"ساندل بار "پنجاب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی سی حیثیت
رکھتا ہے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پنجاب کی ،قیام پاکستان سے
پہلے دوسرے شہروں کی نسبت فیصل آباد کا خطہ کچھ زیادہ ہی بنجر اور ویران
کہلاتا تھا ۔۔یہ علاقہ " ساندل بار " اور " سانڈل بار " کے نام سے مشہور
ٹھا ۔ پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے کسانوں، محنت کشوں اور زمینداروں نے
ساندل بار کے ویرانے کو سر سبز اور ہرے بھرے کھیتوں میں تبدیل کر دیا ۔آج
سے کم از کم ایک سو بیس سال پہلے یہ علاقہ جنگلوں پر پھیلا ہوا ٹھا ۔اس
علاقہ کو " سند بار " بھی کہا جاتا ہے ۔دریائے راوی اور دریائے چناب کے
درمیان پھیلا ہوا یہ علاقہ کاشتکاری کے قابل نہیں ہوتا تھا اس لیے یہاں آئے
ہوئے لوگوں نے اپنے خون پسینے کے ساتھ اس علاقے کو ہریالی کے قابل بنایا ۔۔
فیصل آباد کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغل حکمران اکبر کے دور حکومت میں دہلی کے نزدیک رہنے والے لوگ اپنے اختلاف
کی وجہ سے بہت سے گروپوں میں تقسیم تھے، ان میں بہت سارے لوگ اپنی ریاستوں
کے مالک بنے ہوئے تھے،اکبر بادشاہ نے ان سرکشوں کو اپنی تلوار سے فتح
کرلیا۔ یہ لوگ مغل فوجوں کا مقابلہ نہ کرسکے وہ جنگلوں اور ویرانوں میں جا
کر چھپ گئے ،ان لوگوں نے جنگل آباد کیے اور حضرت بابا نور شاہ ولی کے دربار
کے قریب ایک چھوٹی سی بستی آباد کر لی ، یہ علاقہ چونکہ ویران اور بنجر تھا
اس لئے ڈاکوؤں اور چوروں نے اس کو اپنی پناہ گاہ بنا لی۔۔1857ء کی جنگ سے
فارغ ہو کر انگریزوں نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ،راجہ رنجیت سنگھ کی
حکومت کے بعد انگریزوں نے نئی آبادیوں کی طرف رخ کر لیا اس وقت یہ علاقہ
"ساندل بار "کے نام سے مشہور تھا ۔1870ء اور 1880ء کے درمیان خشک سالی اور
قحط کی وجہ سے کسان بغاوتوں نے ہندوستان کے سارے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا ۔۔89-1880ء کے دوران کسانوں کو زبردستی میدانی علاقوں میں منتقل
کردیا گیا رسمی طور پر تو انہیں زمینوں کا مالک بنایا گیا ۔۔
محمد اسلم آتش کاشمیری اپنے ایک مضمون "لائل پور سے فیصل آباد تک" میں
کاشتکاروں کو آباد کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
" لدیانہ ، سیالکوٹ ،ہوشیار پور اور امرتسر سے کاشتکاروں کو لا کر یہاں
انھیں -150 روپیہ فی ایكڑ سے زمین دی گئی۔""
حقیقت میں ان کسانوں کی حثییت غلاموں سے بھی بدتر تھی، یہ صرف ایک برآمدی
اجناس ہی کاشت کر سکتے ٹھے ،_جس کی قیمت بہت کم مقرر ہوتی تھی ۔ان کو پانی
کے استعمال پر بھاری لگان ادا کرنا پڑتا ٹھا ۔حکام کی اجازت کے بغیر یے
اپنی رہائش تبدیل کرنے کے مجاز نہ ٹھے ، ان علاقوں میں بے زمین کاشت کاروں
کی محنت کے استحصال کے ذریعے یہاں کیسے شہر آباد کیے گئے۔۔ پروفیسر اشفاق
بخاری اپنی تصنیف "جناب کلب" میں لکھتے ہیں۔
" ایک عجوبہ روزگار نہری نظام کو عملی شکل دینے کے لیے لائل پور میں زمینوں
میں چناب کالونی کے نام سے پہلی آبادی قائم کی۔ گئی ، یہ کینال کالونی
پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز براڈ وڈ لائل کے نام سے منسوب ہوئی ۔۔لائل
کے ساتھ ہندوستان میں بولی جانے والی پراکرت کے لفظ " پور "کو شامل کیے
جانے کے بعد لائل پور نامی بستی ضلع جھنگ تشکیل دی گئی ۔"
تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فیصل آباد کا آغاز " پکی ماڑی "( نور شاہ ولی)
سے ہوا ، پکی ماڑی کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ملک اشفاق اپنی کتاب " لائل۔
پور کی مختصر تاریخ " میں لکھتے ہیں ۔۔
" پکی ماڑی کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ ایک شخص نے چنیوٹ سے پکی ماڑی سے پکی
اینٹیں منگوا کر وہاں دو منزلہ مکان بنا رکھا ٹھا ۔جس کو لوگ پکی ماڑی کہتے
ٹھے ۔۔شام کے وقت گرمی بہت زیادہ تھی _ ایک شام صاحب بہادر تحصیلدار کو
ساتھ لے کر دور تک سیر کے لیے نکل گئے ۔صاحب بہادر سے تحصیلدار نے کہا کیوں
نہ یہاں ایک شہر آباد کیا جائے ۔۔،صاحب بہادر نے کہا میں گورنر صاحب سے بات
کروں گا۔ پھر اگلی صبح ڈی سی صاحب رات بھر بسر کرکے لاہور چلے گئے ۔"
یہاں خانابدوش اور پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی
بستیاں آباد تھیں ۔"1885ء کے دور میں" ساندل بار کا علاقہ جنگ میں شامل تھا
،اس حوالے سے ساندل بار میں جنگ شہر کو بڑا شہر سمجھا جاتا تھا ۔ساندل بار
کے مشرقی علاقے کا واحد مقام" پکی ماڑی" دریائے چناب سے تقریبا 21 میل دور
ہے ۔۔یہاں حضرت بابا نور شاہ ولی کا دربار ہے۔۔ دور کے علاقوں سے لوگ یہاں
آکر منتیں اور مرادیں مانگتے اور سکون محسوس کرتے ہیں۔۔صرف" پکی ماڑی " ایک
ایسی جگہ تھی جہاں انسانی آبادی تھی ۔۔ورنہ سارا علاقہ جنگلوں پر پھیلا ہوا
ٹھا ۔۔آہستہ آہستہ انگریز انجینئروں نے "پکی ماڑی" سے ایک میل دور اس جنگل
میں رہ کر اس جنگل کی کٹائی شروع کر دی ۔۔۔ سیالکوٹ، لدھیانہ، جالندھر اور
ہوشیار پور سے کسانوں اور کاشتکاروں کو بلوایا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ
علاقہ آبادی کے قابل ہوگیا ۔انگریز افسروں کی رہائش کے بارے میں پروفیسر
اشفاق بخاری لکھتے ہیں۔
"کلب کی تعمیر لائل پور شہر بسائے جانے سے قبل چناب کالونی( موجودہ نہری
کالونی بالمقابل اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے نام سے کرمچی رنگ کی اینٹوں سے
بنی رہائش گاہوں اور دفتروں کے چند کمروں پر مشتمل تیار کی جاچکی تھی، یہ
محض پہلا پڑاؤ تھا-"
سر جیمز کے نام پر بنائے جانے والے قصبہ 1896ء میں معرض وجود میں آیا ،اس
قصبہ کو پوپم ینگ ( سی آئی ای) نے ایک مربع فٹ میں ڈیزائن کیا۔۔۔ آٹھ بازار
تعمیر کیے اور ایک شاندار گھنٹہ گھر بنایا تقریبا ایک سو دس ایکڑ چار مربع
فٹ کے پھیلاؤ میں جنوب مشرق اور شمال مشرق کی جانب آٹھ بازار اور ایک چوک
ترتیب دیا۔ بحثیت ٤٣٢٢٢٥ لاکھ روپے میں زیادہ تر جگہیں قصبہ اور کچھ اس کے
اردگرد کے پھیلاؤ میں بیچی گئیں ۔۔۔
فیصل آباد کا حدود اربعہ اور محل وقوع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کوئی چیز جا کر ختم ہوتی ہے اس کو حد کہتے ہیں ،کسی جگہ کا حال بیان
کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے چاروں طرف کون سی چیز ، جگہ واقع
ہے کیوں کہ اس سے اس جگہ کا پتہ چلتا ہے ،اسی بیان کو حدود اربعہ کہتے ہیں
، جس کے معنی ہیں ، چاروں حدیں ، مثال کے طور پر ضلع فیصل آباد کا حال بیان
کرنے سے پہلے بتایا جائے کہ اس کے شمال میں ضلع جھنگ مشرق میں ضلع شیخوپورہ
اور دریائے راوی مغرب میں جھنگ اور ملتان کا کچھ حصہ ہے۔۔
طول و عرض ،شکل اور رقبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد ضلع کی زمین بہت لمبی چوڑی ہے جس کی زیادہ لمبی مشرق کی طرف
سانگلہ ہل سے لے کر شورکوٹ تک جو مغرب کی طرف ہے ۔92 میل ہے اور زیادہ سے
زیادہ چوڑائی شمال سے جنوب تک یعنی نہر جھنگ برانچ سے بچیکی تک 60میل
ہے۔۔نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضلع کی شکل تکونی ہے ، ضلع فیصل
آباد کا کل رقبہ 100 مربعہ میل ہے ۔۔
سطح زمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع فیصل آباد کی سطح ہموار ہے ۔۔
