اسلام میں مساجد کی اہمیت صرف نمازوں کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیام مساجد کا ایک سماجی ،ثقافتی اور سیاسی پہلو بھی ہے مگر افسوس ہم نے مساجد کو صرف پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی کے لئے مخصوص کردیا اور مساجد کے بنیادی مقاصد اور آفاقی فلسفے سے آنکھیں موند لیں۔مسلمانان عالم نے تمام مقاصد کو پس پشت ڈال کر مسجدوں کو فقط ’اللہ ہو ‘ کی جلوہ گاہ بنا دیا کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کو ایک محدود زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ،مسجد کے لئے جو احکامات مختص کئے انکا تعلق بھی قرآن سے ہے جیسے سورۂ جن میں ارشاد ہوا ’’ و ان المٰسجد للہ فلا تد عو ا مع اللہ احداََ‘‘ ’’ اور یہ کہ مسجد صرف اللہ کے لئے ہے اور اسکے ساتھ کسی اور کو مت پکارو‘‘ مسلمان نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ مسجد میں غیر خدا کاذکر حرام ہے (یقینا مسجد صرف خدا کے لئے ہے) مگر کیا مسجد صرف اس لئے ہے کہ شب و روز ہاتھ میں تسبیح لیکر’’ اللہ ہو‘‘ کا راگ الا پا جائے ۔ اس آیت کا مفہوم یہ قطعی نہیں ہے کیونکہ رسول خدا نے مسجد کو مختلف امور کے لئے استعمال کیا تھا ۔حضور ؐمسجد میں ہر وقت نماز میں ہی مشغول نہیں رہتے تھے بلکہ آمادگیٔ جنگ سے لیکر علمی امور تک انجام دیتے تھے ۔رہبانی نظام کے پرستاروں نے یہ سمجھا کہ مسجد کو صرف نمازوں اور اللہ اللہ سے مخصوص کردو تاکہ کوئی بنیاد کام انجا نہ پاسکے اس طرح کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسجدوں کی آفاقیت کو بھی ختم کردیا جائے۔جس طرح اسلام کے بنیادی فلسفے کو ہم صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں قرآن اور تعلیمات رسول کے مطالعہ کے بعد یہ سر اغ نہیں ملتا کہ اسلام اور اسلامی آئین کا سرچشمہ قرآن کریم صرف مسلمانوں سے مخصوص ہو بلکہ تعلیمات قرآن اور رسول کے کردار کی آفاقیت کی بنیاد پر ہی غیر مسلموں کے ذہنوں میں انقلابات رونما ہوئے ہیں اور ایک عالم پر اسلامی اصولوں کی آفاقیت کی حکمرانی رہی ہے ۔
آج بھی کثرت کے ساتھ لوگ اسلامی آئین کی برتری تسلم کرتے ہوئے مسلمان ہورہے ہیں تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں تعلیمات قرآن اور سنت رسول میں جو اسوۂ حسنہ موجود ہے وہ صرف مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے ہے؟ در اصل کم فہم مسلمانوں نے اسلامی عبادت گاہوں کو فقط اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا یا زیادہ سے زیادہ نماز پڑھنے سے مخصوص کردیاتاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرسکیں؟کیا مسلمانوں کے مسائل صرف نماز کی ادائیگی سے حل ہوسکتے ہیں یا مساجد کے سلسلے میں یہی سنت نبوی رہی ہے آیا اس سلسلے میں کبھی ہم نے غورو خوض کیا ؟عہد رسول میں مساجد جن امور کے لئے استعمال ہوتی تھیں انکو ہم اس طرح شمار کرسکتے ہیں جیسے مسجد محراب عبادت تھی ،دانش گاہ علمی تھی ،مرکز اخوت و صداقت تھی ،آمادگیٔ جنگ کا مرکز تھی ،مرکز عدالت تھی،غیر مسلموں کو درس اسلام دینے کے لئے لائحۂ عمل ترتیب دینے اور مرکز اطلاعات و رابطہ عامہ کی جگہ تھی ۔آیا ہم نے مساجد کو انہی مقاصد کے حصول کے لئے استعما ل کیا یا کسی ایک مقصد کے لئے مخصوص کرکے باقی ماندہ مقاصد سے صرف نظر کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی ہے ۔
مسلمانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام مذہبی فعالیت کو ایک محدود دائرے میں قید کرلیا اس طرح جہاں مذہب اسلام کی آفاقیت مجروح ہوئی وہیں مسلمانوں کی ذہنیت بھی ایک پرکار پر گردش کرتی رہی اور انکے افکار و خیالات کی تنگ نظری کی بنیاد پر دقیانوسیت کے الزمات عائد کئے جاتے رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دیگر مذاہب عالم کی نگاہوں میں ہیچ اور ہمارا فلسفۂ اسلام محدود طرز فکر کا متحمل سمجھا گیا۔مسجد کے قیام کے فلسفہ کو بھی ہم نے صرف پانچ اوقات کی نمازوں تک محدود رکھا یعنی مسجد صرف نماز پڑھنے کے لئے ہوتی ہے ۔یہ ذہنیت در اصل صدر اسلام کی ذہنیت سے بالکل مختلف ہے ۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انکشاف ہوتاہے کہ رسول اسلام مسجد میں سماجی ،ثقافتی ،تعمیری ،تہذیبی امور کے ساتھ جنگی معاملات پر بھی تبادلۂ خیال کر تے ہیں بلکہ دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کی پوری تیاریوں کا مرکز و محور مسجد ہی ہوتی تھی ۔مساجد کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھیں اور چونکہ نماز کے وقت تمام مسلمان یکجا ہوتے ہیں لہذا اس طرح سب ایک دوسرے کے مسائل اور حالات سے بھی واقف کار رہیں نیز ملکی و ملی در پیش مسائل کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔اس طرح وہ نمازی جو خود کفیل ہے یا کسی ایسے منصب پر فائز ہے جہاں رہکر وہ برادر مومن کی مدد کرسکتاہے وہ اپنے فرائض کی تکمیل کرے ۔یعنی مساجد میں آنے کا ایک مقصد رابطۂ عامہ (comunication ) بھی ہے ۔اور وہ مسلمان جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورتوں اور پریشانیوں کودور کرنے کی فکر نہ کرے وہ در اصل مسلمان ہی نہیں ہے ۔ دردِ قوم اور دردِملت کے ساتھ ہی عبادت قابل قبول ہوتی ہے ۔امیر المومنین فرماتے ہیں ’’ مسجد میں بیٹھنا میرے لئے زیادہ بہتر ہے جنت میں بیٹھنے سے کیونکہ جنت میں بیٹھنے میں میرے نفس کی خوشی شامل ہے جبکہ مسجد میں بیٹھنے میں میرے رب کی خوشی ہے ‘‘۔یہ رب کی خوشی صرف مسجد میں نمازوں سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ امت مسلمہ کے مسائل پر غوروخوض بھی ضروری ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اسلام نے اس شخص کی نماز کی مذمت کی ہے جو اختیاری صورت میں مسجد میں نہ جاکر گھر میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہو ۔اس لئے کہ مسجد میں نہ جانے کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے ساتھ ملکی ،ملی و دیگرعالمی سیاسی منظر نامے سے ناواقف رہ جائیگا ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کی بنیاد پر اور مسجد میں نہ جانا اسکے تکبر کی علامت بھی ہوسکتی ہے کہ آخر میں ایسے ویسے لوگوں کے ساتھ جماعت میں کیسے شریک ہوسکتاہوں کیونکہ نماز کی صفوں میں ذات پات اور اونچ نیچ کی تمام خود ساختہ دیواریں منہدم ہوجاتی ہیں۔
|