بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*از قلم ۔* *مفتی عبد المقتدر خان جالوی*
*سجادہ نشین*۔خانقاہ قادریہ اسحاقیہ ضیائیہ و بانی و مہتمم دارالعلوم ضیائے
مصطفیٰ جالے دربھنگہ بہار ______________
28 / صفر المظفر 1362ھ مطابق 5 / مارچ 1943ء جمعہ کی شب اپنے نانیہال
بھبنگاواں میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی
آپ کا مبارک نام محمد جیش صدیقی ہے _ پیر و مرشد کا دیا ہوا نام جیش محمد
ہے _ اور حج کے معلم آپ کو محمد جیش محمد کہتے تھے _
آپ کے والد گرامی الحاج شیخ محمد جاشم علی اور جد امجد الحاج محمد اصغر علی
ہیں _ جب آپ چار سال چار ماہ چار دن کے ہوئے تو عم محترم مولیٰنا محمد
جمشید علی صاحب نے رسم بسم اللہ خوانی ادا کرائی _ اس مبارک موقعہ پر لہنہ
اور دیار و امصار کے کثیر مسلمانوں نے شرکت کی _ والدین کریمین اور عم
محترم نے آنے والے تمام لوگوں کی ضیافت کی اور غرباء و یتامیٰ اور نادار و
مساکین پر بے دریغ خرچ کیا _ پھر گھر والوں کی نگرانی میں لہنہ کے ایک مکتب
میں آپ نے اردو، ہندی، انگریزی، فارسی اور ناظرہ پڑھا نیز پندرہ پارے زبانی
یاد بھی کر لئیے _ پھر علمی تشنگی بجھانے کے لیئے آپ کنہواں ، سیتا مڑھی
بہار بھارت پہونچے تو پہلے حفظ مکمل کیا_
اس کے بعد جماعت اولیٰ کی کتابیں پڑھکے آپ مدرسہ علیمیہ دامودر پور مظفر
پور تشریف لیگئے _ اور جماعت ثانیہ سے لیکر خامسہ تک کی کتابیں پڑھکے بریلی
شریف کے لئے روانہ ہوگئے _اور مرکز اہلسنت جامعہ رضویہ منظر اسلام میں
سادسہ کی کتابیں پڑھیں بعدہ حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی دعاؤں کے
سایہ میں الجامعۃالاشرفیہ مبارک پور کیلئے رخت سفر باندھا وہاں جماعت سابعہ
سے لیکر بخاری شریف تک کی ساری کتابیں پڑھکر 10/ شعبان المعظم 1386ھ میں آپ
نے دستار فضیلت حاصل کی۔ آپ کے چالیس ساتھیوں میں سب سے پہلےآپ کی دستار
ہوئی۔ کیونکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ آپ مقدمۃ الجیش
ہیں اس لئیے آپ ہی سب سے پہلے آئیۓ دستار فضیلت حاصل کرلینے کے بعد آپ نے
اپنے اساتذہ و مشائخ کی قدمبوسی کی پھر مبارک پور کی مسجد میں جاکر سجدۂ
شکر ادا کیا کہ مولیٰ تونے خوب خوب عزت و توقیر بخشی۔ ابھی آپ مبارک پور ہی
میں تھے کہ مظفر پور والوں نے پیشکش کی جسے آپ نے قبول فرمالیا اور مدرسہ
علیمیہ دامودر پور مظفر پور میں صدر مدرس رہکر ایک سال تک آپ نے بخاری شریف
مسلم شریف اور بیضاوی شریف جیسی اہم کتابوں کو پڑھایا ۔ جب تعطیل کلاں میں
اپنے گاؤں لہنہ پہنچے تو جنکپور والوں نے وفد کی شکل میں آکر جنکپور رہنے
کیلئے آپ کو مجبور کیا تو انکی درخواست کو منظور کرتے ہوئے 23/ شعبان
المعظم 1387ھ بروز پنجشنبہ بوقت مغرب آپ جنکپور پہونچ گئے۔ مدرسہ کا نام
مدرسہ اصلاح المسلمین تھا آپ نے اسکا نام بدل کر دارالعلوم حنفیہ رکھدیا ۔
اس وقت جنکپور شہر اور اس کے مضافات پر سلفیوں کا تسلط تھا۔ لہذا اسکی کاٹ
کے لئے رمضان شریف کے پوسٹر کی پیشانی پر آپ نے علامہ عبدالرحمن جامی علیہ
الرحمہ کا یہ شعر لکھوا دیا
مذہب حنفیہ دارم ملت حضرت خلیل
خاک پائے غوث اعظم زیر سایہ ہر ولی
اب حضور غوث اعظم اور دیگر اولیائے کرام کے فیض و کرم کا بادل برسنے لگا ،
ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور دارالعلوم حنفیہ میں 9/ مدرسین کی نگرانی
میں دو سو طلبہ تعلیم حاصل کرنے لگے ۔ جگہ کم تھی اسلئیے زمین خریدی گئی ۔
صرف ایک ہال تھا وہ بھی مخدوش لہذا فلک بوس عمارت بنوائی گئی ۔ اب یہاں