ڈھلان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع فیصل آباد اور جنوبی حد کے ساتھ دریائے راوی اور شمال مشرق سے جنوب
مغرب کی طرف بہتا ہے اور جو نہریں اس ضلع کو سیراب کرتی ہیں وہ بھی شمال
مشرق سے جنوب کو بہتی ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضلع کی ڈھلان شمال
مشرق سے جنوب مغرب کو ہے ۔۔
۔
چناب کالونی سے لائل پور تک کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائل پور کا قیام 1877ء میں عمل میں آیا ۔۔ساندل بار کے اس علاقے کو " چناب
کالونی " کہا جاتا تھا ، اور یہ راوی اور چناب کے دریاؤں کے درمیان دوآبہ
رچنا کےکے علاقہ ساندل بار میں واقع ہے اس کالونی کا زیادہ تر حصہ ضلع جھنگ
میں موجود ہے لیکن اس میں گوجرانوالہ ضلع کی نئی تحصیل خانقاہ ڈوگراں کا
تقریبا نصف حصہ تحصیل حافظ آباد کے چار موضعات اور لاہور ضلع کی تحصیل
شرقپور کے 9 موضعات بھی شامل ہیں۔۔چناب کالونی میں لفظ " چناب " کے بارے
میں پروفیسر اشفاق بخاری لکھتے ہیں
" چناب ہندو کلاسیک میں دریائے چناب کا قدیم نام چندرا بھاگا ہے سکندر اعظم
کے حملہ کے وقت چناب کا نام " Akesiness " تھا ۔"
اٹھارہ سو پچاسی تک سانگلہ ہل سے شورکوٹ روڈ تک سرکاری زمین گیر آباد جنگلی
جھاڑیوں پر مشتمل تھی اور ساندل باد کہلاتی تھی ہر بابا نور شاہ ولی کے
دربار کے قریب پکا ماڑی کچی بستی تھی
فیصل آباد،آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تیسرا اور پنجاب کا دوسرا بڑا شہر
ہے۔ یہ ضلع، فیصل آباد، سمندری، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ اور چک جھمرہ کی
پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
اس ضلع کے شمال میں حافظ آباد اور شیخوپورہ، مشرق میں ننکانہ اور ساہیوال،
جنوب میں ساہیوال اوکاڑہ، مغرب میں جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع واقع
ہیں۔ ماضی میں یہاں بے آب و گیاہ تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔
کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے۔ جن کے باسیوں کو جانگلی کہا جاتا
تھا۔ اِسے ساندل بار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ساندل بار کی تہذیبی اور
معاشرتی روایات اگرچہ اپنے پس منظرمیں ہزاروں برس کی طویل تاریخ رکھتی ہیں
لیکن ایک صدی پہلے تک اس ضلع کا شمار برصغیر پاک و ہند کے پسماندہ ترین
علاقوں میں ہوتا تھا۔ ساندل بار کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین مختلف روایتیں
ہیں۔ ایک یہ کہ دُلاّ بھٹی کے دادا کا نام بجلی خان عرف ساندل تھا، دوسری
شاہکوٹ کی پہاڑیوں کے ڈاکو سردار کا نام بھی ساندل تھا اور تیسری یہ کہ
جنگل کے چوہڑوں کے سردار کا نام چوہڑ خان عر ف ساندل تھا۔ ان تین میں سے
کسی ایک کے نام پر یہ علاقہ ساندل بار مشہور ہوا۔
۱۸۸۵ء میں لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے لاہور سے جھنگ شہر کی طرف سفر
کرتے ہوئے تحصیل چنیوٹ میں شامل ساندل بار کے بے آباد مگر سرسبز و شاداب
علاقے میں پکی ماڑی کے ایک گاؤں میں پڑاؤ کیا۔ ایک نوجوان انگریز انجینئر
کیپٹن نیگ شھی اس کے ساتھ تھا۔ جیمس لائل نے پکی ماڑی میں چند روز کے قیام
کے د وران گھوڑوں پر سوار ہو کر پکی ماڑی کے چاروں اطراف کئی کئی میل تک
سفر کر کے اس علاقے کو دیکھا۔
کنوؤں کا پانی چکھ کر دیکھا۔ کئی کئی میل کے فاصلے پر مقامی لوگوں نے کچے
مکانوں پر مشتمل اپنے گھر تعمیر کر رکھے تھے۔ جیمس لائل نے ساندل بار کے اس
علاقے کو زرخیزی کے باعث اس کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے
پکی ماڑی سے جنوب مغرب کی طرف تھوڑے فاصلے پر نئے شہر کی تعمیر کا فیصلہ
کیا۔ چنانچہ شہر کی تعمیر سے پہلے نہر رکھ برانچ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔
دیہات بندی اور سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ سانگلہ ہل سے شور کوٹ تک ریلوے
لائن بچھانے کا اہتمام ہوا اور اس طرح دیہات بندی اور مختلف دیہات میں
مشرقی پنجاب کے د یہات سے لوگوں کو زرعی رقبوں کی الاٹمنٹ کے منصوبے پر کام
ہوتا رہا۔ سب سے پہلے ۱۸۹۰ء میں جنگل کی کٹائی کرکے موجودہ گھنٹہ گھر کی
جگہ کنواں بنایا گیا اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق شہر کی بنیاد رکھی
گئی اور ۱۸۹۲ء میں نہر لوئر چناب کی تکمیل کے بعد بندوبست کا آغاز ہوا۔
۱۸۹۵ء میں ریلوے کا آغاز ہوا۔ ۱۸۹۹ء میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ اور ۱۹۰۰ء میں
خانیوال تک اسے ملا دیا گیا۔ ۱۸۹۶ء میں کہ جب شہر کی کچھ آبادیاں بھی
معرضِ وجود میں آ چکی تھیں اور دفاتر بھی بن چکے تھے تو پنجاب کے لیفٹیننٹ
گورنر سر جیمز بی لائل نے چک ۲۱۲ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کی چار ایکڑ زمین
کو لائل پور کا نام دیا گیا۔ لائل پور کے کالونائزیشن آفیسر سر کیپٹن
پونام ینگ نے یونین جیک کی طرز پر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا نقشہ
لائلپور کے لیے بنایا۔
۱۸۹۷ءمیں قیصری دروازے کی تعمیر ہوئی۔ یہ دروازہ لالہ موہن لعل خلف بہاری
لعل نے ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔
قیصری گیٹ سے تقریباً ایک سو پچاس فٹ کے فاصلے پر گو مٹی تعمیر کی گئی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد کئی سالوں تک یہ گومٹی مسافر خانے کے طور پر استعمال
ہوتی تھی۔ اس کے اطراف میں ’’برکت دریائے چنا ںدی‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔
لائلپور کے آٹھ بازار اور ان آٹھ بازاروں کے دامن میں رہائشی مکانات
۱۸۹۸ء تک تعمیر کے مراحل میں تھے۔
ان بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر تعمیر ہوا۔ اس کا افتتاح ۱۴ نومبر
۱۹۰۳ء کو سر چارلس رواز گورنر پنجاب نے کیا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے
حکومت نے زمینداروں پر دو ٹکے کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔ اس پر کل
چالیس ہزار روپے خرچ ہوا تھا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر انگریزی فن تعمیر کا ایک
نادر نمونہ ہے۔ اس کے چاروں طرف ریل بازار، جھنگ بازار، کچہری بازار، چنیوٹ
بازار، بھوانہ بازار، امین پور بازار، منٹگمری بازار اور کارخانہ بازار
تعمیر ہوئے۔ ان آٹھ بازاروں میں سے چار کُشادہ اور چار ذرا تنگ ہیں۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر تاج محل آگرہ بنانے والے معماروں کے خاندان کے ایک شخص
گلاب خان کی نگرانی میں ہوئی۔ گھڑیال بمبئی کے ایک گھڑی ساز نے فراہم کیا
تھا۔ شہر کا ڈیزائن ڈسمنڈ ینگ نے بنایا مگر ڈیزائن کو اصل صورت سر گنگا رام
نے دی۔ پہلی بستی ڈگلس پورہ تھی ۔ لائلپور کو ۱۸۹۹ ء میں درجہ دوم کی
میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔ ۱۹۰۴ء میں اس کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔
کمیٹی کی حدود ۱۹۱۶۰ ایکڑ اراضی ، شہر کی آبادی ۹ ہزار اور ایک اینگلو
ورنیکلر سکول تھا۔ اس وقت لائلپور تحصیل کی حیثیت سے ضلع جھنگ میں شامل
تھا۔ ۱۹۰۶ء میں اسے ضلع کا درجہ دے کر سمندری ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لائلپور
کی تحصیلیں شامل کی گئیں جبکہ جڑانوالہ کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ بعد
ازاں جڑانوالہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ
