انسانی فطرت عدل پسند ہے ۔ ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں
خلاف فطرت ہے ۔ اس کے باوجود اللہ کے باغی لوگ اپنے دنیوی مفاد کی خاطر
دوسرے انسانوں پرجبرو ظلم کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے
غیض و غضب کا مستحق بناتے ہیں ۔ مظلوم افراد الگ الگ انداز میں اس کا
مقابلہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی تقدیر کا رونا رو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ کچھ
اپنے دل کی بھڑاس نکالنے پر اکتفاء کرلیتے ہیں ۔ کچھ جورو ظلم کے خلاف
صدائے احتجاج بلند کرنے کی خاطر مظاہروں کا اہتمام کرتے ہیں اور کچھ عدالتی
چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ دراصل اکثر لوگوں کی مجبوری ہوتی
ہے یعنی ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کارنہیں ہوتا لیکن اس دنیا میں ایسے
بھی لوگ ہیں جن کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی ۔ وہ خود ظلم کا شکار نہیں ہوتے
لیکن پھر بھی دوسروں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں
۔ وہ عدل و قسط کے قیام کی خاطر اپنی پرسکون زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے
ہیں ۔ پرشانت بھوش ان لوگوں میں سے ایک ہیں وہ عدالت سے مصالحت کرکے اپنے
ذات کو سرکاری قہر سے بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس کے برعکس فیصلہ کیا
اور اصولوں کی خاطر ظلم و جبر سے پنجہ آزمائی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ باضمیر
لوگ کی ایک کثیر تعداد ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔
14؍اگست کو ٹویٹ کرنے کے مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد پرشانت بھوشن کے خلاف
18؍ اگست کو گیارہ سال پرانا گڑا ہوا مردہ اکھاڑ کر نیا محاذ کھول دیا ۔ یہ
2009 میں تہلکہ میگزین کو دیئے گئے انٹرویو کا قضیہ ہے جسے ٹھنڈے بستے میں
ڈال دیا گیا تھا ۔ اس جریدے کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے پرشانت بھوشن
نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے 16 سابق چیف جسٹس میں سے نصف بدعنوان ہیں ۔ یہ
معمولی الزام نہیں تھا اس لیے پرشانت بھوشن کے ساتھ تہلکہ کے تیز طرار مدیر
ترون تیج پال پر بھی مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ طویل عرصے کے بعد اب جو یہ بوتل
میں بند جن پھر سے نکل کر باہر آیا تو دونوں کو لائن حاضر کیا گیا۔ ترون
تیج پال اپنے ساتھ ملازمت کرنے والی صحافیہ کی عصمت دری کے مقدمہ میں پھنسا
ہوا ہے اور سپریم کورٹ میں اس کے خلاف ایک سال سے مقدمہ کا فیصلہ معلق ہے۔
ایسے میں تیج پال کے لیے عدالت عظمیٰ سے پنگا لینا خطرے سے خالی نہیں تھا
اس لیے اس نے اپنے وکیل کپل سبل کے ذریعہ معافی نامہ بھجوا دیا عدالت نے اس
پر خاموشی اختیار کرلی اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے قبول کرلیا گیااور اس کی
جان چھوٹ گئی۔
پرشانت بھوشن کو تو کسی وکیل کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ وہ خود بھی اپنی
پیروی کرنے کے اہل ہیں ۔ ویسے بلاشرط معافی مانگنے کے لیے وکیل کی کوئی
ضرورت ہی کیا ہے؟ ایسی صورتحال میں جبکہ عدالت بھی درگزر کے موڈ میں ہو تو
ڈانٹ ڈپٹ کا خطرہ بھی ٹل جاتا ہے۔ اس کے باوجود پرشانت بھوشن نے اس معاملے
میں بھی معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ججوں کا انتقال
ہوچکا ہے ان کے اہل خانہ کی دلآزاری کا انہیں افسوس ہے لیکن وہ اپنی بات
پر قائم ہیں ۔ عدالت اگر اس اظہار تاسف کو معذرت سمجھ کر مقدمہ ختم کردے تو
اس کی مرضی اور اگر مقدمہ چلانا چا ہے تو اس کے لیے آزاد ہے۔ حسبِ توقع
عدالت نے پرشانت بھوشن کی وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ سوچنے والی
بات یہ ہے کہ جوشخص اپنے حالیہ ٹویٹ میں یہ لکھنے سے نہیں گھبراتا ہوکہ ،
''مستقبل میں مورخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ6 برسوں کے دوران
باضابطہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح سے تباہ کیا
گیا، تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی
