غارِ حرا کے ایک تنگ و تاریک گوشے سے ابھرنے، چمکنے اور
ہر سو پھیل جانے والی الہامی روشنی کا سفرِ ہدایت ایک تسلسل سے جاری ہے۔ (ہاں
مگر چراغِ مصطفوی سے اشرارِ بولہبی ٹکراتے ضرور رہتے ہیں آج بھی یہ فتنہ
امریکہ اور اسکے حواریوں کے روپ میں عالمِ اسلام کے در پے ہے )۔زمان و مکان
کی قید سے آزاد ،اس نور کی ضیا پاشیوں نے تب سے اب تک ایک عالم کو اپنے
حلقہء نور میں محصورو مسحور کر رکھا ہے ۔یہی وہ نو ر ہے جو لوحِ تاریخِ
انسانی کے قلم کی فقط روشنائی ہی نہیں نورِ بصیرت بھی ہے۔ وہی تاریخ جس کی
حیثیت انسانیت کے ضمیرکی سی ہے ۔ضمیر انسانی کی طرح اس منصف نے بھی کبھی
رشوت قبول کی ہے اور نہ کہیں عدل وانصاف کاخون ہونے دیا ہے ۔لغوی اعتبار سے
مؤنث کہی جانے والے اس مجاہدنے اپنی جراتِ رندانہ سے افضل ترین جہاد کا
فریضہ سر انجا م دیتے ہوئے، ہرعہد کے ایک ایک جابر شخص کے چہرے پر پڑی مکر
وفریب کی نقاب الٹ کرجواں مردوں تک کو پچھاڑ ڈالا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مورخ
کا قلم خرید کر اپنی اپنی جیبوں میں لئے پھرنے والے بادشاہانِ وقت تاریخ کو
کبھی اپنی باندی اور کنیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور ہو بھی کیسے
پائیں گے کہ اسے ہرعہد میں ”ناٹ فار سیل ”رہنا ہے (ہر چیز ِ بازا ری ہوتی
ہے نہ بکاؤ،ہاں خریدار کی نظریں ہر چیز کو ایک جیسی نظروں سے دیکھتی ضرور
ہیں )۔
واقعات ہمیشہ تاریخ کی راہ تکتے ہیں لیکن یہ نور ایک ایسا معجزہ کہ تاریخ
کو ہم نے سدا اسکی تلاش میں سرگرداں پایاہے۔تاریخ آج بھی اپنا اثبات اسی
نورِ محمدی سے پاتی ہوئی ماضی میں اپنا سفر جاری رکھتی ہے ۔ایک ایسا سفر جس
میں شمع ِرسالت کے پروانے بھی اس کے پیچھے پیچھے محوِ سفر رہتے ہیں۔اپنے
حال اور حالات سے دامن بچاتے ہوئے میں نے بھی چشمِ تصور سے تاریخ کو اپنے
اثبات کے لئے پھر سے آمادہ سفر دیکھا تو اس کے پیچھے ہو لیا ۔میں نے غار ِ
حراسے پھوٹتی روشنی رفتہ رفتہ آگے بڑھتی دیکھی۔ جہاں نور کے پروانے طوافِ
نور کو آگے بڑھے، وہیں ظلمت بھی آگے آئی کہ وہ تو سدا سے ہی نور کے درپے
آزار رہی ہے۔نورِ محمدی چمکا اور خوب چمکا۔۔۔اتنا کہ شمس و قمراس کے آگے
پانی بھرتے دکھائی دیئے ۔ یہ شمع جلتی اور ظلمت کے اندھیروں کا سینہ جلاتی
رہی۔نورِ خد اکو بھی کبھی کوئی بجھا پایا ہے ؟سو پھونکوں سے یہ چراغ بجھ
نہیںاور بھڑکا۔۔۔اور سدا کفر و شرک کی حرکتوں پہ خنداں زن رہا ۔اور ایسا
کیوں نہ ہوتا کہ خدا کی روشن کردہ شمع کبھی کسی نے بجھتے نہیں دیکھی؟ ۔۔۔روشنی
کا سفر کبھی نہیں تھمتا کہ ازل سے اس کے مقدرمیں ہر اس جگہ پہنچنا لکھ دیا
گیا ہے جہاں ظلمت نے اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہوں ۔یہ وہ کنول کا پھول ہے جو
کیچڑ پہ بھی کھلے تو ایک عالم کو معطر کئے بنا نہیں رہتا (علم کا منتہا
جاننا ہے توعرفان کا پہنچنا اور یہ نور تو عرفانی ہی نہیں آفاقی بھی ہے )سائنس
روشنی کو توانائی کی ایک قسم قرار دیتی ہے کہ جسے فنا نہیں کیا جا
