’ ’یوم عاشور ‘‘کی فضیلت سے انکار ممکن نہیں۔نواسہ
رسول حضرت امام حسین ؑ نے اُس روزاپنے 72جانثاروں کے ہمراہ میدان کربلاکی
تپتی زمین پر اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے
اسلامی تاریخ میں ایک ایسی مثال قائم کی کہ جو رہتی دنیا تک راہ ِحق میں
قربان ہونے والوں کیلئے مشعل ِ راہ بن گئی ۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین
ؓ امن کے داعی تھے،آپ ؓ کا اہل خانہ کے ہمراہ کوفہ میں قدم رکھنا اس امر کی
دلیل ہے کہ آپؓ وہاں جنگ و جدل کی نیت سے نہیں آئے تھے بلکہ بعض لوگوں کی
طرف سے بیعت کی درخواست پر تشریف لائے تھے لیکن یزید کے بدنیت ساتھیوں نے
امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ ،آپ ؑکے ساتھ اہل خانہ اور جانثاروں کو
شہید کر ڈالا ۔ یزید یوں نے اہلبیت اطہار کے معصوم بچوں کو بھی معاف نہیں
کیا ،جو اسلامی تاریخ کا المناک و دل خراش سانحہ ہے ۔
ماہ محرم الحرام مسلم اُمہ کے لئے بلا تفریق عقیدہ و مسلک غم وآ ندوہ کا
مہینہ ہے ،اس ماہ مسلم اُمہ امام عالی مقامؑ اور ان کے خانوادوں کی
قربانیوں کو یاد کرتی ہے، حضرت امام حسینؑ کے چاہنے والے ان مٗاب و آلام
پرگریہ و زاری کرتے ہیں ، مجالس عزا ء اور ماتمی جلوسوں کا انعقاد کرتے ہیں
،اپنے پیاروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں تو ان کے ساتھ دیگر مکاتب فکر کے
لوگ بھی اپنے اپنے عقائدکے مطابق آپ ؓ کو سلام پیش کرتے ہیں ۔
14صدیاں قبل واقعہ کربلا پیش آیا،مظلومین کربلا پر ڈھائے جانے والے مظالم
کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کا یارا کس کو تھا۔۔؟ ،کس میں اتنی ہمت و طاقت
تھی کہ وہ ان مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر اسے بیان بھی کر پاتا
،لیکن روایت کے ذریعے پہنچے والے واقعات یقینا روح فرسا اور دل ہلا دینے
والے ضرور ہیں ۔فی زمانہ مسلکی اختلافات قومی المیہ بن چکے ہیں،ہرطبقہ اپنی
سوچ و فکر کے مطابق واقعہ کربلا پیش کرکے اپنے دل کو اطمینان دلا رہا ہے
اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے
لے کرایوبی دور حکومت تک ملک بھر میں تمام مکاتب فکر میں اتفاق و اتحاد ،
اخوت و بھائی چارے کا ماحول میسر تھا اور ماہ محرم کے دوران اس پراور زیادہ
عمل کیا جاتا تھا، ماہ محرم میں مجالس عزاء اور ماتمی جلوسوں کیلئے
انتظامیہ سے اجازت نامہ (لائسنس)لینا لازم تھا ،مجالس عزاء برپا ہوتیں یا
جلوس نکلتے تو ان میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جاتی ، حقیقت تو یہ
ہے کہ جلوس کے راستوں کے ساتھ ساتھ اور بالکونیوں پرہر مکتب فکر کی خواتین
و حضرات ،بچے بوڑھے او ر جوان موجود رہتے ، انتشار و نفاق کی بجائے محبتوں
بھرا ماحول ہوتا ، اہلسنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے احباب جلوسوں کے
راستوں میں سبیلیں لگاتے اور لنگر تقسیم کرتے نظر آتے ۔ لیکن ہماری بدقسمتی
کہ مذہبی اور لسانی تعصبات کو ہوادی گئی ۔ملک میں امن و آشتی کے پھول
کھلانے کی بجائے بعض علمائے کرام نے ’’فتویٰ بازی‘‘ کو اپنا شعار بنا لیا ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر دوسرا عالم فاضل شخص اپنے تئیں خود کو فلاسفر
سمجھ کر مخالفین کو ’’گالی ‘‘ دینے لگا، تکفیر کے فتوے عام ہونے لگے ۔منبر
رسولؐ کو اصلاح ملت کی بجائے تفرقہ بازی کے لئے استعمال کیا جانے لگا ۔گویا
ان عاقبت نا اندیش لوگوں نے ملک کو مذہبی تفرقہ بازی کی آگ میں جھونک دیا