ٹیک سنگھ ۱۹۷۹ء میں ضلع بنا دیا گیا تو ضلع لائلپور کی حدود کم ہو گئیں۔
ضلع کی بیس لاکھ ایکڑ اراضی بحساب کسان ایک مربع کاشتکار چار پانچ مربع اور
زمیندار چھ سے بیس مربع تک تقسیم کی گئی۔ شہری اراضی ایک روپیہ فی مرلہ تک
فروخت کی گئی۔ شہر میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کیلئے ۱۹۰۶ء میں زرعی
کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ کالج کی عمارت ۱۹۰۹ء میں مکمل ہوئی جس کو
پنجاب ایگریکلچرل کالج اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا نام دیا گیا اور بعد میں
۱۹۶۱ء میں اسے مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ
کے قیام کی صورت میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے دو حصوں میں
تقسیم کر دیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میں یہاں پرائمری سکول قائم ہوا جو آج کل ایم سی
ہائی سکول علامہ اقبال ٹاؤن ہے۔
۱۹۱۱ء میں لائلپور کی آبادی ۱۱ ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں ۱۱ جننگ
فیکٹریز تھیں۔ ۱۹۱۲ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام ہوا جو موجودہ علامہ
اقبال لائبریری ہے۔۱۹۳۴ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے۔ ۱۹۳۳ء
میں لڑکوں کے کالج اور ۱۹۳۸ء میں لڑکیوں کے کالج کو ڈگری کا درجہ حاصل ہوا۔
اب لڑکوں کا کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے
بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے
اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان
آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ
اختیار کر لیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کالونی کی جگہ میلہ منڈی مویشیاں کے لیے مخصوص
تھی۔ اسے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سمندری روڈ پر موجودہ علاقہ اقبال کالونی والی
جگہ پر منتقل کیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اس سے آگے موجودہ بائی پاس کے
پہلو میں منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد غلہ مندی کو کارخانہ
بازار اور ریل بازار کے درمیان سے ڈجکوٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ
پاکستان کے وقت شہر کی آبادی آٹھ بازاروں سے باہر سنت پورہ، پرتاب نگر،
ہرچرن پورہ، گورونانک پورہ، ماڈل ٹاؤن اور پکی ماڑی کے عقب میں طارق آباد
کی کالونیوں تک پھیل چکی تھی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نہر رکھ برانچ کے دوسری طرف پیپلز کالونی اور
دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ غلام محمد آباد ، سمن آباد،
ڈی ٹائپ کالونی، رضا آباد، افغان آباد، ایوب کالونی اور ناظم آباد کے
رہائشی منصوبے ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں تعمیر ہوئے۔ بعدازاں مدینہ
ٹائون اور پیپلز کالونی کی رہائشی کالونیاں تعمیر ہوئیں۔ گلستان کالونی،
گلفشاں کالونی، ملت ٹاؤن وغیرہ کی تعمیر سے شہر کا دامن چاروں اطراف میں
کئی کئی میل تک پھیلا۔ تاج کالونی، منصورہ آباد، گلشن کالونی، سِدھوپورہ،
خالد آباد، جناح کالونی، شاداب کالونی، راجہ کالونی، ماڈل ٹائون، علامہ
اقبال کالونی، عبداللہ پور، واپڈا سٹی، طارق آباد، اسلام نگر، گل بہار،
گلبرگ، شالیمار پارک، رچناٹائون وغیرہ اس کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔
۱۹۷۷ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید کئے گئے تو حکومت پاکستان نے اظہار
یکجہتی کیلئے شہر کا نام لائلپور سے تبدیل کرکے فیصل آباد رکھ دیا۔ ۱۹۸۱ء
میں اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا اور اس میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک
سنگھ اور جھنگ کے اضلاع شامل کئے گئے۔ ۲۰۰۰ ء میں نئے ضلعی نظام کے قیام کے
ساتھ ہی ڈویژنز ختم کر دی گئیں۔ ۲۰۰۸ء میں ایک بار پھر ڈویژنوں کو بحال کر
دیا گیا تو فیصل آباد ڈویژن بھی دوبارہ قائم ہو گئی۔ ۱۹۵۹ء میں یہاں
ٹیکسٹائل کالج اور اقبال اسٹیڈیم تعمیر ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں ملت کالج اور
ایئرپورٹ بنے۔
۱۹۷۳ء میں پنجاب میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۴ء میں چیمبر آف
کامرس اور پنجاب بیوریج کمپنی، ۱۹۷۵ء میں زرعی ترقیاتی کارپوریشن بینک اور
۱۹۷۶ء ایف ڈی اے اور واسا کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۸۰ء میں پاکستان ٹیلی
ویژن براڈ کاسٹنگ کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں شہر کی آبادی ۱۵ لاکھ سے تجاوز
کر گئی۔ آج یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ زرعی یونیورسٹی ، نیاب ، ایوب
زرعی تحقیقاتی ادارہ، بنجی اور فاریسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ گٹ والا کی وجہ سے
اسے سائنس سٹی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی یارن مارکیٹ
ایشیاء کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔ضلع بھر میں تقریبا ۴۰۰ سے زائد بڑے
صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیں۔ جن میں زیادہ تر سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔
صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی فیصل آباد ملک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قیام
پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد
۱۹۴۸ء میں ۴۳ ہو گئی۔ اب صنعتی یونٹوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔کپڑے
کی صنعت کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، شکر،
پلائی ووڈ، چپ بورڈ، مصنوعی کھاد، ہوزری، نشاستہ، گلو کوز، آرٹ سلک،
ٹیکسٹائل مشینری، زرعی آلات اور کلاک تیار کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں۔
صابن سازی کی صنعت بھی خاصی عروج پر ہے۔فیصل آباد کو قائد اعظم محمد علی
جناح کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ قائد اعظم ۱۹۴۳ء میں تحریکِ پاکستان
کے دوران یہاں تشریف لائے تھے اور دھوبی گھاٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں
کے اجتماع سے خطاب فرمایا تھا۔ ۱۹۵۱ ء میں فیصل آباد کی آبادی ایک لاکھ
۷۹ ہزار تھی۔ ۱۹۶۱ء میں چار لاکھ ۲۵ ہزار، ۱۹۷۲ء میں آٹھ لاکھ ۲۳ ہزار اور
۱۹۹۱ء میں گیارہ لاکھ چار ہزار تھی۔
فیصل آباد میں شعری روایت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد میں ادبی اور شعری روایتآغاز سے اب تک کم و بیش 100 سال سے زیادہ
کو محیط ہے ۔پرانے اخبارات رسائل اور انجمنوں کی مل جانے والی قرارداد کے
ذریعے سے یہاں کا جو شعری منظرنامہ مرتب ہوتا ہے ،اس میں ن -م راشد پہلے
بڑے شاعر ہیں ۔جنہوں نے بیس کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لائلپور سے بہت کم
لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی تھی ۔
1940ء کے قریب محی الدین خلوت اور عبدالحق کامل نے اپنے اپنے انداز میں
شعری روایت کو آگے بڑھایا ، قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بہت سارے ایسے
شاعر سامنے آتی ہیں جنہوں نے اس شعری منظر نامے میں اپنی اپنی خداداد
صلاحیتوں سے رنگ بھرے ہیں ۔
مقامی شاعروں میں خلیق قریشی اور منظور احمد منظور دو بڑے نام ہیں ۔منظور
