پاکستان کی وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی محترمہ شیریں
مزاری نے اپنی ہی حکومت کی کشمیر پالیسی کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی ہے
اور اس کے بعد سناٹا جاری ہے۔ حیرت ہے کہ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی
بھی خاموش ہیں حالانکہ فن خطابت میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں اور وہ تو دیگر
وزارتوں کے معاملات میں بھی رائے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن جب ان کی
وزارت کی کاردگی کو کابینہ میں ان کی ایک ساتھی نے نہ صرف حدف تنقید بنایا
ہے بلکہ اسے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ناکام ترین پالیسی قرار دیا ہے تو وہ
بالکل خاموش ہیں۔ شاہ جی کچھ تو کہئے، عوام آپ کا پرجوش اور دھواں دار
جوابی تبصرہ سننے کے منتظر ہیں۔ انتظار تو وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب
سے جواب کا بھی ہے جو باقاعدگی سے میڈیا کو خارجہ پالیسی کی سرگرمیوں سے
آگاہ رکھتے ہیں۔ سب سے حیرت وزیر اعظم عمران خان کی خاموشی پرہے۔ جناب وزیر
اعظم آپ ٹیم کے کپتان ہیں اور آپ کی کھڑی کی ہوئی فیلڈ کی کارکردگی پراگر
آپ کے کھلاڑی کی جانب سے تنقید ہورہی ہے تو آپ فیلڈ تبدیل کریں یااس کے
دفاع میں کچھ بولیں۔ کپتان ہی تو پوری ٹیم کی کارکردگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اگر وزارت خارجہ آپ کے وژن کے مطابق کام نہیں کررہی تو اسے تبدیل کرنے کا
آپ کو پورا حق ہے۔ یہ الزامات حزب اختلاف نے نہیں لگائے بلکہ خود کابینہ کی
ایک اہم رکن نے عائد کئے ہیں لہذا آپ کو اس معاملہ پر اپنا کردار ادا کرنا
کرنا چاہیے اور اصل حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔
محترمہ شیریں مزاری کا یہ کہنا کہ وزارت خارجہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے
کارکردگی مایوس کن ہے اور ہم اس مسئلہ پر وہ عالمی حمایت حاصل نہیں کرسکے
جو مسئلہ فلسطین کا حاصل ہے۔ ان کی بات درست ہے اور اگردنیا کے کسی بھی ملک
میں وہاں کے لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو جانتے ہیں، تو
پچانوے فی صد سے زائد ہاں میں جواب دیں گے لیکن ساتھ ہی ان سے مسئلہ کشمیر
کے بارے میں پوچھا جائے تو شائد پانچ فی صد ہاں میں جواب دے سکیں۔ اس کی
وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں شیریں مزاری نے اظہار خیال نہیں کیا یا بات کرنا
مناسب نہیں سمجھا ۔انہوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے یا وہ اصل وجہ سے
لاعلم ہیں۔ محترمہ دنیا فلسطین کے مسئلہ کو اس لئے جانتی ہے کہ فلسطینی خود
اپنا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ، اسلامی کانفرس، یورپی
یونین، غیر جاندار تحریک اور دیگر عالمی اداروں میں فلسطینی خود اپنا مسئلہ
بیان کرتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کو شام، مصر، اردن یا سعودی عرب نہیں پیش کرتا
بلکہ فلسطینی خود کرتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے قیام سے پہلے یہ کام پی ایل
او کرتی تھی اور فلسطینی اتھارٹی کرتی ہے۔ دنیا نے مسئلہ فلسطین یاسر عرفات
اور محمود عباس سے توجہ سے سنا ہے لیکن کشمیر کی آوازجب پاکستان کے وزیر
اعظم اور وزیر خارجہ کی طرف سے آتی ہے تو اس پر کوئی توجہ نہیں
دیتے۔دنیااگر کشمیر آواز کشمیریوں سے سنسنتی تومسئلہ فلسطین کی طرح ضرور
توجہ دیتی۔ اس حقیقت کا اعتراف پاکستان کی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور
سیاستدان خود کرتے ہیں کہ دنیا دوطرفہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتی اور جب
