اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود میں آنے کے تقریبا
دس بارہ سال بعد ایک نوجوان اپنی والدہ اور علاقے کے چند ایک معزز افراد کے
ہمراہ اپنی برات لیکر اپنے سسرال پہنچ گیا جہاں پر نکاح کی رسم کے دوران
نکاح خوان نے مذکورہ نوجوان سے متعدد بار والد کا نام پو چھا لیکن ہر بار
نوجوان اپنے والد کا نام بتانے سے قاصر رہا قصہ مختصر بالآ خر مذکورہ
نوجوان نے نکاح خوان کو کہا کہ میں کئی سالوں سے اپنی والدہ کے ہمراہ زندگی
کا سفر کاٹتا آ رہا ہوں اس لیے مجھے اپنے والد کا نام یاد نہیں لہذا آج میں
اپنی والدہ سے اپنے والد کا نام پاچھ کر آپ کو آ گاہ کرتا ہوں یہ کہہ کر
مذکورہ نوجوان اپنی والدہ جو کہ علاقے کی چند ایک خواتین کے ہمراہ خوشی سے
سر شار ہو کر بیٹھی تھی کے پاس پہنچ کر اپنے والد کا نام پوچھنے لگا جسے سن
کر والدہ بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر اپنے بیٹے کی طرف صرف دیکھنے
لگ گئی جس پر مذکورہ نوجوان بڑے غم و غصہ کے عالم میں اپنی والدہ کو کہا کہ
اگر آپ نے میرے والد کا نام نہیں بتایا تو میں مارے شرم کے خود کشی کر لوں
گا یہ سننے کے بعد والدہ زارو قطار روتے ہوئے کہنے لگی کہ تم خود کشی نہیں
کر سکتے چونکہ تم ہی میری زندگی کا واحد سہارا ہو اگر تم نے خود کشی کر لی
تو میں بھی تمھارے ساتھ خود کشی کر لوں گی ہاں البتہ میں تمھیں تمھارے والد
کا نام نہ بتانے کا قصہ ضرور سناتی ہوں یہ کہہ کر مظلوم والدہ کچھ دیر تک
خوموش نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھتی رہی بالآ خر اُس نے بڑے اذیت ناک انداز
میں اپنے بیٹے کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ کو قائد اعظم محمد علی جناح اور
اُس کے لاتعداد ساتھیوں کی انتھک کاوشوں کے نتیجہ میں اسلامی جمہوریہ
پاکستان وجود میں آیا جس کی بقا کے حصول کی خا طر لاتعداد مسلمان خاندانوں
کی طرح میرے خاندان کے افراد نے بھی راتوں رات اپنے آ زاد ملک میں آ باد
ہونے کیلئے ہندوستان سے ہجرت کر لی کہ اسی دوران ہندوؤں اور سکھوں نے ہم پر
حملہ کر کے میرے تمام خاندان کے افراد کو قتل کر دیا جبکہ میں اندھیرے کا
فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلی میں اپنے آ زاد ملک میں آ باد ہو نے
کیلئے وہاں سے بھاگتی ہوئی ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئی جہاں پر نعشوں کے
انبار لگے ہوئے تھے وہاں پر تو اکیلا بیٹھا رو رہا تھا جس پر میں نے تمھیں
اپنے ساتھ لیا اور وہاں سے بھاگتی ہوئی اپنے ملک کی سر زمین پر آ باد ہو
گئی اس لیے میں تو نہ تمھارے والد کا نام جانتی ہوں اور نہ ہی تمھارے
خاندان کو میں تو بس تمھیں صرف اپنا بیٹا سمجھتی ہوں اسی لیے میں نے تمھاری
پرورش کیلئے دن رات محنت مزدوری کی ہے اب تم ہی مجھے بتاؤ کہ میں تمھیں
تمھارے والد کا نام کیا بتاؤں اس افسوس ناک اور درد بھرے واقعے کو سن کر
وہاں پر موجود تمام خواتین کی آ نکھیں خون کے آ نسو رونے لگ گئی آپ یقین
کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان
ایسے لا تعداد اذیت ناک واقعات سے گزر کر وجود میں آ یا ہے لیکن افسوس کہ
آج اس ملک کا آ سودہ نظام ایک گٹر کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کو صاف کرنے
والا کوئی نہیں یہی کافی نہیں آج اس ملک کے لاتعداد طلباو طالبات جو
درحقیقت قومی لٹیروں اور رشوت خور بیوروکریٹس کی پیداوار ہیں قانونی و غیر
قانونی ڈگریاں ملک وقوم کی بقا کے حصول کی خا طر حاصل نہیں کرتے بلکہ
سرکاری اعلی عہدوں پر فائز ہو نے کیلئے حاصل کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں آج
اس ملک کا ہر ادارہ کرپشن کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے یہاں یہ امر قابل
ذکر ہے کہ کرپشن ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے نیچے سے نہیں جس کے چند ایک
واضح ثبوت میں اپنے قارئین اور بالخصوص عمران خان کی حکومت کے ارباب و
بااختیار کی نظر کر رہا ہوں کہ آج ملک بھر کے ڈاکٹروں کی طرح ضلع جھنگ کے
سرکاری ہسپتالوں میں تعنیات ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز ڈریکولا کا روپ دھار کر