عصری تعلیم بھی ہونے لگی اردو ناظرہ حفظ و قرأت اور جماعت اولیٰ سے لیکر
بخاری شریف تک کا درس بھی دیا جانے لگا ۔ پھر 1408ھ میں حضور احسن العلماء
علیہ الرحمہ نے فتاویٰ برکات کی جلد اول پر تقریظ تحریر کی تو دارالعلوم کی
جگہ جامعہ اور حنفیہ کے بعد الغوثیہ لکھدیا تاکہ مذہب کے ساتھ ساتھ مشرب کا
بھی اعلان ہوتا رہے۔ 1394ھ ربیع الاول شریف کے مہینے میں 20/21/22/ تاریخ
کو آپ نے ایک عظیم الشان جلسہ کرایا۔ جسمیں ہند و نیپال کے علماء، مشائخ ،
صوفیاء، شعراء اور دانشوران قوم و ملت لاکھوں کی تعداد میں تشریف لائے۔
اتنے میں ذمہ داران سنی شاہی کشمیری مسجد کاٹھمنڈو میں امام کے سلسلے میں
اختلاف ہوگیا کہ امام ایسا نہ ہو ویسا ہو ۔ اب لوگوں کو تلاش تھی کہ امام
ایسا ہو جو رہبر راہ شریعت بھی ہو اور رمز آشنائے طریقت بھی۔ جو علم سینہ
بھی رکھتا ہو اور علم سفینہ بھی۔ جو منبع مآثر بھی ہو۔ اور مجمع مفاخر بھی۔
جو کشور علم کا شہریار بھی ہو۔ اور ملک ولایت کا تاجدار بھی۔ پورے ہند و
نیپال میں ایک شیر نیپال کی شخصیت تھی جن میں یہ ساری خوبیاں بدرجئہ اتم
پائی جاتی تھیں۔ تو وہاں سے دس لوگوں نے جنکپور آکر آپ سے کاٹھمنڈو چلکر
امامت کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ وہاں ایک مدرسہ
چلائیں تو میں چلنے کے لیئے تیار ہوں ان لوگوں نے شرط منظور کرلی اور کہنے
لگے کہ آپ فی الحال دس طلبہ کو اپنے ساتھ لے لیں مگر آپ نے پانچ طلبہ کو
اپنے ساتھ لیا۔ اور کاٹھمنڈو پہونچکر امامت شروع کردی۔ لوگوں نے وعدہ کے
مطابق بچوں کے کھانے پینے کا انتظام تو کردیا۔ لیکن ایک سال تک سعئی پیہم
کے باوجود ادارہ کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ ویسے آپ کے وہاں پہونچنے پر سارے
اختلافات ختم ہوگئے ۔ تراویح بھی آپ نے ہی پڑھائی مگر چاند کے سلسلہ میں
پھر اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے خبر پر اعتماد کیا کچھ لوگوں نے شہادت پر۔
مگر الحمدللہ آپکا عمل شہادت پر رہا ۔ ادھر جامعہ حنفیہ غوثیہ سے طلبہ نکل
گئے۔ مدرسین کی تنخواہ رک گئی لائٹ کٹ گئی ۔ جامعہ پھر مکتب ہوگیا۔ یہ وہ
لوگ جنکا نبض کی دھڑکن پر ہاتھ تھا ایسا برداشت نہ کر سکے۔ ان لوگوں نے کہا
کہ بغیر حضرت کی موجودگی کے اس ادارہ کا چلنا مشکل ہے۔ لہذا کسی طرح راضی
کرکے حضرت کو دوبارہ یہاں لایا جائے۔ چنانچہ 1395ھ ماہ ذیقعدہ کے اخیر میں
چند با اثر لوگوں کے ساتھ فاتح نیپال گنج حضرت مولیٰنا عبد الجبار منظری
برکاتی صاحب کاٹھمنڈو پہونچے اور اصرار کرکے آپ کو پھر جامعہ حنفیہ غوثیہ
جنکپور لے آئے۔ اب جامعہ میں پھر سے بہار آ گئی۔ لائٹ لگ گئی طلبہ آگئے۔
مدرسین کی تنخواہ ادا کردی گئی۔ جامعہ کی ملک و بیرون ملک میں شہرت ہوگئی۔
آپ نے خدمت دین متین اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کو اپنی زندگی
کا نصب العین بنا لیا تھا۔ آپ کے کئی لاکھ مریدین ہیں جو نیپال کے علاوہ
کئی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
*اساتذہ* ۔ آپ کے چند نامور اساتذۂ کرام کے اسماء یہ ہیں۔
حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ
شیخ الحدیث علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ
بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان صاحب اعظمی علیہ الرحمہ
اشرف العلماء علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ
بحرالعلوم علامہ مفتی سید افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ
مفسر قرآن علامہ محمد عبد اللہ خاں بستوی
