد حضرات بالکل دین دار بن گئے ہیں؟کیا انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے دھوکے سے آزاد کرلیا ہے؟اور کیا وہ دنیا کے آرام اور مال سے بے نیاز ہوکر تا رک الدنیا ہوگئے ہیں؟ یقیناً خود ان کا جواب نفی میں ہوگا“۔ چانچہ وہ نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ عورتوں سے متعلق اس منفی سوچ کو ختم کرنا ہو گا۔ اسی صورت مین معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے کیونکہ اگر عورت کو حقوق نہیں ملتے تو نئی نسل ذہنی غلام پیدا ہوگی اور نتیجے کے طور پر اس کا بے راہ رو ہو جانا امرِ یقینی ہے۔
عورتوں کے حقوق کی بات کرنے کے بعد سیاسی مضمون بعنوان”فلسطینی مسلمانوں کی وقعت گِدھ سے بھی کم“ لکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب کسی فلسطینی بچے، بوڑھے، نوجوان مرد وزن کا خون نہیں بہایا جاتا لیکن مسلمان اپنی اپنی سیاست کی رسہ کشی میں اس قدر مگن ہیں کہ انہوں نے اس ظلم وتشدد سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اب تو حالات اور بھی دگرگوں ہونے والے ہیں کیونکہ بہت سے اسلامی ممالک نے درونِ خانہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہامی بھر لی ہے اور ایک اسلامی ملک نے تو اس کا برملا اعلان بھی کر دیا ہے۔بہرحال یہاں سلیک اللہ شیخ کے مضمون کی بات ہورہی ہے تو مصنف کی یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ:
جو جارحیت اسرائیل نے کی ہے اگر کسی مسلم ملک نے کی ہوتی تو اب تک اس کا تیا پانچہ کیا جاچکا ہوتا اور امریکہ بڑھ کر اس ملک پر قبضہ کرچکا ہوتا۔یہاں ہم نے غیر مسلم ممالک کا تذکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے کہ ان سے ہمیں یہ امید ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ کریں گے ہمیں تو ان مسلم ممالک کے حکمرانوں سے شکایت ہے کہ وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے بجائے صرف مذمت ہی کر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق مصر اور لبنان تو مذمت بھی نہیں کر رہے بلکہ اس جارحیت کی انہوں نے اسرائیل کو باقاعدہ اجازت بھی دی ہے اور یہ جارحیت ان ممالک کے سربراہان سے مشاورت کے بعد کی گئی ہے۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 172696 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More