۔ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔مجالس کے انعقاد اور
جلوسوں کے روٹس پر اعتراض معمول بنا گیا۔کسی کی مذہبی آزادی سلب کرنے
کاکوئی جواز نہیں بنتا ۔پاکستان میں انتشار و نفاق کا سبب محض’’ مسلکی
اختلاف ‘‘ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں تعصب کی بنیادپر صرف مسلمانوں
کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اپنے اپنے نظریات ہیں ، ہر فرقہ اپنی
جگہ مسلمان کہلانے کا دعویدار ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے سوا کسی
دوسرے کو مسلمان سمجھنے کو تیار نہیں، پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ،
آئین پاکستان میں اقلیتوں کو بھی ہر ممکن حقوق حاصل ہیں ۔لیکن ہم تو
اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق دینے پر تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتشار و نفاق
نے ملک کا امن تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار
کر رکھا ہے اورہماری اس سوچ و فکر کا فائدہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھا رہا
ہے ۔ اتحاد بین المسلیمین کا پیغام عام کرناوقت کی اہم ضرورت بن چکا ۔کسی
کو اپنے دین کی فکرہے اور نہ ہی اپنے نظریات میں بہتری لانے پر دھیان ۔ ایک
خدا اور رسول ؐکے ماننے والوں کے اعمال اسلامی تعلیمات سے مطابقت ہی نہیں
رکھتے ۔
بیشک ! ہم امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ سے محبت کا دم بھرتے ہیں مگرہم
میں کردار حسینیؓ نظر نہیں آتا ، امام عالی مقام ؑ نے حق کیلئے ڈٹ جانے کا
درس دیا لیکن ہم یزیدی قوتوں کے آلہ کار بن کر دین اسلام کے ابدی پیغام تک
کو بھلا چکے ہیں ۔محرم الحرام کا یہ مقدس مہینہ ہمیں باہمی اخوت، رواداری
اور اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہے ۔آج کا دن اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم
اپنے مسلک پر ثابت قدم رہیں اور دوسروں کے عقائدپر تنقید سے گریز کریں
کیونکہ مذاہب عالم میں دیگر اقوام کے مذہبی عقائد پر تنقید کا درس نہیں دیا
جاتا ۔ مذہبی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ،کسی کوکسی کی مذہبی آزادی
سلب کرنے کا حق حاصل نہیں،’’’یوم عاشور ‘‘ حقیقی معنوں میں مظلومین ِکربلا
سے منسوب ایسا دن ہے کہ جب اُمہ آپؓ کی یاد مناتے ہوئے آپؓ کے مشن کو جاری
و ساری رکھنے کا عہد کرتی ے ۔
’’یوم عاشور ‘‘ پر ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں ۔آج ہمیں
عبادات کیلئے بھی سخت سیکورٹی حصار کی ضرورت پیش آ نے لگی ہے ۔؟اس میں کوئی
شک نہیں کہ مذہب کے نام پرکشیدگی کی فضا ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہے ۔المیہ
یہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں دنیا بھر میں مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ
بنا رہی جبکہ ہم ایک دوسرے کے دست و گریباں ہورہے ہیں۔عدم برداشت کی وجہ سے
اختلافات میں شدت اور ماحول میں گرمی پیدا ہورہی ہے ۔ اس لئے ہماری تمام
اہل اسلام سے درخواست ہے کہ وہ مسلکی اختلافات کوبھلاکر اخوت و محبت کی فضا
پیدا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ وطن عزیز امن کا گہوارا بنے
اور ہمارا کردار دیگر اقوام کے لئے باعث تقلید ہو۔دُعا ہے کہ امسال بھی یوم
عاشور اور سارا ماہ محرم امن و سلامتی کے ساتھ گذرے اور ملک بھر میں کوئی
ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے ۔اﷲ ہم سب کاحامی وناصر ہو ۔
|