جامع معقولات و منقولات علامہ سید محمد عارف رضوی مدظلہ العالی نانپاروی
علامہ محمد کاظم علی خاں بستوی
استاذ العلماء علامہ مفتی عبد الجلیل اشرفی علیہ الرحمہ پورنوی
شفیق ملت علامہ محمد شفیق اعظمی
عم محترم علامہ محمد جمشید صدیقی علیہ الرحمہ لہنوی
*تلامذہ*۔ آپ کے کئی ہزار تلامذہ ہیں جو علم و ادراک کے آفتاب اور فضل و
بزرگی کے ماہتاب ہیں ان میں سے چند نام یہ ہیں۔
علامہ محمد حسین صدیقی
علامہ احمد حسین برکاتی
علامہ مفتی عبد الحفیظ مدھوبنی
علامہ مفتی مجیب الرحمٰن
علامہ مفتی عبدالسلام دوحہ قطر
علامہ مفتی فیضان الرحمٰن سبحانی
علامہ مفتی مصلح الدین رضوی
علامہ مفتی تحسین رضا
علامہ مفتی اظہار احمد
علامہ مفتی امیر الدین کشمیر
*خلفاء*. آپ کے کئی ہزار خلفاء ہیں جو اپنے نام و کام کی وجہ سے آفتاب کی
طرح چمک رہے ہیں ۔ طوالت کی وجہ سے میں یہاں صرف چند نام ذکر کرتا ہوں وہ
یہ ہیں۔ علامہ مفتی عبد الحفیظ برکاتی ۔ علامہ مفتی محمد مجیب الرحمٰن
برکاتی۔ علامہ محمد حسین صدیقی۔ علامہ مفتی محمد احمد حسین برکاتی۔ علامہ
مفتی محمد مسلم جمشید پور۔ علامہ مفتی ارشد علی مقصود پور۔ علامہ مفتی رحمت
علی۔ علامہ شفیع احمد برکاتی مظفر پور۔ علامہ عارف برکاتی اندور۔ علامہ
مفتی محمد رفیق الاسلام اندور۔ علامہ مفتی عبدالسلام تاراپٹی۔ علامہ مفتی
احمد رضا ثقافی لہان۔ علامہ حافظ شکیل احمد سراجی ملک پور۔ اور راقم الحروف
(مفتی) عبدالمقتدر خان جالوی ۔
*تصنیفات*۔ آپ کو اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اور
لکھنے کا انداز بھی غضب کا تھا ۔ جامعہ ازہر مصر کے سالانہ اجلاس میں آپ نے
عربی میں خطبات پیش کیۓ تو صاحبان علم جھوم اٹھے اور انہیں رسائل و جرائد
میں شائع کرایا۔ فتاویٰ برکات کو قرآن و احادیث ، فقہی جزئیات اور اقوال
صالحہ سے ایسا مزین فرمایا ہے کہ دیکھنے سے امام اعظم ابوحنیفہ کی یاد تازہ
ہوجاتی ہے۔ رد وہابیہ میں آپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی طرز نگارش پر زمانہ
قربان ہے۔ چنانچہ اللہ شوق دے تو انکی کتابوں کا مطالعہ فرمائیۓ۔
*میرے علم کے مطابق آپکی 22 کتابیں ہیں*۔
صدحیف۔ کہ زیارت اور عمرہ کی واپسی پر راستہ ہی میں علیل ہوئےاور 26/نومبر
کو رات ساڑھے گیارہ بجے داعئی اجل کو لبیک کہدیا۔ انا لللہ و انا الیہ
راجعون ۔ لہنہ شریف جنکپور نیپال میں 27/ نومبر کو بعد نماز ظہر تقریباً
سات لاکھ فرزندان توحید نے جنازہ پڑھکے آپ کو سپرد خاک کیا۔ جنازہ میں
علماء کی قطاریں بھی تھیں اور مشائخ کی صفیں بھی درسگاہوں کے مسند نشین بھی
تھے اور خانقاہوں کے سجادگان بھی ۔ قومی انجمنوں کے اراکین بھی تھے۔اور
مسجدوں کے ذمہ داران بھی ۔ عقلاء روزگار بھی تھے اور دانشوران زمانہ بھی۔
تلامذہ کی جماعت بھی تھی اور خلفاء کی کثرت بھی ۔ مریدین و معتقدین بھی تھے
اور معلمین و متعلمین بھی ۔ اس دن بہار و نیپال کے ہر شہر اور ہر گاؤں کا
رخ صرف اور صرف لہنہ شریف کی طرف ہوگیا تھا۔ اور ہر شخص کی زبان پر تھا ۔
آہ شیر نیپال آپ تھے تو گلشن میں بہار آئی تھی ۔ آپ ہی زخمی دلوں پر مرہم
رکھا کرتے تھے۔ آپ ہی سے دولت عشق رسالت ملی تھی۔ آپ ہی ہر محاذ پر کام آئے
تھے۔ آپ ہی ہماری الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھاتے تھے۔ آج ہم غلاموں کو روتا،
بلکتا، تڑپتا اور سسکتا چھوڑ کر چلے گئے۔ اب کسے قاضئی نیپال، شیر نیپال
فقیہ اعظم نیپال کہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رب کی مشیت میں مجال دم زدن نہیں
لیکن آقا خواب ہی میں سہی ایک بار اپنا دیدار تو کرا دیجیئے۔
|