نظام تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت!

قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق علم و حکمت کے اسرار پوشیدہ ہیں ایسے ہی رازوں کو جاننے کے لئے قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ کیا تم غور نہیں کرتے ‘اس آیت کے ذریعے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تا کہ وہ اس بات پر عمل پیرا ہو کر شعور و آگہی حاصل کر سکیں۔ترقی یافتہ اقوام کے راز سے پردہ اٹھا کر دیکھ لیں ان کی ترقی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ جو قوم اپنی نسل نو میں تعلیم و تربیت منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئی اسے دنیا کی کوئی طاقت ترقی کے زینے سر کرنے سے روک نہیں سکتی اور تاریخ کا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ آج جو اقوام ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑی ہیں انہوں نے تعلیم و تحقیق کے ذریعے ہی ترقی کا راستہ اختیار کیا۔ملک عزیز پاکستان پوری دنیا میں بہترین جغرافیائی محل وقوع رکھنے والا انفرادیت کا حامل ملک ہے جو بلند و بالا پہاڑوں‘قطبین کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے گلیشیئر‘وادی کاغان‘سوات‘چترال کی دلکش وادیوں سے آباد ہے‘بلوچستان میں سونے اور تانبے‘تھر میں کوئلہ کے وسیع ذخائر‘دنیا کا بہترین نہری نظام‘‘سرسبز و شاداب میدان‘بہترین افرادی قوت لیکن بد قسمتی سے بہتریں جغرافیائی محل وقوع اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کی افرادی قوت (Skiled Labour) سے محروم ہے۔دوسری جانب تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا لیکن ٹیکنیکل‘ووکیشنل تعلیم کی بدولت جرمنی دنیا کی طاقت ور اقتصادی قوت بن گیا‘دیوار برلن ٹوٹ گئی‘مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی متحد ہو کر ایک ملک بن گئے۔دوسری جانب جزائر پر مشتمل جاپان کو دیکھ لیں جو تیل ‘لوہا اور کوئلہ جیسی معدنیات سے محروم ‘زرعی زمین ناپید‘لیکن اپنی محنت اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دنیا کا خوشحال ترین ملک ہے جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی حملے میں تباہ ہونے کے باوجود ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے سہارے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اپنا شمار کروایا۔چین کو دیکھ لیں جس نے دنیا کو دیکھنے کے لئے پاکستان کو کھڑکی کے طور پر استعمال کیا آج دنیا کی سپر پاور بنتا جا رہا ہے ملائشیا اور کوریا کو دیکھ لیں ‘جرمنی اور جاپان میں ذریعہ تعلیم اپنی اپنی زبان ہے۔یہ ممالک تعلیم کے ذریعے ٹیکنکل اور ووکیشنل مہارت کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم آج اکیسویں صدی کی دنیا میں کشکول تھامے اغیار کے در کے مجاور ہیں۔پیشہ وارانہ سروس کی عالمی فرم ڈبلیو سی کی رپورٹ’’دی ورلڈ ان 2050ء‘‘ کے مطابق تیس برس میں سے چھ میں سے سات عالمی معاشی طاقتیں وہ ممالک ہوں گے جو آج معاشی لحاظ سے ترقی پذیر ملک ہیں اور امریکہ اس فہرست میں دوسرے سے تیسرے جاپان چوتھے سے آٹھویں جرمنی پانچویں سے نویں درجے پر چلا جائے گا ،اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ آنیوالے عشروں میں ویتنام‘نائیجیریا اور فلپائن جیسے ممالک بے حد ترقی کرینگے اور اس فہرست میں بہت اوپر چلے جائیں گے اس کے علاؤہ چین‘بھارت‘برازیل‘میکسیکو جیسے ممالک بھی تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو نگے اس رپورٹ کی دستک ہمارے لئے مستقبل میں دنیا کے سنگ چلنے کے لئے غور و فکر کے سندیسے اپنے اند سموئے ہوئے ہے۔علم دنیا میں قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا سچا حوالہ ہے جس قوم نے علم کا دامن تھاما وہ ترقی کے زینے سر کرتی چلی گئی۔تاریخ کے صفحات اس بات کے آج بھی غماز ہیں کہ علم کے ذریعے مسلمانوں نے دنیا کے تخت پر حکمرانی کی طبعیات ہو‘فلسفہ‘کیمیا‘ریاضی‘جغرافیہ ہو مسلم سائنسدانوں نے تحقیق و عمل کے ذریعے اپنا ایک مقام اور شناخت قائم کی ۔المیہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے اجداد کی میراث اور ان کی تعلیمات کو فراموش کیا تب سے زوال کے دامن سے جڑ گئے آج مغرب علمی و سائنسی تحقیق کے عمل میں ہم سے بہت آگے ہے ۔مغرب کی ترقی آج بھی کتاب اور تحقیق کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ہمیں اپنی نسل نو کے روشن مستقبل اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے نعرے بازی‘مخالفت برائے مخالفت اور تعصب کے زہر آلود ماحول سے باہر نکلنا ہو گا ۔جو قومیں شعور کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کے نظام کو اپناتی ہیں وہی اس دنیا میں زندہ رہ سکتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب اور امیر کے لئے یکساں نظام تعلیم ہو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی ایک ایسا جامع نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ جس سے ملک میں ہنر مند افرادی قوت پیدا ہو سکے۔نظام تعلیم جو ہمارے ہاں رائج ہے وہ اس قابل نہیں کہ ایک طالب علم کو اس انداز میں تعلیم و تربیت سے بہرہ مند کر سکے کہ وہ معاشرے کا باوقار اور مہذب شہری بن سکے صرف اس نظام تعلیم نے نوجوانوں کو ڈگریاں تو دیں لیکن انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے ہنر مندی سے آراستہ نہیں کیا۔یہ موجودہ نظام تعلیم بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے اگر ہمارا نظام تعلیم صحیح خطوط پر استوار ہو جائے تو پھر یقیننا ہم دعویدار بن سکتے ہیں کہ یہ ملک و ملت ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ایک دن ضرور جگہ بنا لے گی لیکن اس کے لئے تعلیم کے نام پر کاروبار کا تدارک کرتے ہوئے تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ تربیت کا یکساں نظام رائج کرنے کی بھی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپریل 2021ء سے ملک بھر کے اسکولوں میں پہلی جماعت سے پانچویں تک یکساں نصاب نافذ کرنے کا عندیہ دے دیدیا ہے اور اسی طرح اس مرحلہ کے بعد چھٹی سے آٹھویں تک بھی یکساں نصاب نافذ کرنے کی تیاری مراحل میں ہے یقیننا موجودہ حکومت کا یہ خوش آئند اقدام ہے جس سے کم از کم غریب اور متوسط طبقہ کے طلباء تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے لئے کمر شکن بھاری فیسوں سے ضرور بچ جائینگے۔موجودہ حکومت کے لئے یکساں نصاب کا نفاذ ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے کیونکہ ملک میں تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے والا ایک منظم مافیا موجود ہے جس سے نمٹنا بھی موجودہ حکومت کی حکمت عملی میں ضرور شامل ہو گا۔اس میں تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ آگے بڑھنے کے لئے اب موجودہ نظام تعلیم میں جامع اصلاحات از حد ضروری ہیں اس کے بغیر کسی بھی تبدیلی اور ترقی کی راہ ہر گز ہموار نہیں ہو سکتی ۔خوش کن بات ہے کہ موجودہ حکومت گو نو آموز اور نا تجربہ کار سہی لیکن یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے جو پہلی اینٹ چننے جا رہی ہے اس سے یہ قوی امید ہے کہ جہاں اس نظام سے جڑے مافیا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وہیں غریب اور امیر کے لئے یکساں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی میسر آسکیں گے۔دنیا کے سنگ اکیسویں صدی میں قدم ہونے کے لئے نظام تعلیم میں اصلاحات کے ذریعے انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گئیں جس سے تحقیق و عمل کی راہ ہموار ہو سکے اور ہماری نوجوان نسل تعلیم و تربیت کے ساتھ آراستہ ہو کر دنیا کی برق رفتار ترقی کا حصہ بن سکے۔

Rao Ghulam Mustafa
About the Author: Rao Ghulam Mustafa Read More Articles by Rao Ghulam Mustafa: 22 Articles with 16713 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.