پاکستان ان کے سامنے مسئلہ کشمیر پیش کرتا ہے تو وہ سفارتی آداب کے تحت سن
تو لیتے ہیں لیکن ان کا کوئی اثر نہیں۔ دو دہائیوں سے زائد عرصہ یورپ میں
گزارنے کے بعد یہ ذاتی تجربہ بھی یہی ہے۔ پاکستان کے سفارتی حلقوں اور
مسئلہ کشمیر کی لابنگ کے لئے یورپ آنے والے وفود نے اس حقیقت کا اعتراف کیا
ہے اور وہ یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ خود کشمیری لوگوں کو یہ مسئلہ پیش کرنا
چاہیے پھر ان کی باتتوجہ سے سنی جائے گی۔ یہ بالکل حقیقت ہے اور راقم اور
سٹا ک ہوم میں مقیم کشمیری راہنما برکت حسین نے سویڈش وزارت خارجہ، اراکین
پارلیمنٹ، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اہل کاروں کے سامنے
مسئلہ کشمیر کے حقائق سامنے رکھے تو نہ صرف انہوں نے ہمدردی اور غور سے سنا
بلکہ اس پر اپنا تحریری رد عمل بھی دیا۔ سویڈن پارلیمنٹ کے کئی اراکین نے
ہماری درخواست پر سویڈش پارلیمنٹ میں تحریک پیش کی جس پر وزیر خارجہ نے
تحریری پالیسی بیان جاری کیا۔
اگر فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر کی اہمیت دنیا میں اجاگر کرنا ہے تو یہ کام
پاکستان کی وزارت خارجہ سے لے کر آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے سپرد جائے
اور اسے دنیا میں مسئلہ کشمیر کو پیش کرنے کی ذمہ داری دی جائے۔ اسی طرح
بیرون ملک مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے جو تنظیمیں یا کمیٹیاں بنی ہیں،
ان کے عہدیدار وں کا تعلق ریاست جموں کشمیر سے ہونا چاہیے اور مظاہروں میں
صرف کشمیری پرچم ہوں تاکہ بھارتی پروپاگنڈا بے اثر ہوجائے کہ بیرون ملک
مظاہرے پاکستان کرواتا ہے اور اس میں صرف پاکستانی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں
درج ذیل تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
۱۔ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان مشتمل ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ
حکومت تشکیل دی جائے۔
۲۔ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلیاں کو صوبائی اسمبلیوں
کی صورت دی جائے اور دونوں ایوان بالا کا انتخاب کریں ۔ صدر اور وزیر اعظم
میں سے ایک عہدہ ہر ایک صوبہ کو دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے آزاد جموں کشمیر
کے ایکٹ ۱۹۷۴ اور گلگت بلتستان ایکٹ میں ضروری ترامیم کی جائیں ۔
۳۔ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ریاست کو حکومت پاکستان خود
بھی تسلیم کرے اور اپنے دوست ممالک سے بھی تسلیم کروائے اور اسے اقوام
متحدہ، اسلامی کانفرس اور دیگر عالمی اداروں میں نمائندگی دلوائی جائے اور
کشمیر کی یہ نمائندہ حکومت دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر پیش کرے۔
۴۔ حکومت پاکستان اور ریاست جموں کشمیر و گلگت بلتستان کے درمیان معاملات
۱۵ اگست ۱۹۴۷ ء کو طے پانے والے معائدہ کے تحت ہونے چاہیں۔ دفاع، مواصلات
اور خزانہ جیسے معاملات حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہو جبکہ دیگر معاملات
ریاستی حکومت کے پاس ہوں۔
۵۔ آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک بڑھایا
جائے اور گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست کا قانون جو ۱۹۷۴ء میں منسوخ کردیا
گیا تھا، پھر سے بحال کیا جائے۔
۶۔ کشمیر کونسل، وزارت امور کشمیر اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی ختم کردی جائے
اور ان اداروں کے وسائل اور اختیارات باہمی گفت و شنید سے طے کئے جائیں۔
وزیر اعظم عمران نے درست کہا تھا کہ بعض اوقات یوٹرن لینا لازمی ہوجاتا ہے
لہذا گزارش ہے کہ حکومتی کشمیر پالیسی پر اب یوٹرن لے لیں بصورت دیگر کشمیر
پالیسی کی گاڑی منزل پر نہیں پہنچ پائے گی۔
|