کسی قریبی ہستی کو کھو دینے کے صدمے سے گزرنا


کسی  قریبی شخص کے انتقال  کے فوراً  بعد  زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک  شدید بے یقینی  کا شکار ہوجاتے ہیں

مرحوم راجہ ابرار حسین رٹھوعہ محمد علی میرپور آزاد کشمیر



(محمد مسعود نوٹنگھم ) کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی قریبی انسان کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں لہٗذا اس ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم کچھ عرصے سے جانتے ہوں۔ لیکن اور حالات میں بھی مثلاً حمل میں بچے کے ضا ئع ہونے کے بعد یا مردہ بچے کی پیدائش پر بھی اس کے والدین اسی طرح کے صدمے سے گزرتے ہیں ۔

کسی  قریبی شخص کے انتقال  کے فوراً  بعد  زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک  شدید بے یقینی  کا شکار ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو چکا ہے۔ بعض دفعہ ایسا کسی طویل اور شدید بیماری کے بعد ہوتا ہے جب کہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ دار چند ہی گھنٹوں کا مہمان ہے لیکن اس کے باوجود انتقال کے بعد  انہیں کچھ دیر تک اس پر یقین نہیں آتا۔ اس بے یقینی کا کچھ  فائدہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو انتقال کے بعد کے  کچھ مراحل مثلاً رشتہ داروں کو اطلاع دینا اور تدفین وغیرہ  سے گزرنے میں کچھ آسانی ہو جاتی ہے  لیکن اگر یہ حالت زیادہ عرصے تک رہے  تو مشکل ہو سکتی ہے۔

بہت دفعہ مرنے والے کی نعش کو دیکھنے سے انسان کو اس بات کا یقین آنا شروع ہوتا ہے کہ ایسا واقعی میں ہو چکا ہے۔اسی طرح تہجیزو تکفین کی رسومات سے گزرنے سے انسان کو اس تکلیف دہ حقیقت پہ یقین آنا شروع ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کے لیے اپنی قریبی عزیز کی نعش کو دیکھنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا  بڑے تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں ہوتا  لیکن یہ اپنی ٘محبوب ہستیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

جلد ہی یہ بے یقینی جھنجھلا ہٹ اور بے بسی میں بدل جاتی ہے جس میں انسان اس بچھڑے ہوئے شخص کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے  کے لیے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ ان مراحل میں کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں مرنے والا شخص ہر جگہ  نظر آتا ہو، خصوصاً ان جگہوں (پارک، سڑک، گھر) پر جہاں انہوں نے اسکے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہو۔ بہت سے لوگ ایسے میں بہت زیادہ غصہ بھی محسوس کرتے ہیں، ان  ڈاکٹروں یا نرسوں پر جو ان کے جانے والے کو بچا نہیں سکے، ان  رشتہ داروں اور دوستوں پر جنھوں نے ان کے خیال میں اتنا نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا اور  یہاں تک کہ مرنے والے شخص پر بھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔

بہت سے لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔ اکثر لوگ بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں  کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔اگر کسی کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز  انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی  کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھٹ گئ، جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ یہ احساس طبعی ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔

جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی یہ کیفیت انتقال  کےتقریباً  دو ہفتے بعد  سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ سب ایک قدرتی عمل ہے۔

انتقال کے تقریباً چار سے چھ ہفتوں کے بعد اداسی اور ڈپریشن کی کیفیت سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے،  خصوصاً ان باتوں کے ذکر یا جگہوں سے جن کا اس شخص سے گہرا تعلق ہو۔ دوسرے لوگ کسی کے (اس طرح کے) غم کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے غم کے مارے لوگ دوسروں سے ملنے سے گریز کرنے لگتے ہیں جس کا انہیں آگے چل کے نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے کو شش کرنی چاہیئے کہ جلد سے جلد اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو جائیں تاکہ دوسروں کا سامنا کرنے میں مشکل نا ہو۔ اس وقت میں  عموماً جب لوگ زیادہ وقت اکیلے گزارنے لگتے ہیں تو اور لوگ سمجھتے ہیں کہ متاثر شخص فارغ بیٹھا ہے اور کچھ کام نہیں کر رہا لیکن وہ  کھو جانے والے شخص کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور ان کی اچھی اور بری دونوں باتیں یاد کر رہے ہوتے ہیں۔  اس سے  انہیں موت کی  حقیقت کا سامنا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔

وقت کے ساتھ ساتھ  موت کا غم اور دکھ کم ہوتا جا تا ہے، اداسی کم ہونے لگتی ہے اور  انسان دوسری چیزوں کے بارے میں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کسی کے کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ شوہر بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال  کے بعد  دوسرے کو اپنے اکیلے پن کا بہت زیادہ احساس  ہونے لگتا ہے۔ یہ احساس مزید شدت اختیار کر لیتا ہے جب وہ دوسرے جوڑوں کو  ہنسی خوشی ایک ساتھ  دیکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ انہیں یو ں بھی محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ شخص انکے ساتھ ہی ہے  اس لئے کبھی وہ اسے محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس سے باتیں بھی کرتے ہیں۔

غم سے گزرنے کے یہ تمام مراحل مختلف لوگوں میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ایک یا دو سال بعد کسی بھی بڑے  سے بڑے غم سے سمجھوتا کر لیتے ہیں۔  آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں  ان کا دل مان لیتا ہے کہ وہ خاص شخص  انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اس کے بعد وہ نئے سرے سے زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ان کی اداسی ختم ہو جاتی ہے ، نیند صحیح ہو جاتی ہے اور طاقت و توانائی بحال ہو جاتی ہے۔

آپ کی دعاؤں کا طلبگار محمد مسعود نوٹنگھم یو کے

 

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 62 Articles with 178235 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More