احمد منظور ہمہ جہت فن کار تھے ۔انہوں نے شاعری میں ایک عرصے تک اردو غزل
نظم کی تخلیق کی آبیاری میں حصہ لیا ۔۔منظور احمد منظور کا روشن دماغ روشنی
اور زندگی کی گواہی بن کر" دیر و حرم" اور د"یدہ بینا" کی صورت ہم سے
مکالمہ کر رہا ہے ۔۔
خلیق قریشی کا اصل نام غلام رسول تھا وہ 14 اگست 1916ء میں موضع لنگیاں ضلع
گجرات میں پیدا ہوئے۔آپ نے اپنے آپ کو ہمہ جہت شخصیت کے طور پر منوایا
۔۔خلیق قریشی بیک وقت شاعر، ادیب ،صحافی، خطیب اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ
پاکستان اور بانی پاکستان کے جان نثار تھے۔۔تحریک پاکستان، تشکیل پاکستان
اور تکمیل پاکستان ان کی زندگی کا مطمح نظر رہا ۔۔"سر دوش ہوا "(نظمیں ) ،
"برگ سدرہ " (نعتیں)،" نقش کف پا "(غزلیں )ان کی قادر الکلامی کا ثبوت ہیں
۔۔۔۔
ہجرت کے بعد یہاں آنے والے شہروں میں م- حسن لطیفی ،حافظ لدھیانوی، حزیں
لدھیانوی ، فیض جھنجھانوی اور دوسرے شعرا تھے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے
یہاں مقیم ہوگئے اور تا دم آخر یہیں رہے ۔ساٹھ کی دہائی میں اردو نظم اور
غزل کی تازہ کاری کی ایک لہر نے جنم لیا جس میں افضل احسن رندھاوا،نذیرناجی
اور فاروق حسن کے نام نمایاں ہیں ان کے اقبال سروش اور تنویر جیلانی اور
خوش بعد میں عدیم ہاشمی کے نام سامنے آتے ہیں ۔۔۔۔فیصل آباد کی شعری روایت
میں شاعرات کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ان شاعرات میں عزیز انجم حیدر
روبینہ شوکت ڈاکٹر آنسہ احمد اعوان، ڈاکٹر ناہید رفعت یاسمین، ساجدہ ہاشمی
،کنیز اسحاق ،ثمینہ نشیب رضیہ عثمانی ، گلفام نقوی ، میمونہ روحی اور سمیرا
کے نام نمایاں ہیں یہ وہ شاعرات ہیں جن کے شعری مجموعے چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔
فیصل آباد گو کہ ایک صدی پرانا شہر ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں زیادہ گہری
اور قدیم نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے پنجابی شاعری میں سُندر داس
عاصی، نند لال پوری اور تیجا سنگھ صابر کے نام نمایاں تھے۔ ان میں سے سندر
داس عاصی ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ملک کے وقت لدھیانہ (بھارت) میں
منتقل ہو گئے تھے۔ ’’پرلے پار‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔
نند لال نور پوری ضلع لائلپور (فیصل آباد) کے گاؤں نورپور میں ۱۹۰۶ء میں
پیدا ہوئے۔ خالصہ کالج لائلپور میں زیرِتعلیم رہے۔ ادب و انشاء سے طبعی
لگاؤ تھا۔ شعر و شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نویسی کی۔ فلم ’’منگتی‘‘
کی کہانی اور مکالمے ا ور گیت وغیرہ ترتیب دئیے۔ آپ کی تصانیف میں نور
پریاں، ونگاں، چنگیاڑے، جیوندا پنجاب اور میرے پنجاب شامل ہیں۔ تیجاسنگھ
صابر کا تعلق بھی لائلپور سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھارت میں منتقل ہو
گئے اور دہلی میں مقیم ہوئے۔
آپ کی تصانیف میں پرچھانویں ، یادگار، پورب دا چانن اور جگدیاں جوتاں
وغیرہ شامل ہیں۔مشہور انڈین فلمی گیت کار ساحر لدھیانوی بھی فیصل آباد میں
رہے تھے۔فیض جھنجھانوی، رفعت ہاشمی، سعید الفت، صائم چشتی، حزیں لدھیانوی،
ثمر فردوسی، جمال الدین، حافظ لدھیانوی، جان جوزف، حامدالوارثی، بخش
لائلپوری،حسن نثار ، بری نظامی، علامہ نور بخش توکلی جیسے ادیب اور شاعر
بھی فیصل آباد کی دھرتی سے تعلق رکھتے تھے۔موجودہ دور کی جن اہم علمی و
ادبی شخصیات کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمد باقر ، طالب
جالندھری ،باری علیگ ، سلیم بیتاب ،منظور احمد منظور ، افضل کوٹلوی، اشفاق
بخاری ،عظمت اللہ خان ، پروفیسر عصمت اللہ خان ،گلزار ملک ، علی اختر ،
حافظ لدھیانوی، ستار طاہر، ظہور عالم شہید، نادر جاجوی ، سید امین علی شاہ
نقوی ، اختر سدیدی ، عبیر ابو زری ،سید زیارت حسین جمیل ، مسرور بدایونی ،
نصرت صدیقی ، افضل احسن رندھاوا، عبیر ابو زری، اخلاق حیدر آبادی، اشرف
اشعری، نور محمّد نور کپور تھلوی، خلیق قریشی، ظہیر قریشی ، عبد الستار
نیازی ، غلام رسول شوق، ڈاکٹر شوکت علی قمر ، پروفیسر مفتی عبد الرؤف ،
الیاس مرزا ، احمد شہباز خاور ، ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ، منظر مفتی
، فقیر مصطفیٰ امیر نواز، ڈاکٹر محمد اختر چیمہ، شفقت حسین شفقت، ڈاکٹر
محمّد عالم خان، ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر خالد عبّاس بابر ، اختر
وارثی، زاہد فخری، ڈاکٹر ریاض مجید، حاتم بھٹی ، ڈاکٹر شاہد اشرف، ڈاکٹر
شبیر احمد قادری،پروفیسر ریاض احمد قادری، ثناءاللہ ظہیر، اشرف یوسفی، سرور
خان سرور ، پروفیسر یونس جیلانی ، عبد الستار شاہد، محمّد فیاض ماہی ،
فاروق انجم ، سلیم شاہد ، کنیز اسحاق ، ڈاکٹر سرور شیخ ،ڈاکٹر اصغر علی
بلوچ ، ڈاکٹر سعید احمد ، حکیم رمضان اطہر ، کاشف نعمانی ، مقصود وفا
،ڈاکٹر حمید محسن ، کوثرعلی ، رانا محمّد گلزار کپور تھلوی ،محمّد اشرف
شرف، ڈاکٹر افضال احمد انور، مقصود وفا،علی زریون،انجم سلیمی، ڈاکٹرقاسم
یعقوب،علامہ ضیا ء حسین ضیاء،ڈاکٹر افضل حمید، ڈاکٹر جمیل اصغر، ڈاکٹر
اظہار احمد گلزار ،افضل خاکسار، شہزاد بیگ، انور انیق ، منیر احمد خاور ،
ڈاکٹر محمود رضا سید ، عمران سانول وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
فیصل آباد میں افسانوی ادب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد کے افسانہ نگاروں کے یہاں زبان و بیان کے نت نیے تجربے ، فن کے
ارتقاء و تکمیل کے امکانات کا پتہ دیتے ہیں ۔۔ان کے ہاں ایک منفرد اور غیر
روایتی اسلوب کو اپنانے کا میلان نظر آتا ہے ۔علی اختر ، اخلاق حیدرآبادی،
جاوید اقبال ، سید علی محسن ، ایم- آر آصف ، ظہیر سلیمی شمس نغمان ،اعجاز
حنیف ،رشید مصباح ، گلزار ملک ، نصیر احمد چیمہ ، ندیم باری ، محمّد اشرف
امید ، صابر رضا ، غلام رسول تنویر ، پرویز انجم ،محمّد عالم خان ، نگہت
مرزا ،بتول فاطمہ ،کنیز اسحاق ، طاہرہ اقبال اور صفیہ صابری کے نام نمایاں
ہیں ۔۔ ان کے ہاں ہر طرف بکھرے ہوئے موضوعات کی پرچھائیاں کرداروں کے
مکالموں اور مناظر کی صورت میں ترتیب پا کر کہانی کا روپ دھارتی ہیں ۔۔
فیصل آباد کے اہل قلم نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھے ہیں
۔۔فیصل آباد میں بیسویں صدی میں پہلی پانچ دہائیوں میں تو شاعری میں ہی نام
کمایا ۔۔فیصل آباد نے بیسویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں میں تو شاعری میں ہی
نام کمایا ۔شاعری کی نسبت افسانہ نگاری کا رجحان بہت کم تھا لیکن اس دوران
علمیت بھی رسائل و اخبارات میں لکھنے والے نوجوانوں میں سے بعض نے قیام
پاکستان کے کچھ سال بعد باقاعدہ افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچان حاصل۔ کی
۔۔فیصل آباد میں افسانہ نگاروں کی زیادہ تعداد قیام پاکستان کے کچھ سال بعد
ہی ملتی ہے ۔۔۔فیصل آباد کے افسانہ نگاروں میں اخلاق حیدرآبادی کا افسانوی
مجموعہ "ادھوری تحریر"،سید علی محسن کے افسانوں کے پانچ مجموعے "اداس
کہانیاں "اس گلی میں"، "جو بیت گیا "،خمری"،زرباف "، گلزار ملک کےپانچ
افسانوی مجموعے "آزادی کے لیے ایک مزدور کی موت "، آگ "،اندھوں کی بستی میں
محبت "،گرتے ہوئے پیڑوں کی سرگزشت "،محبت ،سمندر اور وہ"،۔۔۔ایم- آر آصف کا
افسانوی مجموعہ "کھلی کھڑکیاں بند دروازے "،۔۔۔ محمد ابدال بیلا کا افسانوی
