نسائی ادب اور تانیثیت (تحقیق و تنقید) ۔ اکرم کُنجاہی


نسائی ادب اور تانیثیت (تحقیق و تنقید) ۔ اکرم کُنجاہی
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

اکرم کنجاہی اردو ادب کے ان شہسواروں میں سے ہیں جو تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں ۔ ’’ نسائی ادب اور تانیثیت‘‘ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے نسائی ادب کے حوالے سے معروف شاعرات اور فکشن نگارخواتین کے معاشرتی مسائل سماجی نا انصافی ، رسم و رواج کے نام پر ظلم و زیادتی اور جنسی گھٹن کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ اکرم کنجاہی صاحب کی دو تصانیف ’’دامنِ صَد چاک (شعری مجموعہ)‘‘ اور ’’راغب مُراد آبادی (چند جہتیں ‘‘ پر اظہاریہ لکھ چکا ہوں ، ابھی پیش نظر تصنیف پر اظہاریہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ کنجاہی صاحب نے اپنی تصنیف ’لفظ ، زبان اور ادب (تحقیق و تنقید) اور پھر ’’غزل کہانی‘‘ عنایت فرمائیں ۔ انشا ء اللہ ان کا تعارف بھی جلد پیش کرنے کی سعَی ہوگی ۔

مَیں جناب زیب اذکار حسین جنہوں نے پیش نظر تصنیف کا پیش لفظ بھی تحریر فرمایا ہے کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ’ نظریاتی طور پر ادب کو خانوں میں بانٹا جائے ،خواتین کے ادبی کام کو تفریق کے ساتھ دیکھنے پر تعصب کا گمان گزرتا ہے ‘ ۔ لیکن نسائی ادب کے حوالے سے خواتین تنقید نگاروں کے علاوہ مردتنقید و تحقیق نگاروں نے اسے اپنا موضوع بنایا ہے ۔ تانیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے منزہ احتشام گوندل کہا کہنا ہے کہ ’تانیثیت کا مطلب دنیا کو عورت کی آنکھ سے دیکھنا ، عورت زندگی اوراس کے متعلقات کو کس نظر سے دیکھتی ہے، اس کے نذدیک خیر و شر کے پیمانے کون سے ہیں ، وہ کائینات کا مفہوم کیا لیتی ہے، اس کے نذدیک کامیابی اور ناکامیاں کیا ہیں ‘‘ ۔ اس موضوع پر قیصر جہاں نے ’’اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی، اسی طرح آن لائن ادبی جریدہ ’’دید بان‘‘ نے شمارہ پانچ میں تانیثیت اور نسائی ادب کا خاص نمبر شاءع کیا جس میں اس موضوع پر سیر حاصل مواد فراہم کیا گیا ہے ۔

اکرم کنجاہی صاحب بنیادی طور پر تنقید و تحقیق کے آدمی ہیں ، وہ اس سے قبل بھی اس موضوع پر لکھ چکے ہیں پیش نظر تحقیقی تصنیف میں انہوں نے نثائی ادب اور تانیثیت کو خوبصورتی کے ساتھ تحقیقی نقطہ نظر سے موضوع کو سمیٹنے کی کامیاب کاوش کی ہے ۔ انہوں نے خواتین شاعرات اور فکشن نگاروں کی شخصیت پر روشنی ڈالی ساتھ ہی ان کی تصانیف کو بھی موضوع بنا یا ہے ۔ پہلا موضوع ’نسائی شاعری کا ارتقا ‘ ہے ۔ یہاں مصنف نے نسائی شاعری کے ارتقا کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان میں اردو زبان کی شاعرات کی تعداد بے شمار ہے ۔ 1930ء کے عشرے سے لے کر آج تک جتنی ادبی تحاریک کا آغاز ہوا، یا جتنے ادبی و شعری رجحانات سامنے آئے خواتین اہل قلم نے اُن میں بھر پور حصہ لیا ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ اُن کی تخلیقات میں بھی انسانی جذبات احساسات کی ترجمانی اور تجربات و مشاہدات کا بیان اُتنا ہی بھر پور اور توانا ہے جتنا مرد اہل قلم کی نگارشات میں تو غلط نہیں ہوگا‘‘ ۔ اس تمہید کے بعد انہوں اردو کی معروف شاعرات جیسے اردو شاعری کی خاتون اول ادا جعفری کا ذکر تفصیل سے کیا ہے ، زہرہ نگاہ معروف شاعرہ ہیں ان کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے، پروین فنا سید، کشور ناہید ، فہمیدہ ریاض کی شاعری کو اپنا موضوع بنایا ہے، پروین شاکر، شبنم شکیل، بسمل صابری، یاسمین حمید ، شاہدہ حسن، شہنا ز مزم ،صبیحہ سبا، شاہدہ لطیف، حمیرا رحمان ، فاطمہ حسن، حمیدہ شاہین، ریحانہ روحی، عشرت معین سیما، عنبرین حسیب عنبر اور زیڈ کنول کے فلسفہ شعر کا جائزہ لیا ہے ۔

کتاب کا دوسرا حصہ ’’نسائی فکشن کا ارتقا‘‘ جس میں داستان، ناول اور افسانہ کی اسلوبیاتی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خواتین کے کردار اور نثر کی مختلف اصناف میں خواتین کی تصانیف سے بحث کی ہے ۔ یہاں تقسیم سے پہلے کی ناول نگار خواتین کا ذکر ہے، ساتھ پاکستان میں مقبول ہونے والی افسانہ نگار، ناول نگار خواتین کے بارے میں بھی مواد فراہم کیا گیا ہے ۔ ان خواتین میں اردو کی پہلی ناول نگار نذر سجاد حیدر، پہلی ترقی پسند خاتون ڈاکٹر رشید جہاں ، اردو ادب کی پہلی فکشن نگار خاتون جنہوں نے تحریر آمیزی اور خوف ناکی سے اردو ادب کے قاری کو چونکایا حجاب امتیاز علی، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں ، صالحہ عابد حسین، نثار عزیز بٹ، جمیلہ ہاشمی، سائرہ ہاشمی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، رضیہ فضیح احمد، رشیدہ رضویہ، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، بانو قدسیہ، الطاف فاطمہ، خالدہ حسین، فرخندہ لودھی، بشری رحمن، عذرا اصغر، زاہدہ حنا، زیتون بانو، سیدہ حنا، فہمیدہ اختر، ام عمارہ، شمع خالد، طاہرہ اقبال، نسیم انجم، شاہدہ لطیف، نیلم احمد بشیر، شہناز شورو، شہناز پروین، سی میں کرن، بیگم شاہین زیدی، شبہ طراز، تنویر انور خان، منزہ احتشام گوندل، مسرت افزا روحی، تزئین راز زیدی، تسیم کوثر اور سائمہ نفیس شامل ہیں ۔ کتاب کے آخری دو حصے نسائی شاعری کے حوالے سے مضامین و مقالات اور دوسرے حصہ نسائی فکشن کے حوالے سے مضامین و مقا لات پر مشتمل ہے ۔ مجموعی طور پر نسائی ادب اور تانیثیت کے موضوع پر ایک اعلیٰ اور تحقیقی تصنیف ہے ۔ جن خواتین کا ذکر مصنف نے کیا ہے وہ مواد ان خواتین کا تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوگا ، مستقبل کا محقق اس موضوع پر مفید ، معلوماتی مواد حاصل کرسکے گا ۔ اس کتاب کو تمام کتب خانوں کی ذینت ہونا چاہیے ۔ (یکم ستمبر 2020)


����
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274178 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More