تجھے کس طرح بتائوں، تیری سوچ ہی عجب ہے
تیری اس طرح کی حالت، تیرے خوف کے سبب ہے
(سیّد عالمؔ شاہ)
وہ اپنے گھر میں معمول کا کام انجام دے رہی ہوتی ہے کہ اچانک دروازے پر
دستک ہوئی، وہ دروازہ کھولتی ہے اور یہ دیکھ کر انتہاتی خوش ہوتی ہے کہ
دروازے پر اسکی پڑوسن کھڑی ہیں، جو برابر والے فلیٹ میں ہی رہتی ہیں اور
جنکے کچن کی کھڑکی اسکے کچن کی جانب کھلتی ہے اور وہ آپس میں اکثر ان
کھڑکیوں کے زریعے سے ہی تبادلہ خیال کیا کرتی ہیں۔۔۔۔ بحرحال، وہ خوش ہوتی
ہے، پڑوسن کو بیٹھنے کا کہتی ہے اور وہ ان سے باتیں کرنا شروع کردیتی ہے
لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسکی پڑوسن اس کے کسی بات کا جواب نہیں دے رہی ،
اسے تشویش ہوتی ہے اور جب وہ اپنی پڑوسن سے اسکی وجہ دریافت کرتی ہے تو وہ
اس سے خفا ہوجاتی ہیں جس پر وہ بہت پریشان ہوتی ہے اور پھر اپنی پڑوسن کو
منانے کے لئے جیسے ہی انکے قریب جاتی ہے اسکی پڑوسن کی آنکھیں سُرخ ہونا
شروع ہوجاتی ہیں، دانت بڑے بڑے اور نوکیلے ہوجاتے ہیں اور آواز بھیانک ہو
جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر وہ ڈر جاتی ہے ، وہ اپنی جان بچانےکے لئے دوڑ لگانا
شروع کردیتی ہے۔ وہ آگے آگے ہوتی ہے اور اسکی پڑوسن اسکے پیچھے پیچھے
۔۔۔اتنے میں اسکی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ دل اب بھی تیز تیز دھڑک رہا ہوتا
ہے ، پسنے بہہ رہے ہوتے ہیں پر وہ روتے ہوئے شکر ادا کر رہی ہوتی ہے کہ
اچھا ہوا یہ ایک خواب تھا۔!!!
یہ او ر اس جیسے کئی خواب ہم اپنی اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں اور خوف زدہ
بھی ہوجاتے ہیں ۔ نہ صرف خواب بلکہ ہم اپنی حقیقی زندگی میں بھی کسی شخص ،
جگہ ، چیز یا واقعات سے خوف کھاتے ہیں اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں خوف ایک
ایسا ذہنی رویہّ ہے جو ہر انسان میں کم و بیش لازمی پایا جاتا ہے یہ نہ صرف
انسانوں میں بلکہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ خوف کی کیفیت اس وقت پیدا
ہوتی ہے جب ہمیں کسی بھی قسم کےنقصان کا اندیشہ ہو۔
دماغ ایک گہرا پیچیدہ عضو ہے یہ 100 بلین سے زیادہ اعصابی خلیات مواصلات کے
ایک پیچیدہ نیٹ ورک پر مشتمل ہے اور سوچنے سمجھنے کا نقطہ آغاز بھی دماغ
ہی ہے ۔ ہمارا تقریباً عمل شعوری طور پر ہوتا ہے لیکن ہم کچھ لاشعوری اعمال
بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں ، خوف کا عمل بھی لاشعوری ہے۔ ایڈرینال گلینڈ دو
خوف کے ہارمونز پیدا کرتا ہے۔۔۔ایڈرینالین اور کورٹیسول۔ یہ ہارمونز خون کے
دھارے میں آپ کے جسم کے تمام حصوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ ... جس کے سبب دل
کی شرح رفتار بڑھ جاتی ہے ، سانس لینے کا عمل تیزہو جاتا ہے وغیرہ۔ اس قسم
کے اثرات خوفزدہ شخص میں با آسانی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔
علامات:
خوف ایک ایسا عمل ہے جسکے نا صرف اندرونی اثرات ہوتے ہیں بلکہ بیرونی جسم
پر بھی اسکے علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا جو