مجموعہ " گڈ مڈ "، ۔۔۔شمس نغمان کا افسانوی مجموعہ " آوازیں اور
یادیں"،۔۔۔اعجاز حنیف کا افسانوی مجموعہ " بستی بستی پکارا میں نے "،
۔۔۔رشید مصباح کا افسانوی مجموعہ سوچ کی داشتہ "،۔۔۔نصیر احمد چیمہ کا
"رکسونا کا قلعہ "،۔۔افتخار نسیم کے افسانوں کا مجموعہ "شیری"، ۔۔۔ندیم
باری کا " وفا کی خوشبو "،۔۔۔الیکٹرک کے افسانوں کے مجموعوں میں " بول ری
گڑیا"،خواب تیری آنکھوں کے"، "، کرب کی دہلیز "،تیرا دھیان رہتا ہے"، اور
"تم تو میرے اپنے تھے "، ۔۔۔جاوید اقبال کے افسانوں کے مجموعوں میں " تنہا
چاند اور ساری راتیں"، شام اشنا "، مہ نورد "،۔۔۔محمد اشرف امید کے افسانوی
مجموعہ کا نام "دوسرا سجدہ"،۔۔۔ارشاد اعجاز رانا کا افسانوی مجموعہ شاہ
بلوط کا خشک پتا "،۔۔۔غلام رسول تنویر کا افسانوی مجموعہ "روح کا گوتم
"،۔۔۔۔پرویز انجم کا " ایک موسم "،محمد عالم خان کا افسانوی مجموعہ "غلام
جسموں کا نوحہ "، ۔۔فاطمہ بتول کا افسانوی مجموعہ "ادھورے سفر"، ۔۔۔کنیز
اسحاق کے افسانوی مجموعے "ادھورے خواب "،اور " جاگتی آنکھوں کے خواب
"،طاہرہ اقبال کے افسانوی مجموعے" شب خون "،سنگ بستہ "، اور صفیہ صابری کے
افسانوی مجموعوں میں "فاصلے سمٹ گئے"، اور "پیاس کا سفر" شامل ہیں ۔۔۔۔
ان افسانہ نگاروں نے افسانوں کو داستان اور لوک کہانی سے علاحدہ ایک تشخص
دیا ۔۔بدلتے ہوئے زمانے کی کروٹوں کو جزو افسانہ کیا ۔۔۔فیصل آباد کی
افسانہ نگاروں نے ان افسانوں کو افسانہ ہونے کے باوجود قاری کو افسانوں کا
گمان نہ ہونے دیا ۔بلکہ ایک جیتی جاگتی دنیا کا منظر نامہ پیش کیا ہے
۔۔۔۔۔بہت سے افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا تعلق فیصل آباد سے تھا لیکن وہ
تارکین وطن کی حثییت سے مغرب میں مقیم ہو گئے اور وہاں کی سرزمین سے متعلق
افسانے لکھنے لگے ۔ان میں رفعت مرتضی، شمس نغمان ،اور ظہیر سلیمی سر فہرست
ہیں ۔۔
فیصل آباد میں سفر نامے کا آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ادب میں تمام اصنافِ سخن میں سفرنامہ کی صورتحال کو بہت اہمیت حاصل ہے
۔سفرنامہ دراصل سفری دستاویز نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی تاریخی اور ذاتی
تجربات کا نچوڑ بھی ہوتا ہے اس طرح کے تمام معاملات کو اپنے دامن میں سموئے
ہوئے ہے۔۔فیصل آباد میں سفر نامے کا سرخیل ظہیر قریشی ہے ۔ لائل پور (فیصل
آباد )میں ایک مسافر جو گجرات سے ہجرت کرنے والے خاندان کی تیسری نسل کا
نمائندہ ہے بڑی تیزی سےایک بڑے سیاح کی صورت میں اس سرزمین میں ابھرا ۔ جو
اس زمانے کے گریجویٹ باپ (خلیق قریشی )کا بیٹا ہے ۔۔اس نے اپنے والد کی اصل
جاگیر روزنامہ عوام کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اسے اپنے والد کی نسبت کہیں
زیادہ با اعتماد اور باوقار بنایا۔۔عزیز قریشی نے پاکستان کے شمالی پہاڑی
علاقوں میں یکے بعد دیگرے دو طوی سفر کیے، 1983ء "تیری وادی وادی گھوموں
"اور دوسرے سفر اپریل 1985 ء کے مشاہدات قلمبند کیے ۔۔۔۔۔" تیری وادی وادی
گھوموں" اور"سبز پوش وادیوں میں " کے اندر ایک مکمل سیاح کے تمام تر جوہر
موجود ہیں ۔۔۔۔۔
ان کے بعد سفر نامے لکھنے والوں میں ریاض احمد پرواز ،ڈاکٹر جعفر حسن مبارک
،ڈاکٹر اعجاز تبسم ،ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ،پروفیسر یعقوب مظہر گل
،ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ اور صفیہ صابری ۔شامل ہیں ۔
فیصل آباد میں تحقیقی اور تنقیدی کتب کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحقیق کی ابتدا انسانی مسائل
کے ابتدا کے ساتھ ہی ہوتی ہے جوں جوں انسانی مسائل بڑھے ، تحقیق آگے بڑھی،
تحقیق کے عمل سے انسان نے ان مسائل کو حل کرکے زندگی کو آسان بنانا سیکھا
۔۔۔تحقیق کی تعریف اگر ہم ایک جملہ میں کھانا چاہیں تو مختصر یہ کہہ سکتے
ہیں کہ تحقیق صداقت یا سچائی کی تلاش کا نام ہے ۔۔عربی تحقیق سماجی یا
سائنسی تحقیق کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دیگر اقسام کی طرح معروضیت
کے آلات اور پیمانے وضع ہو چکے ہیں لیکن ادبی تحقیق نے ابھی پیمانے بنانا
شروع ہی نہیں کئے، اس لئے اس میں معروضیت قائم رکھنا بہت مشکل کام ہے
۔۔۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے نئے واقعات کا علم ہوتا رہے گا کیونکہ زرعی
معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی حقیقت کتنے
پردوں میں چھپی ہوئی ہے ۔۔فیصل آباد میں تحقیق کے میدان میں جن محققین نے
اپنا حصہ ڈالا ۔۔ان میں ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ،ڈاکٹر ریاض مجید ،ڈاکٹر
شبیر احمد قادری ،صائم چشتی ،، آصف بشیر چشتی ، ڈاکٹر پروین کلو ،ڈاکٹر
جمیل اصغر ، پروفیسر اشفاق بخاری ،ڈاکٹر محمد عالم خان ،میڈم میمونہ روحی
،ڈاکٹر اصغر علی بلوچ ،ڈاکٹر سعید احمد ،محمد اجمل سروش ،محمد سرفراز ،محمد
رؤف ،محمد اشرف اشعری ،احمد رضا بھٹی ، ڈاکٹر محمد آصف اعوان ،ڈاکٹر محمد
ارشد اویسی ،ڈاکٹر زینت افشاں ،شبانہ کوثر، محمّد انور انیق اور ڈاکٹر
اظہار احمد گلزار شامل ہیں ۔۔
شعبہ تنقید میں بہت کم کتب منصہ شہود پر آئی ہیں ۔۔کسی بھی معاشرے کے تہذیب
و تمدن اور رسوم و رواج اور جمالیاتی ذوق کی عکاسی اور مزاج کی ترجمانی اس
کے شعر و ادب سے ہوتی ہے ۔۔اور شعر و ادب کی راہیں متعین کرنے کے لیے تنقید
کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ لہذا جس قدر تنقیدی شعور پختہ ہو گا اسی قدر قابل
ذکر ادب کی ترویج عمل میں آئے گی ۔۔تنقید کھوٹے سکے الگ کرنے کو اور شیر کے
عیب ظاہر کرنے کو کہتے ہیں اردو تنقید کا زیادہ تر موضوع اردو شاعری ہی رہی
ہے ۔۔۔۔۔۔دراصل ہر ادب میں تنقید کا زیادہ تر موضوع شاعری ہوتی ہے کیوں کہ
ہر آدمی شاعری پہلے موجود میں آتی ہے اور نثر بعد میں ۔۔۔شاعری کے بعد ناول
،افسانے اور ڈرامے وغیرہ ۔۔۔۔فیصل آباد میں تنقید کے شعبہ میں جن اہل قلم
نے اپنی کتب منصہ شہود پر لا کر داد و تحسین حاصل کی۔۔ ان میں ڈاکٹر محمد
عالم خان ،ڈاکٹر رابعہ سرفراز ،ڈاکٹر طارق ہاشمی ،ماجد مشتاق رائے ،علی
اختر اور ڈاکٹر افضال احمد انور کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد میں صحافت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں لاہور دہلی کلکتہ بمبے اور ڈھاکہ کو مرکزیت حاصل رہی ۔وہ آباد چھوٹا
شہروں کے مطلع صحافت پر بھی جرائد و رسائل ستاروں کی مانند درخشاں رہے ہیں
۔۔ان میں متحدہ ہندوستان کے علاوہ ساندل بار کے ضلع لائلپور کو زراعت کے
ساتھ ساتھ میدان صحافت میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ۔اس علاقہ میں جس طرح
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے لوگوں کو آداب زراعت سے آشنا کرنے میں ایک
مثالی کردار ادا کیا ہے اسی طرح یہاں کے علماء ، ادبا اور صحافیوں نے بھی
لوگوں کو آداب زیست سکھانے اور ان کی کشت و فکر و نظر میں علم و ادب کی تخم
ریزی کر کے شعور و آگہی سے ثمربار کرنے میں بھرپور مساعی سر انجام دی
ہیں۔۔۔۔1899ء میں " لائل پور گزٹ " کے نام سے ایک اخبار جاری ہوا تھا جو
چار برس جاری رہ سکا ۔۔اور 1904ء میں بند ہو گیا ۔۔ہرچند سنگھ اور ماسٹر
سندر سنگھ لائلپوری میں فیصل آباد سے 1908ء میں "سچا ڈھنڈورا " کے نام سے
اخبار جاری کرکے سکھ مسائل کو موضوع سخن بنایا تھ۔اس کے علاوہ ماسٹر سندر