سکتا۔مخرج مضبوط تو رخ تک موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔جبھی توسورج کے راستے میں
کوئی دیوار کبھی کھڑی نہیں کی جا سکی ۔اور یہ توالہامی روشنی تھی (اور
ہے)سو طاغوت کے اندھیرے خود نیستی میں بدلتے گئے اور یہ سفرجاری رہا۔تمام
تر رکاوٹیں گرہن کی طرح آئیں اور خود کو گرہن سے نہ بچا پائیں۔نور کے پائے
استقلال میںہلکی سی بھی جنبش نہ آئی کہ یہ تو شک کی علامت ہوا کرتی ہے اور
مقام ِحق الیقین پر توپلٹ کر دیکھنا تک روا نہیں ہوتا۔
( آگہی کی منزل سے لوٹ جائیں ہم کیسے ؟ اس جگہ نہیں جائز دیکھنا پلٹ کربھی
)۔۔۔۔۔اور پھریہ تاریخی جملے زبانِ اطہر سے یوں ادا ہوئے کہ تاریخ کا
سنگھاربن گئے”اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ
دیا جائے تب بھی تائید و تبلیغِ حق سے باز نہ آؤں گا”۔ جب دھونس، دھمکی،
لالچ، حتی کہ معاشی مقاطعہ تک ناکام و نامراد ٹھہرا تو اس پر وطن کی سرزمین
تنگ کر دی گئی جسے بڑے فخر سے صادق وامین کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے (کیا
قیامت تھی کہ جس کے لئے پورے کرہ ارضی کو قابلِ سجدہ بنا دیا گیا تھا اسی
کے ایک مختصر سے حصہ پر رہنا تک ممنوع قرار دے دیا گیا تھا) اپنا وطن اس
حالت میں چھوڑا کہ روح میںغم کی فضا طاری تھی اورآپ انکے درمیان سے نور کے
ایک ہالے کی صورت یوںرخصت ہوئے کہ بے نور آنکھیںانہیں جاتا دیکھ ہی نہ
پائیں ۔آنکھ میں حیا نہ ہو تو بصارت باقی رہتی ہے نہ بصیرت ۔سچ ہے آنکھوں
پر کپڑا ڈال دیا جائے تو سورج جیسی روشن ترین حقیقت بھی نظروں سے اوجھل ہو
جاتی ہے۔مدینہ میں انصار نے دل و نگاہ فرشِ راہ کئے اور مہاجرین کو سر
آنکھوں پر بٹھایا تو وطن سے جدائی کا درد کچھ کم ہوااور کسی قدر اطمینان
بھی جسے دیکھ کر نور کے ازلی دشمن انگاروں پر لوٹنے لگے۔
پھر یہ دشمنی، تعصب اور خبثِ باطن ایک کے بعد ایک جنگ کی صورت میں تاریخ کے
اجلے دامن کو داغ داراور خون آلود کرتا چلا گیا۔ساتھ ہی ساتھ یہ معجزہ بھی
ہوا کہ طاغوت کے عزائم حرف ِ غلط کی طرح نابود ہوتے چلے گئے ۔اسی دوران
تاریخ نے ایک اور منظر بھی اپنی یاداشت میں یوں محفوظ کیا کہ آج بھی جسکی
یاد مومنوںکے قلب کو متغیراورآنکھوں کو پرنم کر دیا کرتی ہے۔ایک نورِ مجسم
نے ایک نوزائیدہ نور کو ہاتھوں پہ پہلی بار لیا تو نور کی آنکھوں سے نمکین
پانی رواں تھا۔خاتونِ جنت متعجب ہیں ”بابا!خوشی کے اس موقع پر آپکی آنکھ
میں آنسو”؟۔۔۔فرمایا”بیٹی ،کربلا کے میدان میں اسکی شہادت رلا رہی ہے”۔یہ
دراصل اس خواب کی تفسیرتھی جس میں آپکا دکھا دیا گیا تھا کہ منبرِ نبوی پر
بندر ناچ رہے ہیں۔۔ اور پھرجب بیرونی دشمن ناکا م و نامراد ٹھہرے تو دشمنانِ
اسلام ”ابن ابی ”کے سیاسی وارثین کے ذریعے اسلام کو گھر کے اندر سے نقصان
پہنچانے کے درپے ہوئے۔یہ ایک کاری وار تھا اور اوچھا بھی۔ پھرناقابل ِ فہم
اتناکہ اسے محض نورانی گھرانا ہی ایک فرد سمجھ پایا۔
ہاں وہی نورانی وجود کہ جسے گرتا دیکھ کر نورِ مجسم سے منبر چھوٹ جایا کرتا
