میرے کئی دوستوں کا سوال یہ ہے کہ میں دینی علوم کے ساتھ
جدید فنون کا پخ کیوں لگاتا؟ اور دونوں میں بعد ہے لہذا ایک ساتھ تحصیل
کیسے ممکن ہے؟ اسکا مختصر خاکہ/ جواب ملاحظہ ہو.
میرے کئی ایسے دوست ہیں جو عالم ہونے کیساتھ کسی عصری فن کے بارے میں آگاہی
بھی رکھتے ہیں اور ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے.
مثلا میرے ایک دوست ایم بی اے ہیں.. وہ قرآن اور حدیث میں بیان کردہ
مالیاتی و تجارتی احکام و امور مجھ سے بدرجہ ہا بہتر سمجھتے ہیں.وہ بہت سے
اسلامی مالیاتی مباحث کو سلیس انداز میں بیان کرتے ہیں جو مجھے درست سمجھ
میں بھی نہیں آتے. کیونکہ میں جدید معاشیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں.
کئی عالم دوست ایل ایل بی اور جج ہیں. یقین کیجے وہ قرآنی قوانین اور فقہ و
اصول فقہ کے مباحث بیس بیس سال فقہ کی تدریس کرنے والوں سے زیادہ باریک
بینی کیساتھ سمجھتے ہیں.اور جدید ریاست کے عدالتی اور قانونی معاملات کی
اسلام کی روشنی میں درست تفہیم رکھتے ہیں. اور دوران مکالمہ بیان بھی کرتے
ہیں.
کچھ عالم دوست ایم ایجوکیشن ہیں، وہ بہر صورت اسلام کا نظام تعلیم، نصاب
تعلیم اور طرق تدریس مجھ سے ہزار گنا بہتر سمجھتے ہیں.
کچھ ایم اے اردو ہیں جن کا درس قرآن و حدیث اور دینی موضوعات پر گفتگو بہت
شائستہ، سلیس اور قابل فہم ہوتی، وہ جدید ذہن کو فورا اپیل کرجاتی.ان کی
زبان بہت بااثر ہوتی اور گفتگو اشعار و محاورات سے مملو ہوتی.
میں نے ایم اے ماس کمیونیکیشن اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا ہوا ہے.
مجھے اندازہ ہے کہ میں اپنے ہم عمر مولوی دوست، جنہوں نے صرف درس نظامی کی
تکمیل کی ہیں سے، اسلام کا نظریہ اقتدار اعلی، نظام حکومت، طرز ہائے حکومت،
شعبہ جات،آئین و قانون سازی، اولوالامر، شورائی نظام، انتخاب حاکم اور
معاشرہ و فیملی سسٹم زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرسکتا. وہ صرف اس لیے کہ
مجھے قدیم و جدید طرق ہائے حکومت اور کچھ مغربی و مشرقی سیاسی مفکرین اور
جدید دنیا کے آئین پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا ہے.اگر مجھے علم سیاسیات
اور اسلامی علوم میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جاتا تو یقینا میں
کافی کام کرسکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا. مبادیات کی حد تک رہ گیا.
اگر ہمارے احباب کو بنیادی عربی و اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد قرآن و حدیث
کیساتھ اپنے ذوق کے مضامین پڑھنے کا موقع فراہم کیا جاوے تو بعید نہیں کہ
جدید دنیا کی ہر فیلڈ کے ماہرین تیار ہوں اور ان کے پاس اسلامی علوم کا بڑا
حصہ بھی محفوظ ہو.وہ آج کی دنیا کے مسائل اور معاملات کو دینی احکامات کا
رعایت کرتے ہوئے چلاسکیں.
مثلا میٹرک کے بعد آٹھ سالہ نظام میں ابتدائی چار سالوں مین قرآن وحدیث
کیساتھ صرف و نحو اور عربی و انگریزی کلاسز ہوں. اگلے چار سالوں میں قرآن و
حدیث کیساتھ کسی ایک مضمون مثلا معاشیات، لاء، ٹیکنالوجی، ایجوکیشن، فزکس،
کیمسٹری، بیالوجی یا کسی اور مضمون کے مبادیات اور اعلی کتب پڑھایی جائیں.
مثلا ان چار سالوں میں ہر سال تین تین مضامین قرآن و حدیث کے ہوں باقی چار
چار مضامین اسی مخصوص مضمون(معاشیات) کے ہوں. تو اسی مضمون کی سولہ کتب
بالاستیعاب استاد سے پڑھنے کے بعد طالب علم قرآن و حدیث کیساتھ متعلقہ فن
کا بھی بڑی حد تک ماہر ہوسکتا ہے.. یہی ترتیب مدارس اور سرکاری جامعات میں
آسانی سے لاگو کی جاسکتی ہے، ایسا سلیبس اور نظم ڈیزائن کیا جاسکتا ہےاور
ان تمام مضامین کے لیے اساتذہ بھی آسانی سے مل سکتے ہیں. آج تو ہر مضمون کے
ایم فل اور پی ایچ ڈی لوگوں کی بہتات ہے.ایم اے کے بعد یہی طلبہ متعلقہ
مضمون میں قرآن و حدیث کے تجزیہ و تحلیل اور استدلال کیساتھ تخصص(ایم فل،
ایم ایس، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ) کریں تو ان کی تحقیقات سے پوری دنیا
استفادہ کرسکتی ہے. بہر صورت اس کو مزید وضاحت سے بیان کیا جاسکتا ہے.
تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|