سنگھ لائلپوری نے فیصل آباد سے درج ذیل اخبارات بھی نکالتے تھے اکال ، آزاد
اکال ، میلو ، نواں یگ ،دلیر خالصہ،کندن ، انقلاب ،سنجیوال ،گرو خالصہ
،۔۔۔۔۔1929ء میں فیصل آباد سے ڈاکٹر آمرت سنگھ نے ہفت روزہ "لائل پور"شروع
کیا ۔یہ بھی معاشی بدحالی کے باعث چند ماہ بعد بند ہو گیا ۔۔ غالبا
1933ءاسے دوبارہ شروع کیا گیا اس اخبار کے ابتدائی مدیروں میں خلیق قریشی
جیسے دانشور کا نام بھی شامل تھا۔یہ اخباربشیر ممتاز کی ادارت میں باقاعدگی
سے نکالا جا رہا ہے۔۔1929ء میں ہی ہندوؤں کا اخبار انصاف جو ڈاکٹر رام لال
کی عدالت میں نکلتا تھا اس کے مقابلے میں شاہ محمد عزیز نے ٹوبہ ٹیک سنگھ
سے ہفت روزہ "حقانیت" نکالا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا
تھا۔۔اس کے بعد جی ایم سید نے ہفت روزہ طوفان کے نام سے ایک اخبار نکالا یہ
بھی ایک سال بعد بند ہو گیا اس سلسلے میں چودھری شاہ محمد عزیز اپنے ایک
مضمون" فیصل آباد کا تاریخی پس منظر" میں لکھتے ہیں۔
" 1920ء میں یہاں کا سیاسی شعور پوری طرح بیدار ہوچکا تھا۔1929ء میں ملک
بھر میں غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا۔ انیس 30-1929 میں بھارت
کی نوجوان سبھا نے ناگرہ ہوٹل کچہری بازار فیصل آباد میں کمرہ کرایہ پڑ لیا
۔یہاں زور دار دھماکہ ہوا اور چھت اڑ گئی ۔۔اسی سال ہندووں نے " انصاف " جو
ڈاکٹر رام لال کی ادارت میں نکلتا تھا کہ مقابلہ میں راقم الحروف نے ٹوبہ
ٹیک سنگھ سے ہفت روزہ "حقانیت" نکالا۔ جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد بند ہو
گیا ۔۔۔1937ء میں کمالیہ سے شروع ہونے والے ہفت روزہ "سعادت " روزانہ اخبار
میں تبدیل کیا گیا اس اخبار کے مدیر اور مالک ناسخ سیفی تھے اور اب یہ فیصل
آباد سے شائع ہو رہا ہے ۔ناسخ کی وفات کے بعد اس اخبار کے ایڈیٹر اختر
سدیدی رہے ہیں ۔۔۔۔ اب یہ اخبار عتیق الرحمان سیفی نکال رہے ہیں ۔۔اس کے
بعد فیصل آباد سے روزنامہ "غریب"، روزنامہ "ڈیلی بزنس رپورٹ"، "اعلان
"،،"عوام"، "تاجر"، "ہمارا پاکستان" اور "دور جدید "کا اجراء ہوا
۔۔۔روزنامہ " غریب " کہ اجرا چودھری ریاست علی آزاد نے کیا جو پہلے ماہنامہ
"پرواز" نکالتے تھے ۔۔۔
قیام پاکستان کے بعد اخبارات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا اور صحافت نے
باقاعدہ صنعت کی حیثیت اختیار کرلی۔۔ ان دنوں فیصل آباد میں روزنامہ
ایکسپریس، روزنامہ غریب ، روزنامہ عوام، روزنامہ امن، روزنامہ پبلک،
روزنامہ نیا اجالا ، روزنامہ شیلٹر ،روزنامہ پیغام ،روزنامہ النقیب ،
روزنامہ ملت ،اور شام کا اخبار" ڈیلی بزنس رپورٹ" علاقائی اخبارات میں بڑی
اہمیت کےحامل ہیں ۔۔۔روزنامہ ایکسپریس تو آپ اس وقت قومی سطح کی اخبار کے
طور پر یہاں سے شائع ہو رہا ہے ۔۔۔۔دراصل فیصل آباد میں صحافت کی تاریخ ایک
صدی پر محیط ہے ۔مختلف اداروں میں یہاں سے نکلنے والے سینکڑوں اخبارات و
رسائل نے یہاں کے علم و ادب تہذیب اور صحافت کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جو اب
تک ایک اہم دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔۔اس شہر کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے اس
سارے صحافتی پس منظر نامہ اور کارکردگی کو دیکھنا ہوگا اس سے اندازہ ہوگا
کہ یہ شہر دنیا میں اس حوالے سے اتنی اہمیت کیوں ہے کہ اس نے ایک صدی میں
آبادی کے اعتبار سے اتنی اہمیت کیوں اختیار کرلی ہے ۔۔جو کسی اور شہر میں
نہیں کی۔واضع رہے کہ کراچی اور لاہور کے بعد آبادی کے اعتبار سے یہ شہر
پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد ہے۔۔۔۔۔ صحافت کے میدان کے خلا کو پر
کرنے کے لئے پاکستان کے دیگر شہروں سے اخبارات و رسائل میں شائع ہونا شروع
ہوئے تو وہاں خلیق قریشی نے 1948ء میں روزنامہ عوام کا ڈکلیریشن حاصل کرکے
میدان صحافت میں ایک قابل قدر اضافہ کیا۔ روزنامہ عوام کچھ عرصہ بھی 20* 30
سائز پر شائع ہوتا رہا ۔پھر اس کا سائز بڑا ہو گیا ۔اس کے چار صفحات تھے۔
کچھ عرصہ 6 صفحات پر بھی شائع ہوا۔روزنامہ " عوام" کو خلیق قریشی نے اپنے
نظریات اور اپنی ذات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔"۔عوام" کے پہلے دس سال میں
اس کی پالیسی واضح اور نمایاں تھی ان دنوں میں یہ مسلم لیگ کا ترجمان رہا
اور مختلف قومی و ملی معاملات اور مسائل پر بے باکی سے اظہار خیال کرتا رہا
۔۔لائل پور کے اخباروں میں عوام کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل رہی ہے کہ اس نے
تمام قومی اور مقامی معاملات پر ہمیشہ بھرپور طریقے سے اظہار کیا ہے
۔۔۔روزنامہ ملت فیصل آباد کو سردار عبد العلیم نےمیں آہنگ اور صحافت کے نئے
طریقوں سے متعارف کرایا سخاوت کے میدان کو اخبارات کی کمی کو پورا کرنے کے
لیے روزنامہ "ملت" نے بہت اہم کردار ادا کیا/ان کے بعد ان کے جانشین صحافی
بیٹے سردار عابد علیم نے اس اخبار کے ذریعے علم و ادب اور صحافت کی ایک
خوبصورت مثال قائم کی ہے ۔۔۔روزنامہ" پیغام "کو سید محمد منیر جیلانی کئی
برسوں سے نہایت خوبصورتی سے شائع کر رہے ہیں ۔۔روزنامہ "لائلپور نیوز" میاں
بشیر احمد اور حمید شاکر جیسے منجھے ہوئے صحافیوں کی بدولت منظر عام پر آ
چکا ہے ۔۔۔۔۔
فیصل آباد سے نکلنے والے خوبصورت تعالی اور اعلی صحافتی اقدار کے حامل اور
کثیرالاشاعت روزنامہ" امن" بھی اپنے سفر پر جاری و ساری ہے۔۔،یقین اخبار
نکالنا اور ناصر نکالنا بلکہ اس کے معیار کو بھی قائم رکھنا ایک مشکل کام
ہیں یہاں ایک نسبتاً چھوٹے شہر میں چھپنے والے قومی روزنامہ کو دیگر بڑے
اخبار کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے وہاں اسے اپنے ہی فیلڈ میں کالی بھیڑ سے
نمٹنا پڑتا ہے۔۔ روزنامہ "امن" کی اشاعت اور خوبصورتی نے اپنے قارئین کی
تعداد کو بہت حد تک بڑھایا ہے ۔۔۔۔اس شہر کے موجودہ منظر نامے میں کئی
اخبارات ہیں جو شہری اور ضلعی سطح پر اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں نبھا رہے
ہیں۔۔جو ملکی سطح پر معروف ہیں اور ان کا دائرہ اشاعت زیادہ وسیع ہے ۔۔ ان
سب کی موجودگی میں ایک نئے اخبار کا اجرا ایک اہمیت آشنا انفرادیت کا اعلان
نامہ ہے ۔۔
فیصل آباد میں کالم نگاری کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم ایک صحافی اظہار یہ ہے ۔۔"کالم "کے معنی لغوی معنی قطار، کھمبا ،ستون،
مینار اور صفحہ کا حصہ ہیں ۔۔انگریزی میں یہ لفظ فوج سے آیا ہے یہاں فوج کے
ایک نظم کے ساتھ کھڑے ہونے یا چلنے کو کالم کہا جاتا ہے۔۔ ڈاکٹر شفیق
جالندھری کا شمار خود بڑے صحافی اور صحافت کے اساتذہ میں ہوتا ہے ۔۔۔وہ
اپنی کتاب "اردو کالم نویسی" میں کالم کی تعریف اور وضاحت انتہائی آسان
الفاظ میں یوں کرتے ہیں ۔
" روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات انسانوں کے غیر متوازن رویوں یا
غیر معتدل بچوں پر کالم نگار ہلکے پھلکے، قدر شگفتہ انداز میں روشنی ڈالتا
ہے اور کہیں کہیں صورتحال کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح کا حربہ استعمال کرتا
ہے ۔۔۔دور حاضر کی اردو صحافت میں خبر ،اداریہ اور فیچر کے ساتھ ساتھ کالم
کو بھی اخبار کی کلیدی ضرورت اور اہمیت حاصل ہے۔دور حاضر کا اخبار کالم کے
بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے ۔۔
