عرب و عجم کی باہمی مخاصمت کی شدت اور گہرائی تو اپنی جگہ
مسلمہ ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب سے مسلمانوں کی عقیدت ہمیشہ کی طرح
مسلمہ ہے کیونکہ وہاں پر دو ایسی مقدس عبادت گاہیں جن کے اندر ہر مسلمان کا
دل اٹکا ہوا ہے۔مذہبی عقیدت میں ذاتی عظمت ،انا پرستی، فرقہ بندی اور قومی
عصبیت کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔وہ جو عربوں سے مخاصمت رکھتے ہیں اور
وہ جو عربوں کو عزیز گردانتے ہیں محبت کے میدان میں دونوں یک رنگ نظر آتے
ہیں۔سعودی عرب کو جس عظیم شرف سے سرفراز کیا گیا ہے وہی سب کی محبت کی
بنیادہے۔ بحثیتِ انسان تو ربِ کعبہ کے ماننے والوں سے پوری کائنات بھری پڑی
ہے لہذا کائنات کی ادنی سے ادنی اور اعلی سے اعلی شہ اسی ربِ کعبہ سے مدد و
اعانت کی طلب گار ہے ۔شرک و بت پرستی کے پالے ہوئے افراد بھی اﷲ ہی کی ذات
کو حاجات کی برو مندی کا محور قرار دیتے ہیں حتی کہ اس میں کافرو زندیق کی
بھی کوئی تفریق نہیں ہے ۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے ایک کی بجائے کئی خدا
تراش رکھے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے ہاں بھی بالواسطہ پوجا کا محور خدا
کی ذات ہی ہوتی ہے ۔وہ اپنی سمجھ کے مطابق خدا سے ہی لو لگائے ہوتے ہیں تا
آنکہ ظوا ہر پرستی کی جبلت انھیں اصنام پرستی کی جانب دھکیل دیتی ہے اور
یوں بت پرستی کا روگ ان کی زندگی کا جزو بن جا تا ہے ۔ کسی زمانے میں
یونان، مصر ، حجاز، ہندوستان اور با بل و نینوا اس بت پرستی کی آماجگاہ تھے
۔ان کے ہاں جگہ جگہ پتھر کے بت گھڑے ہوتے تھے جن کے سامنے وہ اپنی دلی
مرادوں کی برو مندی کی خاطر جھکتے تھے ۔اسلام کی آمد سے دنیا کے دوسرے خطوں
سے تو بت پرستی کی لعنت کا خاتمہ ہو گیا لیکن بھارت آج بھی بت پرستی کی
لعنت میں مبتلا ہے۔وہ اسے خدائی مذہب کا نام دے کر اس سے چمٹا ہوا ہے۔تو
حید پرستوں سے بھارت کی کھلی جنگ کے پسِ پردہ بت پرستی کی یہی ابلیسانہ سوچ
ہے جو انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی لہذا وہ صبح وشام توحیدی سوچ کو ملیا
میٹ کرنے کی خاطر ریاستی طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کر تے ۔ان کی سوچ،ان
کا راستہ ،ان کا طریقہ اور ان کاعمل بالکل غلط ہے۔وہ جس خدا کو خوش کرنے
کیلئے اتنے پاپڑ بیل رہے ہیں اسی خدا نے تو بت پرستی کو حرام قرار دے رکھا
ہے لیکن اتنی چھوٹی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آ تی ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو
پھر سرکارِ دو عالم ﷺ اپنے دستِ مبارک سے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے ۳۶۵بتوں
کو زمین بوس کیوں کرتے ۔ بتوں کو گرانا حکمِ ِ خدا وندی تھا جو سرکارِ دو
عالم ﷺ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کوپہنچا ۔ اسلام نے تو بتوں کے سامنے جھکنے کو
کو انسانیت کی تذلیل سے تعبیر کر کے ان کے خاتمہ کا اعلان کر رکھا ہے ۔
اکرمنا بنی آدم کا مفہوم یہی ہے کہ انسان صرف ربِ کعبہ کے سامنے ہی جھک
سکتا ہے ۔کسی تراشیدہ مورتی کو خدا کہنا توہینِ خدا ہے ۔ خدا بھلا کسی
مورتی میں کیسے تجسیم کر سکتا ہے ؟ انسا ن بتوں سے رشتہ توڑ کر ہی خدائے
واحد کا پیرو کار بن سکتا ہے۔سب رشتوں سے لا تعلق ہو کر صرف ایک خدا کا
ہونا ہی تو اسلام ہے۔یہی تو حید ہے اور اسی میں انسانیت کی عظمت مضمر ہے
۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب میں خدا کو ماننے کے اپنے اپنے
انداز ہیں۔ ان کا خدا کی ذ ات پر ایمان تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ ایمان اس
ایمان سے مختلف ہوتا ہے جس کا اعلان اﷲ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرانِ حکیم
میں کر رکھا ہے۔کسی سائنسدان نے آسمان پر تاروں کو روشن قندیلوں کی طرح سجا
ہوا دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھا کہ خدا بڑا حساب دان ہے کیونکہ تاروں کی
متوازنیت اس کے حساب دان ہونے کی گواہی دے رہی تھی ۔سائنسدان کی فکری اڑان
اور میلانِ طبع اسے ایک ایسی ہستی کی جانب لے گئی جسے وہ حساب دان کہہ کر
پکار اٹھا۔،۔
سوال خدا کی ذ ات کو تسلیم کرنے اور اس کے سامنے ماتھا ٹیکنے کا نہیں ہے،اس