تھا،کندھے پر سوار ہوتا تو نماز” حالتِ قیام ”میں آجاتی جو مہرِ نبوت پہ
سوار ہوتا تو رسالت مآب فخر سے کہہ اٹھتے ”سوار ی نہیں سوار کی شان پر ذرا
نظر تو کرو”،ہاں وہی حسین کہ جس کی خوشبو اپنے نانا کو جنت کی یاد بھی
دلاتی تھی اور تسلی بھی،وہی جو باغِ رسالت کاپھول ہی نہیں تھا جنت کا سردار
بھی ہے۔۔اورجب بندر کو ساتھ ساتھ لئے پھرنے والا منبرِ رسالت پر قابض ہواتو
خاندانِ نورکے سربراہ نے اپنی تمام تر” کرنوں” کو سمیٹا اور اس سرزمین کی
جانب بڑھا کہ جسکا نام ہی حالات کی سنگینی آشکار کر دیا کرتا ہے ۔روکنے
والوں کا خلوص اپنی جگہ اور اس کا الہی مشن اپنی جگہ۔سمجھانے والے جان ہی
نہ پائے کہ اسلا م کو اس سے بڑا خطرہ آج تک پیش نہیں آیا ۔منافقت ہی تو
دراصل فتنہ اکبر ہے جو طاغوت کا سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتا ہے ۔امام جانتے
تھے کہ رعایا بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے سو آپ نے میدانِ عمل میں اترنے
میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں کی ۔
اگر جسم فنا کے لئے ہوتا ہے تو راہِ میںفنا ہونے سے بڑھ کر اور کیا سعادت
ہوگی۔ آپ نے اپنے اس قول کو حرف بہ حرف سچ ثابت کیا ۔یقیناًدل مقتل میں ہو
توپھرسر کی پرواہ کرنے والا سردار کہلانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ تو صرف
سردار نہ تھا” شاہ ”تھایعنی عالم کا بادشاہ۔دین و دنیا کا سربراہ ۔عرض کر
چکا کہ جہاں ظلمت ہوگی وہاں نور کی ضرورت اتنی ہی شدید ہوگی اور سنتِ الہی
ہے کہ وہ مخلوق کو بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ سو طاغوت کے مقابلے میں
نورکواترنا ہی تھا سووہ اترااور اس شان سے اتراکہ جان تو گئی شان سلامت رہی
اورحیات ِابدی کا بھید دنیا پر پوری طرح روشن ہوگیا۔ شہ رگ نے ظلمت کے خنجر
کا سر قلم کر دیااوریوں طاغوت کو سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈے نہ ملی ۔بیعت کا
سوال اس شدت سے رد ہواکہ تاریخ کسی ایک آدمی کا نام بھی بیان نہ کر پائی جس
نے پھر کبھی کسی سے بیعت کا محض نام لینے کی بھی جرات کی ہو۔ ملو کیت
سرنگوں بھی ہوئی اور بے نقاب بھی ۔آج جب میں اپنے اردگردایک بھی حسین نہیں
پاتااور”جگہ جگہ ہے بپا۔۔کربلا کربلا ”کی کیفیت دیکھتا ہوں تو پھر سے اسے
پکارنے کو دل مچلتا ہے جس کی صدا”ا ھل من ناصر”انسانی ضمیروں کو ہر لحظہ
جھنجھوڑتی رہتی ہے ۔ لیکن میں مخمصے میں پڑ جاتا ہوں کہ کروں تو کیا کروں ۔نہیں
پکارتا تو شامی ٹھہرتا ہوں اور پکارتا ہوں تو کوفی بن جانے کا خطرہ زبان پہ
خاموشی کی مہر لگا دیتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ میرا حسین اس کربلا میں ابھی
نہیں پہنچا اور یہ بھی مانتا ہوں کہ اسے آناضرور ہے کہ جہاں ظلمت ہو وہاں
نور کو اترنا ہی ہوتا ہے چاہے لوگوں کی تلواریںساتھ نہ ہوں صرف دل ساتھ ہوں
۔ خدا لگتی کہوں گا کہ میں یہ دعوی کر ہی نہیں پاتا’ میں حر ہوں اور ابھی
لشکرِ یزید میںہوں۔
|