کالم کے اسلوب سے متعلق یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کالم مزاحیہ
بھی ہو سکتا ہے اور سنجیدہ بھی ۔۔۔یہ کسی ایک مخصوص موضوع پر بھی ہوسکتا ہے
اور اس میں مختلف اخلاق و آداب اور دوسرے امور پر کسی قسم کی بحث ،دلائل
اور مشورے بھی ہو سکتے ہیں۔۔
یہاں تک کا علم کا تعلق ہے۔ اس کی عمر ایک دن ہوتی ہے۔۔لیکن جن کالموں میں
ادبیت پائی جاتی ہے وہ قاری کو تا دیر مسحور کئے رکھتے ہیں ۔۔دور حاضر میں
کالم کی صنف نے بہت مقبولیت حاصل کی ہے اس کی وجہ ایک وجہ تو اس صنف کا
مزاج ہے جو بے تکلفی سے عبارت ہے اور جس سے اس کی مطالعلگی میں اضافہ ہوتا
ہے ۔۔دوسرا سبب اس صنف کے دامن کی وسعت ہے۔۔جس میں ہر موضوع کو "جائے بیان"
مل جاتی ہے ۔اردو ادب میں مختلف اثرات کا لازوال شاہکار موجود ہیں ۔شاعری
افسانہ نگاری مکتوب نگاری تنقید نگاری وغیرہ کے ذریعے فنکاروں نے اپنے فن
کے جلوے دکھائے ہیں ۔اسی طرح ادب کے افق پر کچھ فنکار ایسے بھی نمودار ہوئے
جنہوں نے کالم نگاری کو مافی
الضمیر کی ادائیگی کا وسیلہ بنایا ۔اور اس کے ذریعہ سماج کے مختلف مسائل
اور ادب کی گوناں گوں جہات پر لکھنے کی روایت قائم کی ۔۔ فیصل آباد اس
حوالے سے بڑا بد قسمت رہا کہ ایوب خان ،ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق نے
یہاں کے مالکان اور کارکنان صحافیوں کو مراعات نہیں مگر تمام مالکان ان
معیاری صحافت کے حوالے سے اپنی کوئی خاص پہچان پیدا نہ کر سکے۔۔
اخبارات میں کالم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ۔۔روزانہ اخبارات میں
سے بہت سے مستقل کالم چھپتے ہیں ۔اور ان کالموں کے قارئین بھی مستقل ہیں
۔۔جو انہیں روزانہ پڑھتے ہیں ۔۔فیصل آباد بھی ایک اہم صحافتی مرکز ہے یہاں
سے شائع ہونے والے اخبارات میں بھی کالم شائع ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔فیصل آباد
سے متعلق کالم نگاروں میں حسن نثار، رفعت سروش ، شبیر احمد قادری ،ریاض
احمد پرواز ، یوسف سپرا ، ڈاکٹر غلام حسین زاہد ،پروفیسرغلام شوق، رانا
طارق سرور، علی اختر ،اعجاز تبسم، ریاض احمد قادری ، رانا ریاض احمد ،احمد
شہباز خاور ، ملک یٰسین ، اظہار احمد گلزار اور اشرف اشعری کے نام نمایاں
ہیں ۔۔
میڈیکل کے شعبہ میں ڈاکٹر شجاع طاہر اور میاں محمد حنیف نے گراں قدر خدمات
سر انجام دی ہے ۔۔ڈاکٹر شجاع طاہر نے اپنے انڈیپنڈنٹ میڈیکل کالج اور میاں
محمد حنیف نے مدینہ یونیورسٹی کے ذریعے وطن عزیز کو ہر سال سینکڑوں کی
تعداد میں کوالیفائید ڈاکٹر مہیا کیے ہیں۔۔یہ دونوں نجی ادارے فیصل آباد
شہر کے وقار اور شناخت کی علامت ہیں ۔۔۔ میڈیکل کے شعبہ میں جن سپیشلسٹ
ڈاکٹروں نے اپنی منفرد پہچان اور شناخت بنائی ۔ان میں ڈاکٹر مہناز روحی ،
ڈاکٹر الطاف بشیر ، ڈاکٹر سعدیہ خان ، ڈاکٹر حمیرا ارشد ،ڈاکٹر شائستہ
ناگرہ ، ڈاکٹر اورنگ زیب خان ،ڈاکٹر محمود علیم ،ڈاکٹر ولی محمد ساغر
،ڈاکٹر طفیل محمد ،ڈاکٹر محمد اشرف ،ڈاکٹر کفایت اللہ سلیمانی ،ڈاکٹر
جانباز احمد ،ڈاکٹر سلطان عبداللہ ،ڈاکٹر نعمان خورشید ، ڈاکٹر ارشد
بشیر،ڈاکٹر اعجاز واہلہ ،ڈاکٹر جمیل رانا ،ڈاکٹر شاہد جمیل ،ڈاکٹر عثمان
انصاری ،ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ،ڈاکٹر اعظم بخاری ،ڈاکٹر خواجہ محمد
انیس ،ڈاکٹر میجر اے رحمان ، ڈاکٹر حسن اختر بخاری ،ڈاکٹر رانا محمد خان ،
ڈاکٹر نسیم مرزا ،ڈاکٹر شوکت محمود ،ڈاکٹر حسن رضوی ، ڈاکٹر صولت نواز،
ڈاکٹر اے - جی ریحان اور دیگر بے شمار ۔۔۔۔
طب کے شعبے میں حکیم دوست محمد اور حکیم مولانا عبدالرحیم اشرف کے نام بہت
نمایاں ہیں ۔۔ خاص طور پر طب کے شعبے میں حکیم مولاناعبدالرحیم اشرف کا نام
سنہری حروف سے لکھنے والا ہے ۔۔مولانا عبدالرحیم اشرف ایک ممتاز عالم دین
ہونے کے علاوہ ایک باریک بین، نبض شناس اور محقق طبیب حاذق بھی تھے۔۔چناچہ
انہوں نے طب یونانی کو جدید تحقیق کی بنیاد پر modemise اور up to date
کرنے کے لیے جامعہ طبیہ اسلامیہ کے قیام کا جامعہ تعلیمات اسلامیہ کی طرح
تن تنہا اہتمام کیا ،جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا بہترین نجی ادارہ ہے
۔ہمدرد فاؤنڈیشن کے ادارہ اور یونیورسٹی کے علاوہ ملک بھر میں اس سطح کا
اور کوئی تحقیقی اور تدریسی ادارہ موجود نہیں ہے ۔جامعہ عربیہ اسلامیہ جو
ایک تدریسی اور تحقیقی ادارہ تھا ، اس کے قیام کے ساتھ ساتھ مولانا حکیم
عبدالرحیم اشرف نے"اشرف لیبارٹریز" کے نام پر جدید خطوط پر ایک دوا ساز
ادارہ بھی قائم کیا ۔جس میں ادویات کی تیاری Sophisticated (جدید ترقی
یافتہ سائنسی)انداز میں مشینی آلات کے ذریعے کی جاتی ہے ۔۔یہی وجہ ہے کہ
اشرف لیبارٹریز بین الاقوامی سطح پر ایک معروف اور اپنی نوعیت کا ممتاز
ادارہ بن چکاہے۔ڈاکٹر زاہد اشرف( تمغہ امتیاز )اس وقت اشرف لیبارٹریز
پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں ۔جو مدیراعلی ماہنامہ "المنبر" مدیراعلی
ماہنامہ" رہنمائے صحت"اور سینئر نائب صدر پاکستان طبی کانفرنس ہیں جو جو
اشرف لیبارٹریز کا انتظام و انصرام بہ احسن چلا رہے ہیں۔۔طب کے شعبہ کے
علاوہ وہ ایک مایہ ناز ادیب اور صاحب کتب طبیب بھی ہیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ
ماہنامہ " صوت الا سلام" (عربی اردو ) اور ماموں کانجن کا تعلیم الا اسلام
" بھی قابل ذکر ہیں ۔۔
حکیم دوست محمّد محلہ سنت پورہ میں 100 سال کی عمر تک اپنا مطب چلاتے رہے
ہیں یہاں قرب و جوار سے آئے ہوئے مریضوں کا ہر وقت ہجوم لگا رہتا تھا۔۔
محلہ گرونانک پورہ میں نامور نبض شناس حکیم فتح محمد سالہا سال تک ایف -
"ایم پیام شفا " کے نام سےاپنا مطب چلاتے رہے ۔۔حکیم فتح محمد بصارت سے
محروم تھے لیکن خدا نے انھیں نبض دیکھ کر خونی رشتوں کا پتہ بتانے کا ملکہ
عطا کر رکھا تھا ۔۔حکیم فتح محمد کئی ایک شاگرد جنہوں نے طب میں اپنا نام
بنایا ۔ان میں ان کے اپنے بیٹے حکیم ثناءاللہ اور حکیم محمد افضل خان کے
نام نمایاں ہیں ۔جنھوں نے سات عشروں تک دیسی جڑی بوٹیوں کے علاج معالجے کے
ذریعے سے ہزاروں لوگوں کو شفا یاب کیا ۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد تاریخ کے قدیم ادوار سے علم و ادب، شعر و سخن ، صنعت و حرفت ، طب
و حکمت اور جذب و سلوک کا مرکز رہا ہے ۔۔
برصغیر کی جدو جہد آزادی میں کئی نامور شخصیات کی کوششیں اور لہو شامل ہے
۔ان ہی ہستیوں میں ایک معروف ترین ہستی بھگت سنگھ ہے۔بھگت سنگھ 28 ستمبر
1907 کو جڑانوالہ کے نواحی گاؤں 105 گ۔ ب بنگیانوالہ میں پیدا ہوا۔ اُس کے
والد کا نام کشن سنگھ جب کہ والدہ کا نام ودیا وتی تھا۔ بھگت سنگھ کو
انقلابی اور ترقی پسند نظریات گویا ورثے میں ملے تھے کیونکہ اُس کا والد
کشن سنگھ اور چاچا تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے اور دادا ارجن سنگھ بھی
بھارت کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے جو ہندو آریا سماج پارٹی کے
رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔۔۔وہ برطانوی راج سے ہندوستان کو آزاد کرانے
کی جدوجہد میں سرگرم عمل تھے ۔۔بھگت سنگھ نے نوجوانوں کے لیے ایک پلیٹ فارم
بنایا جس کا نام نوجوان بھارت سبھا تھا اس پلیٹ فارم کے ذریعے بھگت سنگھ نے
اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انقلاب کے پیغام کو پورے ملک میں پھیلانے کا
کام شروع کر دیا ۔۔آہستہ آہستہ نوجوان بھارت سبھا نوجوانوں میں کافی مقبول
