تحریر: ایم خالد میاں
اقبال گھر سے آفس کے لیے نکلا اور رکشہ اسٹینڈ پر پہنچا، اس نے وہاں خلاف
توقع ایک خاتون رکشہ ڈرائیور کو بھی پایا۔ ہمارا سماج کتنا بے حس ہوگیا ہے،
کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ، کوئی احساس ہمدردی نہیں رہا۔ بیگا نوں سے کیا
شکوہ اپنے ہی جب پرائے بن جائیں۔ اف میرے خدایا! اقبال کا دل یہ منظر دیکھ
کر خون کے آنسو رونے لگا۔ اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ اسی رکشہ میں
بیٹھے گا۔
مجھے آفس جانا ہے، اقبال ہچکچاتے ہوئے کہا۔ کیوں نہیں صاحب، بیٹھیے میمونہ
نے کسی تجربہ کار ڈرائیور کی طرح کہا۔ تم کب سے رکشہ چلا رہی ہو ؟ اقبال نے
میمونہ سے سوال کیا۔ بس صاحب! کیا بتائیں، مجبوری کا نام شکریہ۔ میمونہ نے
سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔
پھر بھی ایسی کیا مجبوری آن پڑی تم پر ،تم اگر مجھے بتادو تو ہوسکتا ہے میں
تمہاری کوئی مدد کرسکوں، اقبال نے اس کی مجبوری جاننے کی کوشش کی۔ نہیں
صاحب کچھ نہیں، نصیب کی بات ہے ۔
میمونہ کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا، والد اسکول ماسٹر تھے۔ ان کی گاؤں
میں زمینیں بھی تھیں، جس کی سالانہ آمدن ملتی تھی، والد کے انتقال کے بعد
بھائیوں نے ساری جائیداد برابر تقسیم کرلی ،لیکن اپنی اکلوتی بہن کو ایک
پھوٹی کوڑی بھی نہ دی چونکہ میمونہ نے پسند کی شادی کی تھی جو اس کے
بھائیوں کی مرضی کے خلاف تھا۔ اس کا شوہر ایک کار ڈرائیور تھا، جس سے اس کے
دو بچے تھے ۔ گھر کرائے کا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد اہل محلہ نے کچھ وقت
مدد تو کی لیکن آخر کب تک ، بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر آخر کب تک ماں
کی ممتا خاموش رہتی ، بل آخر حالات کے ہاتوں مجبور ہوکر میمونہ نے فیصلہ
کیا کہ وہ اپنا زیور بیچ کر رکشہ لے اور اپنا سہارہ خود بنے۔
لو صاحب آپ کا آفس آگیا ، میمونہ نے کہا۔ یہ تمہارا کرایہ ۔ اقبال نے کرایہ
دیتے ہوئے کہا۔ اقبال ایک نجی کمپنی میں کلرک تھا ، ملنسار نرم مزاج ہونے
کی وجہ سے سب لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ ہر دلعزیز اقبال آج انتہائی دکھی تھا
، معاشرے کی بے حسی پر شکوہ کنعاں تھا۔ آج کے واقعے نے اسے جھنجوڑ کر رکھ
دیا تھا ، آج وہ روزانہ کی طرح آفس کی کرسی پر تو بیٹھا تھا لیکن اس کا
دماغ کہیں اور تھا ، اس کا دل رو رہا تھا، رہ رہ کر اسے یہ خیال ستا رہا
تھا کہ ایک عورت بغیر کسی سہارے کے کیسی زندگی گزار رہی ہوگی۔ ابھی وہ ان
ہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے خیال آیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے منیجر سے بات
کرے۔ کیا میں اندر آسکتا ہوں ، اقبال نے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ سر آپ
سے ایک بات کرنی تھی۔ جی کہے۔
اقبال نے پوری روداد اپنے مینیجر کو بتا دی ، جو آج اس کے ساتھ پیش آئی تھی۔
میں اس بارے کچھ کرسکتا تو یقینا کرتا لیکن معذرت ۔ منیجر کے معذرت خواہانہ
جواب نے اسے مایوس سا کردیا لیکن اقبال خوش مزاج ہونے کے ساتھ بلند ہمت بھی
تھا ۔ اس نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اس رکشہ ڈرائیور خاتون کی ضرور مدد
کرے گا ۔ اس بارے مختلف لوگ اس کے ذہن میں آنے لگے، جو اس معاملے میں اس کی
کچھ امداد کرسکتے تھے۔ شام کو آفس سے واپسی پر اس نے اول اپنے دوستوں سے
بات کرنے کا پروگرام بنایا، روزانہ اقبال اور اس کے دوست کچھ وقت گپ شپ کے
لیے اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ ارے اقبال! آج تو تم جلدی آگے ماجد نے مصافحہ کرتے
ہوئے کہا۔
ہاں یار آج آپ دوستوں سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اور اقبال نے پوری بات اپنے
دوستوں کو بتائی، ان سے مدد کی درخواست کی۔ ماجد نے کافی سوچ بچار کے بعد
ایک ترکیب تمام دوستوں کے سامنے پیش کی ،وہ یہ کہ تمام دوست اپنی ماہانہ
آمدن سے کچھ حصہ ہر ماہ الگ کرلیا کریں گے ، جو رقم جمع ہو گی اسے اس بیوہ
کی امداد کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کو
بھی شامل کرلیا جائے گا۔ ماجد کی یہ ترکیب سن کر اقبال بہت خوش ہو ا اور
اسنے سب سے پہلے پیسے نکال کر ماجد کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ اس طرح جو رقم جمع
ہوئی وہ اقبال نے میمونہ کو دے دی۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہی لیکن اقبال
کے یقین دلانے اور سمجھانے پر کہ وہ بغیر کسی لالچ اس کی مدد کرہا ہے، اس
نے وہ رقم لے لی اور اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گے۔، شاید وہ شکریہ کے
الفاظ ادا کرنا چاہتی تھی جو آنسو کی شکل اختیا کرگے۔اب اقبال اور کے
دوستوں کا ہر ماہ معمول تھا کہ وہ رقم اکٹھے کرتے اور میمونہ کو دے دیتے۔
|