غربت ایمان چھین لیتی ہے۔یہ عالمی مسئلہ ہے۔دنیا سے غربت
کے خاتمے کے لیے مختلف نظام آزمائے گئے،لیکن ناکام ہوئے۔ایسے تجربات سے
غربت جیسا مسئلہ مزید گنجلک اور گھمبیر صورت اختیار کر گیا"مرض بڑھتا گیا
جوں جوں دوا کی "کے مترادف مسائل بڑھ گئے۔
اقوام متحدہ نے بھی عالمی فورم پہ مختلف پروگرام شروع کیے،فنڈز قائم کیے
لیکن مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔کچھ عرصہ پہلے یورپ میں حالات قدرے بہتر تھے
۔ترقی یافتہ ممالک میں معیار زندگی پر شکوہ تھا ۔لوگ ان ممالک میں روزگار
کے سلسلہ میں جاتے تھے لیکن اب ترقی یافتہ ممالک بھی دوسرے ممالک کے لوگوں
سے جان چھڑانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔وہاں بھی اب لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔
دنیا پر پہلے کمیونزم چھایا تو لوگوں کی ملکیت ختم ہوگئی اور ہر چیز مشترک
ہوگئی۔ تمام انسانوں کے صلاحیتوں کو کیسے یکساں کیاجاسکتا ہے؟ ہر انسان میں
علیحدہ خوبیاں ہیں۔سرمایا کمانے کی مہارتیں مختلف ہیں تو سب کو یکساں کیسے
رکھا جاسکتا ہے،سو اس نظام کی بیل بھی مونڈھے نہ چڑھ سکی۔اس کے بعد عالمی
سطح پر سرمایا دارانہ نظام لانچ کیاگیا ۔جس کی بنیاد ہی عالمی اداروں کی
اجارہ داری اور سود پر رکھی گئی۔اس نظام سے سرمایا داروں کو مارکیٹ پر قبضہ
ہوگیا۔دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرگئی اور عالمی ٹھیکیدار جب
چاہتے ہیں اشیاء کی قلت کردیتے ہیں۔اس نظام نے پہلے تو حکومتی ڈھانچوں کو
تباہ برباد کیا ،ملکوں میں انارکی پھیلائی اور جب معیشت کمزور ہوئی تو اپنی
اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ملکوں کو قرضوں میں جکڑ لیا۔غریب غریب تر ہوتا
گیا اور امیر امیر تر ہوتا گیا۔لیکن اب یہ نظام بھی ہچکولے کھا رہاہے۔
نیشنل کمیشن آف پاکستان کے مطابق1998 میں غربت 57.9فیصد تھی ۔بعد میں کم
ہوکر 2015میں 24.5 فیصد رہ گئی تھی۔اب پاکستان میں غربت کی شرح 38.4فیصد
ہے۔
پلاننگ کمیشن نے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام 2015کے سروے کے مطابق رزلٹ
دیا کہ1952 کے بعد پاکستان کی تاریخ میں شرح نمو منفی 1.8 فیصدتک پہنچ گیا
ہے جب کہ منفی2.50 فیصد تک جانے تک جانے کا خطرہ موجود ہے۔قرضوں کا حجم
بڑھے گا،متحدہ عرب امارات،سعودیہ،چین کے قرضوں کی ادائی بھی کرنا ہیں،جو کہ
مشکل ہو رہی ہیں ۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 334کھرب21ارب 10 کروڑ کا
مقروض ہے جس میں سے بیرونی قرضے32 ارب پچاس کروڑ ہیں۔جس کی وجہ سے ٹیکس کی
شرح بڑھائی جائے گی،بجلی،گیس،پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے
۔مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔کوڈ 19کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں میں
اضافہ ہوا ہے۔سروے کے مطابق جنوبی ایشیا چالیس سالہ بدترین مالی