غریب افراد جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں کا خون چوسنے میں
مصروف عمل ہیں یہ ناسور جو نہ صرف اپنے مقدس پیشے بلکہ انسانیت کے نام پر
بھی ایک بد نما داغ ہیں انسانیت کی بقا کیلئے نہیں بلکہ اپنی کمیشن کے حصول
کی خا طر غریب مریضوں کو لاتعداد ٹیسٹ اور ادویات تجویز کرتے ہیں یہ ناسور
حکومت پاکستان سے بھاری تنخواہیں حاصل کرنے کے باوجود اپنے پرائیویٹ
کلینکوں پر ایک دن کمرے کا کرایہ چار ہزار روپے سے لیکر چھ ہزار روپے تک
غریب مریضوں سے وصول کرتے ہیں جبکہ چیکنگ فیس کے ساتھ ساتھ ادویات کی مد
میں بھاری رقوم وصول کرتے ہیں یہی کافی نہیں یہ وہ ناسور ہیں جو بھاری رقوم
کے عوض عطائی ڈاکٹروں کے غیر رجسٹرڈ کلینکوں کی سر پرستی کرنے میں زرہ بھر
بھی شرم محسوس نہیں کرتے یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ کرپشن کے بے تاج
بادشاہ ڈاکٹرز کو بطور ایم ایس تعنیات کر دیا جاتا ہے جو اوپر والوں کی نا
جائز خواہشات کی تکمیل کیلئے ہر وہ کام کر جاتا ہے جس کی نہ تو مذہب اسلام
اور نہ ہی اسے اپنا فرض اجازت دیتا ہے بالکل یہی کیفیت کارپوریشن جھنگ کے
لنگروٹ آ فیسروں کی بھی ہے جو اپنے آپ کو ہلاکو خان اور چنگیز خان سمجھ کر
اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ ساتھ غریب سائلوں سے ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں
جیسے اسرائیل مسلمان ملکوں کے ساتھ یہی کافی نہیں مذکورہ کارپوریشن جھنگ کے
سی او خالق داد نے تو اپنے ماتحت عملہ کو یہ حکم جاری کر دیا کہ وہ اپنے مو
بائل کو بند کر کے میرے کمرے میں داخل ہوں ورنہ یہاں پر دھما دھم مست قلندر
ہو گا آپ کے ساتھ بس یہی آ رڈر غریب سائلوں کیلئے بھی ہے یہاں یہ امر قابل
ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں مذکورہ آ فیسر کے کمرے میں ایک سابقہ جنرل کونسلر
پہنچا اپنا مو بائل بند کیے بغیر کہ اسی دوران مذکورہ جنرل کو نسلر کا فون
آ گیا جس پر مذکورہ آ فیسر جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ پبلک سرونٹ ہے
اور عوام کے ٹیکسوں کی رقوم سے مذکورہ آ فیسر ایک خوشحال زندگی گزار رہا ہے
نے مذکورہ جنرل کو نسلر سے بد تمیزی اور بد اخلاقی کا بھر پور مظاہرہ کرتے
ہوئے اپنے دفتر ہذا سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا جس کے نتیجہ میں مذکورہ
آ فیسر اور سابقہ جنرل کو نسلر کے مابین زبر دست دھما دھم مست قلندر مقابلہ
ہوا یہی کافی نہیں مذکورہ آ فیسر کی نااہلی اور ہٹ دھر می کے نتیجہ میں
تمام مشینری کباڑ خانہ کی صورت اختیار کر گئی ہے جس کے نتیجہ میں عملہ
صفائی کی تعداد روز بروز بڑھتی ہوئی آ بادی کے پیش نظر نہ ہونے کے برابر ہے
بے بس جبکہ غلاظت کے انبار اور شہر بھر کے محلوں اور گلیوں میں کئی کئی فٹ
گندہ پانی شہریوں کا مقدر بن چکا ہے جس کی وجہ سے لاتعداد غریب شہری مختلف
موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ آ فیسر کی ہٹ دھر می اور نااہلی کے سبب
شہر بھر کی عوام مختلف روڈز بالخصوص سر گو دھا روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کرتے
ہوئے مذکورہ آ فیسر کو غلیظ گالیاں دینے میں مصروف عمل ہیں جبکہ مذکورہ آ
فیسر ان احتجاجی مظاہروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اے سی روم میں اون
لائن باتیں کرنے میں مصروف عمل رہتا ہے جس سے یوں محسوس ہوتاہے کہ مذکورہ آ
فیسر اہنے گھناؤ نے اقدام کے نتیجہ میں عوامی حلقوں کی جانب سے عمران خان
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اُس کی پوری کابینہ سے یہ مطا لبہ
کیا جا رہا ہے کہ آپ ہمیں اور ہمارے ووٹ کو عزت دیتے ہوئے مذکورہ کارپوریشن
کے لنگروٹ اور نااہل مذکورہ آ فیسروں کو فل الفور تبدیل کر کے اُن کی جگہ
تجربہ کار سی او اور باقی ماندہ آ فیسروں کو تعنیات کرو ورنہ آ ئندہ الیکشن
میں ہمارا آپ کے ساتھ اور آپ کی پوری کا بینہ کے ساتھ دھما دھم مست قلندر
ہو گا ۔
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک یونہی ایک سچ کو لیے کھڑا رہا
|