ہو رہی تھی اس خوف سے بھگت سنگھ کو ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کر لیا
گیا۔۔برطانوی راج میں ان پر یہ الزام لگایا کہ بھگت سنگھ نے بھیڑ میں
دھماکہ کیا ہے ۔۔بھگت سنگھ کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گی۔بالآخر 23
سال کی عمر میں وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔۔وہ پوری دنیا سے سرمایہ
دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی لڑ رہا تھا ۔۔ 2019ء میں پنجابی لوک
ورثہ کا ایک وفد الیاس گھمن کی سربراہی میں 105 گ ب بنگیانوالا میں بغل
سنگھ کے نام سے منسوب بھگت سنگھ حویلی دیکھنے کے لئے ان کے گاؤں پہنچے۔اس
حویلی کو وہاں کے ورک برادری نے تزئین و آرائش کرکے ایک بھگت سنگھ کی
تصاویر پر مبنی خوبصورت گیلری اور لائبریری بنا رکھی ہے ۔۔ورک برادری نے
الیاس گھمن کی معیت میں گئے وفد کو شایان شان طریقے سے خوش آمدید کہا ۔۔اور
بھگت سنگھ سے منسوب تمام تصاویر اور کتب کا ذخیرہ بھی دکھایا ۔۔اس وفد میں
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ،ڈاکٹرفیاض مهگیانہ ، جمال شاہد ، احمد حیات خان
بلوچ ،میاں ناصر محمود ، ایکسین فیسکو نوید احمد کے علاوہ دیگر بہت سے
افراد شامل تھے۔۔
1857ء کی جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل شہید کا تعلق بھی فیصل آباد
سے ہے
رائے احمد خاں کھرل (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں نیلی
بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ
بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ [1] 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے
فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد
خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے
شہید ہو گئے ۔

تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ
رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو
کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے
ڈالی۔
رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے
سے تھا وہ یہاں 1803ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری
ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں جب دلی میں قتل و غارت کی گئی
اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک
اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا
اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ
کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر
برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان کھرل نے راوی پار
جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے
لیے تیار کر لیا ،چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد
خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور
تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود
قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے
گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان
گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا
چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ،
عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ
کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے
گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ ، جاٹوں
اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ
دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا
گیا۔ اس دوران میں رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی
منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا
سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی
کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے
خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔
برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا
تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران میں حفاظتی
تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت
میں منتقل کر دیے گئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر
لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں
بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج
کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھاؤنی کی طرف جا رہا تھا کہ
احمد خاں کھرل کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا
تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے
ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو
اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں
ملتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنجابی لوک ورثہ کا ایک وفد 2019ء میں چیئرمین پنجابی ورثہ
الیاس گھمن کی معیت میں رائے احمد خان کھرل شہید کے مزار پر سلامی دینے کے
لئے پہنچا ۔۔۔۔اس وفد میں ان کے ہمراہ پنجابی سٹوڈنٹ فیڈریشن ، انٹرنیشنل
پنجابی سٹوڈنٹ فیڈریشن ،اور لوک ورثہ کے تمام اراکین شامل تھے ۔جن میں
ممتاز سکالر ڈاکٹر ادریس رانا ، مقبول چوہدری ، ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ،
میاں ناصر محمود ، محمد نواز منہاس ،اظہر جاوید شامل تھے ۔
سائنس کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت اختیار کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر سعید
اختر دُرّانی اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی فیصل آباد ضلع میں پیدا ہوئے۔
سائنسی خدمات کے صِلے میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ یہاں کے ایک اور
سائنسدان ڈاکٹر ایم اے عظیم ہیں۔آرٹسٹ ضیاء محی الدین، گلوکار مرحوم نصرت
فتح علی خاں، راحت فتح علی خاں اور فلمی اداکارہ ریشم کا تعلق بھی فیصل
آباد سے ہے۔ مرحوم نصرت فتح علی خاں قوال اور مہر علی، شیر علی قوال نے
قوالی اور مخصوص گائیگی میں منفرد مقام حاصل کیا اور بین الاقوامی شہرت
حاصل کی۔۔۔۔
اسلامی صحافت میں "ہفت روزہ المنبر"، ماہنامہ "صوت الاسلام "(عربی ،اردو )
اور ماموں کانجن کا تعلیم الا سلام اس وجہ سے قابل ذکر ہیں ۔۔شہر لائل پور
سے فیصل آباد موسوم ہونے تک کئی مراحل طے کیے اور اس کی حدود گھنٹہ گھر سے
ان اضلاع شیخوپورہ سے شاہ کوٹ اور ضلع جھنگ سے کوٹ ادو سی ہو گئی ہے ۔۔۔۔
سائنس کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت اختیار کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر سعید
اختر دُرّانی اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی فیصل آباد ضلع میں پیدا ہوئے۔
سائنسی خدمات کے صِلے میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ یہاں کے ایک اور
سائنسدانv ڈاکٹر ایم اے عظیم ہیں۔آرٹسٹ ضیاء محی الدین، گلوکار مرحوم نصرت
فتح علی خاں، راحت فتح علی خاں اور فلمی اداکارہ ریشم کا تعلق بھی فیصل
آباد سے ہے۔ مرحوم نصرت فتح علی خاں قوال اور مہر علی، شیر علی قوال نے
قوالی اور مخصوص گائیگی میں منفرد مقام حاصل کیا اور بین الاقوامی شہرت
حاصل کی۔۔۔
تحقیق ؤ تدوین : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
فیصل آباد ۔۔ پاکستان
|