کریں گے، بالخصوص سپریم کورٹ کے4 سابق منصفین اعظم کا۔'' وہ بھلا اپنے
سابقہ بیان پر معافی کیسے مانگ سکتا ہے؟
پرشانت بھوشن تو وہ وکیل ہے کہ جب وہ چیف جسٹس اے ایس بوبڈے کو مہنگی ترین
موٹرسائیکل پر سوار دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ سوشیل میڈیا میں تصویر
کے ساتھ یہ تبصرہ لکھ مارتاہے کہ ’’ کورونا وباکے دور میں ہیلمٹ اور ماسک
کے بغیر موٹر سائیکل کی سواری کی جارہی ہے جبکہ عدالت کو لاک ڈاؤن میں رکھ
کر لوگوں کو انصاف کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے‘‘۔ یہ وہی پرشانت بھوشن ہے
جس نے لاک ڈاؤن کے دوران تارکین وطن مزدوروں کے بحران کو دیکھ کر عدالت کے
دروازے پر ان کی فلاح و بہبود کے لیے گہار لگائی تھی۔ پونہ کے اندر یلغار
پریشد کیس کے سلسلے میں کارکنوں کے قید وبند کے خلاف صدائے احتجاج بلند
کیاتھا ۔ کشمیر کے معاملے میں ان کے دفتر پر زعفرانی غنڈوں کا حملہ بھی اس
کا حوصلہ پست نہیں کر سکا تھا ۔ وہ ملک کے متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کی
پامالیوں اور دہلی سمیت مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں مظلومین کی دادر سی
کے لیے آواز بلند کرنے کے سبب کانگریس کی نظرمیں بھی کھٹکتا رہا تھا اور بی
جے پی کی بھی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔اسی لیے عدالت کے ذریعہ اس پر لگام
کسنے کی سعی کی جارہی ہے۔
پرشانت بھوشن کے خلاف سرکار کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے ۔ پچھلے سال فروری
2019 میں بھی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن میں بپا ہونے والے ہنگامہ کے
دوران اسی اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بھوشن کے خلاف سپریم کورٹ میں
توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ ان پر سی بی آئی کے سابق عبوری چیف
ایم ناگیشور راؤ کی تقرری کے سلسلے میں عدالت کو گمراہ کرنے کا الزام عائد
کیاگیا تھا۔اس بار پہلے تو پرشانت بھوشن کے تازہ ٹویٹس پر اعتراض جتانے کے
بعد ایک پرانا معاملہ نکال مزید دباو بڑھایا گیا۔ اتفاق سے یہ سارے معاملات
جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی سہ رکنی بنچ کے حوالے کیے اور اسے 2009ء میں
دیئے گئے اس بیان کا بھی جائزہ لینے کی ذمہ داری دی گئی ۔ ا س معاملے کی
شنوائی کو ضروری قرار دیتے ہوئے جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے 9 اگست کوکہا تھا
کہ ’’ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ بدعنوانی سے متعلق ریمارک توہین
عدالت کا باعث ہیں یا نہیں۔اس لئےاس معاملے کی سماعت ضروری ہے۔
‘‘
پرشانت بھوشن نے 2009ء میں تہلکہ میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق چیف
جسٹس ایس ایچ کپاڈیہ اور جسٹس کے جی بالاکرشنن پر الزامات عائد کرتے ہوئے
کہاتھا کہ اس وقت تک ملک کے ۱۶؍ دسابق چیف جسٹس میں سے نصف بدعنوان تھے۔
پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی پر بحث میں سینئر وکیل دشینت
دوے نے عدالت سے کہا کہ اس تنقید کو مثبت انداز میں دیکھاجائے۔ اس کا مقصد
عدلیہ کی آزادی کو داغدارکرنا نہیں بلکہ اس کی بہتری ہے۔ اپنی جرح کے
دوران انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ عدلیہ کی افادیت دھیرے دھیرے کم ہوتی
جارہی ہے اور پرشانت بھوشن کے ٹویٹ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
دشینت دوے نےاس ضمن میں ۱۲؍ جنوری ۲۰۱۸ء کوجسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین
جوزف کے تبصروں کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے
عدالت کے طریقہ کار پرجو تنقید کی تھی وہ پوری طرح غلط نہیں تھی۔ اپنی
تنقید میں مذکورہ ججوں نے کہاتھا کہ سپریم کورٹ کا نظم ٹھیک سے نہیں چل
رہاہے اور ایسی بہت سی چیزیں ہو رہی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ دوے نے عدالت
سے پوچھا کہ جب آپ یہ محسوس کرتے ہوں کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں
ہے تو اپنی رائے کو اپنے تک محدود رکھنا غلط ہے لیکن کیا اس اظہار کو توہین
عدالت قرار دیا جائےگا؟
|