بحران،معاشی تنزلی کا شکار ہوا ہے۔پاکستان میں 65سے 70لاکھ لوگ بے روزگار
ہوچکے ہیں۔مزید ایک کروڑ بیس لاکھ بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔عالمی بنک کے
مطابق بلوچستان کا ضلع وارسک پاکستان کا غریب ترین ضلع ہے جس میں غربت کی
شرح 72.5 فی صد ہے۔خیبر پختونخوا کا ضلع ایبٹ آباد امیر ضلع ہے جس میں غربت
کی شرح 8فیصد ہے۔بلوچستان سب سے غریب صوبہ جہاں غربت کی شرح 42.2 فیصد
ہے۔سندھ میں 34.2 فیصد،کے پی کے میں 27فیصد شرح غربت ہے۔پنجاب میں 25 فیصد
غربت پائی جاتی ہے۔صرف بلوچستان میں بچوں کو غذائی قلت 53فیصد اور کے پی
کے،سندھ، پنجاب میں غذائی قلت38 فیصد ہے۔
اس غربت نے بستے گھر اجاڑ دئیے،مایوس لوگوں نے بچوں سمیت خودکشیاں کر
لیں۔غریبوں کی بیٹیوں کو فروخت کروا دیا۔جن نوجوانوں نے ملک کی باگ ڈور
سنبھالنا تھی وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کا چولہا جلانے کی فکر میں
سرگرداں پھر رہے ہیں۔غربت بھی کتنی ظالم چیز ہے جو عزتوں کو فروخت کروا
دیتی ہے ۔پاپی پیٹ کی خاطر ہمارے نوجوان دھڑا دھڑ ناجائز طریقوں سے بذریعہ
ایران،ترکی یورپ جارہے ہیں۔اپنی جان کی پرواکیے بغیر صحراؤں،دلدلوں،دریاوں
خوف ناک جنگلوں کو عبور کر رہے ہیں۔جرائم میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔عوام
سود پر قرضے لینے پر مجبور ہیں،ملک کے اندر بے شمار مائیکروفنانس بینک کھل
چکے جو عورتوں کو سود پر قرضے دے رہے ہیں۔ملک کی آدھی آبادی خط غربت سے
نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔
اب یہ سوال ملین ڈالر کا ہے کہ پاکستان سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔لنگر خانے
کھولنے،پناہ گاہیں بنانے ریلیف فنڈ سے ایک بار 12000ہزار دینے سے مسئلہ حل
نہیں ہوگا۔
حکومتی سطح پر سود کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔نوجوانوں کو ہنر مند بنانا
ہوگا۔مخیر حضرات،درد دل رکھنے والی این جی اوز کی حوصلہ افزائئ اور سہولت
فراہم کرنا ہوگی۔مہنگائی،ذخیرہ اندوزی ،بے روزگاری کو کنٹرول کرنا
چاہیے۔صنعتوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور کام کرنے کی آزادی دینا چاہیے ۔ہماری
غلط پالیسیوں کی وجہ سے جو صنعتیں ملک چھوڑ گئی ہیں انہیں واپس لانا چاہیے
۔
اسلامی ریاست میں اسلامی نظام زکوٰۃ کو فعال کرنا چاہیے جس سے سرمایہ گردش
میں آئے گا۔جب پیسا مارکیٹ میں آئے گا تو معیشت کا پہیہ چلے گا۔لوگوں کے
میعار زندگی میں بہتری آئے گی۔نظام خیرات،نظام میراث اور نظام اوقاف کو
منظم کرنا چاہیے ۔پاکستان میں تقریباً دس لاکھ ایکڑ اراضی غیر آباد پڑی ہے
جسے آباد کرنے سے پانچ لاکھ خاندانوں کو روزگار میسر ہوگا۔اور حکومت کو دو
سو ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا۔
غربت کے خاتمہ کے لیے طویل مدتی حکمت عملی بنائیں۔نوجوانوں کو ذہنی انتشار
سے بچائیں۔
|