کہتے ہیں کہ خاموشی سب سے کارآمد ہتھیار ہے، کم سے کم نون
لیگ کے لیے یے تو خاموش رہنا اب تک کے لیے فائدہ مند رہا ہے۔ میاں نواز
شریف کی اسی خاموشی نے ان کے مخالفین کے تمام دعووں کو کو متنازعہ بنا دیا
ہے. اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ یہ ہائی بریڈ گورنمنٹ ہے اسٹبلشمنٹ اور
پولیٹیشن مل کے گورنمنٹ چلا رہے ہیں ۔اور اب تو ملیٹیبلشمنٹ کو شرمندگی بھی
نہیں ہوتی کہ ان کا نام ہر جگہ گھسیٹا جا رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کسی حد تک
کامیاب ہو چکی ہے لوگوں کو باور کرانے میں کہ جمہوری نظام فیل ہوچکا ہے
ناکام ہوچکا ہے ناکارہ ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ صدارتی نظام حکومت کی
بازگشت ایوان بالا میں سنائی دے رہی ہے اسلام آباد میں سب سے زیادہ مہو
گفتگو موضوع صدارتی نظام حکومت ہے۔ لیکن صدارتی نظام کی بات کرنے سے پہلے
ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسی صدارتی نظام کی وجہ سے سن 1971 میں ملک
دو لخت ہوا تھا۔ تاہم میرے خیال میں جمہوریت ہی آمرانہ طرز حکومت کا بہترین
جواب ہے۔ میرے خیال میں تو جمہوریت اپنی گزری حالت میں بھی آمریت سے کہیں
درجے بہتر ہے۔
اگر آپ مطالعہ پاکستان کے علاوہ تاریخ کا مطالعہ کریں، جو غیر متنازعہ
لوگوں نے لکھی ہے تو آپ کو احساس ہوگا کہ جتنا نقصان وطن عزیز کر آمریت نے
پہنچایا ہے جمہوریت تو اسکا شرعی بھی نہیں۔ سب سے بڑا جرم تو ہمارے چوکیدار
قران پے لیا ہوا آئین کی پاسداری کا حلف توڑتے ہیں۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر
رات تھیں کہ اگر آپکو ان جرنیلوں کی کرپشن کا آندازہ جائے تو سیاست دان
فرشتے دکھینگے۔ اس ملک کو آگے لے کے جانے کا واحد ذریعہ جمہوریت ہے۔ کہتے
ہیں کہ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ اگر آپ وطن
عزیز کی 70 سالہ تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو آپ کواس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ
در حلقوں نے یا تو سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا یا کاروباری حلقوں کو
ہراساں کیا۔ اس مکمل کے وہ ادارے جن کی ذمہ داری ملک کی سالمیت ہیں انہوں
نے ہی اس ملک کے پاؤں میں کلہاڑی ماری، اس ملک میں دہشتگردی انہوں نے
متعارف کروائی، یہاں پر ہیروئن کلچر انہوں نے متعارف کروایا، یہاں پر کلیشن
کوف وہ لے کر آئے، ایم کیوایم اور حقیقی جیسی پارٹی انہوں نے بنائیں ، سنی
شیعہ فسادات انہوں نے کروائے ، طالبان انہوں نے پیدا کیے یے، اور اب بھی وہ
ان دہشتگردوں کواپنا قومی اثاثہ قرار دیتے رہے ہیں۔
جبکہ جمہوریت نے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی، ان جرنیلوں کا پھیلایا ہوا
گند صاف کیا۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب کبھی ملک ترقی
کی راہ میں گامزن ہوا ، اس کی جی ڈی پی گروتھ بڑھنا شروع ہوئی، اس کے
انفلیشن ریٹ کم ہوا، معیشت رواں ہوی ، تب ہی اس کی دیواروں میں نقب لگائی
گئی اور نقب لگانے والے بھی ہمارے اپنے ہی تھے ہمارے اپنے ہی ادارے تھے
میرے خیال میں میاں صاحب جو یقینا بیمار بھی ہیں، انہیں زبان کھول لینی
چاہیے۔ آخر کب تک سویلینز کے حقوق پر نقب زنی چلتی رہے گی۔ وہی ایک
سیاستدان ہیں جن کا بیانیہ عوام کا بیانیہ بن چکا ہے۔ عوام کو بھی سمجھ آ
جانی چاہیے کہ کرپشن کے نعرے صرف اور صرف پولیٹیکل سٹنٹ تھے، الیکشن جیتنے
کے لیے یہ ایک کمپین چلائی گئی تھی۔ بقول ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر کے جھوٹ
اتنا بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔
اتنا جھوٹ بولا گیا کہ جھوٹ کو ہی لوگوں نے سمجھ لیا، یہاں تک کہ جھوٹ
بولنے والے خود پیتھالاجیکل لائر بن جکے ہیں۔ اس ہائیڈریٹ حکومت نے عام
شہریوں کی زندگی سے لیکر خارجہ پالیسی تک ہر شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس
وقت اس وقت ملک اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ اس سے نکلنے کے لیے جانے کتنے پاپڑ
بیلنے پڑیں گے کتنا وقت لگے گا کتنا عرصہ درکار ہو گا اور آخر میں عام شہری
ہی پسیگا۔
|