پر ایمان لانے اور اسے تسلیم کرنے کا نہیں ہے ۔خدا پر تو سب انسانوں کا
ایمان کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے اور موجود رہے گا۔کوئی لاکھ انکار
کرتا پھرے لیکن پھر بھی ہر انسان کسی نہ کسی شکل میں خدا کی عظمتوں کا قائل
ہوتا ہے اور مشکلات میں صرف اسے ہی پکارتا ہے۔ وہ مورتیوں کی شکل میں
ہو،بتوں کی شکل میں ہو،اصنام کی شکل میں ہو ، وہ ان کی نظر میں خدا ہی ہوتا
ہے ۔وہ مورتی کو مورتی نہیں کہتا اور نہ ہی مورتی سے اپنی آرزوؤں کو پورا
کرنے کی مناجاتیں کرتا ہے۔ وہ خدا کو اپنی فہم کے مطابق نام دیتا اور اس کی
پرستش کرتا ہے۔یہ خدا اور بندے کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے جس میں وہ مکمل آزاد
ہوتا ہے اور جس میں کوئی دوسرا مداخلت نہیں کر سکتا۔وہ اس عالمی مفروضہ کا
کہ( وہ جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے) کا پیرو کار ہوتا ہے لیکن
اپنی مذہبی سوچ کے مطابق ۔ اس مفروضہ پر ہندوؤں ،سکھوں عیسائیوں ،یہودیوں
،آتش پرستوں، پارسیوں، بہائیوں، بابیوں اور دہریوں کا مکمل اتفاق ہے کہ
کوئی اعلی و ارفع ہستی ہے جو اس کائنات کو چلا رہی ہے اور وہی خدا ہے۔
انھیں اپنے تراشیدہ خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں کوئی پس و پیش نہیں
ہوتا کیونکہ وہ اسے ہی حقیقی خدا سمجھ رہے ہوتے ہیں جو کہ بالکل باطل سوچ
ہے ۔خدا چھوٹا ہو یا خدا بڑا ہو،خدا بت کی شکل میں ہو ، یا خدا مورتی کی
شکل میں ہو وہ اسے خدا ہی کے نام سے پکارتے ہیں ۔بھگوان کی مورتیاں بت پر
ستوں کی توجہ کا اسی لئے مظہر بنتی ہیں کیونکہ ان میں انھیں خدا کی جھلک
نظر آتی ہے ۔مسلمانوں کو اس طرح کے خود تراشیدہ خداؤں سے انکار ہے وہ اسے
شرک و بت پرستی سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ خدائے واحد کی نظر میں شرک نا
قابلِ معافی جرم ہے ۔ مسلمان لامکاں میں مسند نشیں خدا کو ہی خدا مانتے
ہیں۔ایک ایسا خداجو قادرِ مطلق ہے اور ہر شہ جس کے قبضہِ قدرت میں ہے۔بات
عرب و عجم کی باہمی چپقلش سے شروع ہو ئی تھی لیکن بہت دور نکل گئی۔سعودی
عرب کو اس بات کا خصوصی امتیاز حا صل ہے کہ ان کی سر زمین پر خانہ کعبہ اور
مسجد ِ نبوی جیسے مقدس مقامات ہیں۔ان میں سے ایک خدا کا گھر ہے اور دوسرا
اس کے محبوب ﷺ کا گھر ہے۔جس محبوبﷺ کے ناز مالکِ کائنات خود اٹھا تا ہو تو
ایسے محبوب ﷺ کی عظمت کا اندازہ لگانانا ممکن ہے ۔ محبوب ﷺ کے گھر سے جس سر
زمین کو سرفرازکیا گیا اس سر زمین کے تقدس میں کوئی سوال باقی نہیں رہتا ۔
اکثر عاشق اسے کعبہ کا کعبہ کہہ کر پکارنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جس سے
محبوب ِ خدا ﷺکے گھر کا تقدس زمان و مکاں کی حد بندیوں سے ماوراء ہوجا تا
ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ربِ کعبہ کے محبوب ﷺپر ایمان ہی وہ واحد بنیاد ہے جس پر
اس کائنات کی تخلیق کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ وہ ﷺ نہ ہوتے تو پھر یہ کائنات
بھی نہ ہوتی۔محبوب ِ خداﷺ ہی در حقیقت وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں لہذا جب تک
ان کی ذات ﷺ پر ایمان نہیں لایا جاتا اس کائنات کی تخلیق کی غر ض و غائت
تکمیل پذیر نہیں ہو سکتی ۔ ہجر شجر تو پہلے بھی خدا کی تسبیح کرتے تھے، اس
کی حمدو ثناء کرتے تھے ، اس کے سامنے جھکتے تھے ،سجدہ ریز ہوتے تھے لہذا
کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی یہ کائنات اپنے خالق کے نام کی مالا جپتی۔ لیکن
خدا ئے واحد نے اپنا جلوہ جس ذات کے آئینہ میں کیا تھا اسی ذات پر ایمان
لانے کو ایمانِ کامل قراردے دیا ۔سرکارِ مدینہ ﷺ پر ایمان کے بغیر کسی قسم
کا ایمان بارگاہِ خداوندی میں پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ختمِ
نبوت پر ایمان کو اسی لئے لازمی قرار دیاگیا کیونکہ نور کا چشمہ وہی سے
پھوٹتا ہے ۔حضور ر ﷺ کی ذات پر ایمان لایا جائیگا تو پھر اس کائنات کی
تخلیق کی غرض و غائیت اپنی تکمیل کو چھو ئے گی وگرنہ انسان اپنے ہی پیدا
کردہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار تارہے گا اور سکون ِ قلب کی اس دولت سے
محروم ہو جائیگا جس کا وعدہ خالقِ کائنات نے اس کے ساتھ کر رکھا ہے۔بے شک
انسان گھاٹے میں ہے لیکن اسے اس کا شعور نہیں ہے۔،۔ |