ڈر۔ خوف - پریشانی اور بے چینی اُسی کا مقدر ہے جس کے پاس
ایک بھرپور زندگی گُزارنے کے تمام لوازمات موجود ہوں، ہر شے با افراط میسّر
ہو۔
دیکھیں تو ان الفاظ میں تضاد جھلکتا ہے، سوچیں تو یہ ہماری عمر بھر کی وہ
کمائی ہے جس کی قدروقیمت راستے میں آنے والی مٹی کی گرد سے بھی زیادہ نہیں،
بات صرف اتنی سی ہے کہ جس کے پاس' بہت کچھ' ہو گا اس کے پاس کھونے کے لئے
بھی بہت کچھ ہو گا۔ جس کے پاس اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ کیا گنوائے گا۔
ہاتھ خالی ہوں گے توملے گا بھری ہوئی جھولی کیونکر پھیلائی جا سکے گی۔ دولت
ہو گی تو لُٹنے کا اندیشہ ہوگا، اولاد ہوگی تو اس کی پرورش اُس کی تربیت کی
فکرہو گی، اُس کے بگڑنے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا، یہ صرف اور صرف ملکیت کا
کھیل ہے کُفرانِ نعمت ہرگز نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی ہم دولت کے حصول کے
لئےکوشش کرتے ہیں، ہموار زندگی کےلئے خاندان کا آغاز کرتے ہیں، بچوں کو
پالتے ہیں، چیزیں جمع کرتے ہیں، ہر شے پر اپنی مُہر لگاتے چلے جاتے ہیں۔
صحت کی خاطر تردّد کرتے ہیں، اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں، ایک کے بعد
ایک چیزاپنی سہولت کے لیے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔
ہم سب کُچھ اپنی مُٹھی میں قید کر لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس افراتفری میں سب
سے قیمتی شے ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ ہے"وقت"۔ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں
اور ہمارا وقت پیچھے رہ جاتا ہے، وہ وہیں کھڑا ہمارا انتظار کرتا ہے کہ کب
پلٹ کر اُسے آواز دیں۔ ہم تیزرفتار گھوڑے پر سوار سوچتے ہیں اگر پلٹ کر
دیکھا تو پتھر کے بن جائیں گے۔ یہ تو پڑاؤ پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ
زادِ سفر تو شاید کہیں دُور رہ گیا تھا۔
ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے کسی بھی شے پراپنا تصرف جمانے کی بجائے اُس کا
ایک امانت کے طور پرخیال رکھیں۔ ضرورت پڑنے پراستعمال کریں تومالک کوآگاہ
کر دیں، اُس میں خیانت نہ کریں۔ اپنے تئیں مزید اضافہ کر کےمالک کو خوش
کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ حساب کتاب صرف اُسی کا ہو گا جو دیا گیا ہے۔
کاروبارمیں گھاٹا ہو جائے تو مالک کو بتائیں یہ نہ سوچیں کہ اُس کےخزانے
میں کون سا کمی آجائے گی۔
اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کوعلم کا بیش بہا خزانہ عطا کیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی عقل سے کام لے کر اپنے آپ کو اس بارِگراں کا
اہل ثابت کریں۔امانت کا امانت دار بن کر دکھائیں۔ امانت کےساتھ دیانت فرض
ہے اور خیانت سے نعمت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ اس بال برابر فرق کو پہچاننے
کی ضرورت ہے۔
|