شخص کسی وجہ سے خوف ذدہ ہو جاتا ہے اسکی سانس لینے کی شرح میں اضافہ ہوتا
ہے، آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،
پسینے آتے ہیں اور اگر دماغ پر خوف کا غلبہ بہت ہی ذیادہ ہو ایسی حالت میں
، کپکپی تاری ہو جاتی ہے ، دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے ، دل تیز تیز
ڈھڑکنے لگ جاتا ہے شدید ترین خوف کی صورت میں برین ہمرج اور ہارٹ اٹیک ہونے
تک کے خطرات بڑھ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ خوف کی وجہ سے جسم جو رد عمل ظاہر
کرتا ہے اسے "فائٹ یا فلائٹ" کا ردعمل کہا جاتا ہے۔
خوف ہماری ماضی کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے اور مستقبل
کے اندیکھے معاملات یا اندیشوں کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتا ہے اس سے مراد
یہ ہے کہ وہ کام جو ہم نے اب تک کیا ہی نہیں اس کام کو مستقبل میں انجام
دینے کا خوف۔ ہمارے اندر اس قسم کا خوف عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہمیں
ان معاملات کا تجربہ یا مشاہدہ نہ ہو یعنی اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ
معاملہ کیسے انجام پائے گا اور اُسکے کیا کیا نتائج برامد ہونگے۔ ماضی کے
تلخ تجربات کا خوف وہ خوف او ر ڈر ہے جس کی بنیاد ماضی میں پیش آنے والے
واقعات پر ہے مثلاً اگر کسی شخص کا کسی شاہراہ پر موٹر بائک چلاتے ہوئے خدا
نا خواستہ حادثہ پیش آتا ہے جس میں اسے چوٹیں آتی ہیں اس واقع سے وہ خوف
زدہ ہوجاتا ہے وہ نہ صرف موٹر بائک کی سواری سے خوف زدہ ہوتا ہے بلکہ اس
جگہ سے بھی خوف کھانے لگ جائے گا جس شاہراہ پر اسکا حادثہ ہوا تھا ۔
اقسام
خوف کی کئی قسمیں ہیں ماہرین ان تمام اقسام میں دو یا تین قسموں کو بنیادی
ترین قسم قرار دیتے ہیں جو عمو ماً پیدائشی طور پر ہی ہوتے ہیں یعنی ہر
پیدا ہونے والا بچہ خوف کی تین قسمیں لے کر پیدا ہوتا ہے اور وہ تین قسمیں
یہ ہیں ۔۔تیز آواز کا خوف، گرنے کا خوف اور اجنبی چہرے کا خوف۔لیکن جوں
جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اورکئی قسم کے خوف اسکی
شخصیت کا حصہ بننے لگتے ہیں جیسے:
بیمار ہونے کا خوف (1
نقطہ چینی کا خوف (2
غربت کا خوف (3
کسی کا ساتھ چھوڑ جانے کا خوف (4
بڑھاپے کا خوف (5
مرنے کا خوف (6
نقصانات و فوائد
خوف ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے اور قلبی نقصان کا باعث بنتا ہے ،
معدے کی پریشانیوں میں مبتلا کرتا ہے جیسے السر اور زرخیزی میں کمی کا سبب
بن سکتا ہے۔ یہ تیزی سے بڑھاپے کی طرف لے جاتا ہے اور یہاں تک کہ قبل از
وقت موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔خوف کے سبب ہمارا دل کسی کام میں نہیں لگتا
ہم مستقبل کے اندیشوں میں کھونے لگتے ہیں ، سستی اور کاہلی طاری ہوجاتی ہے
دل بجھا بجھا اور مایوس رہنے لگتا ہے ہر وقت بے چینی لگتی ہے چونکہ ہمارا
دل کسی کام میں نہیں لگتا اور نہ کسی سے ملنے جلنے کا جی کرتا ہے لہٰذا
ہماری جسمانی صحت تو ایک طرف برباد ہو ہی رہی ہوتی ہے ہماری معاشرتی اور
معاشی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔
جس طرح غصّہ اور انا اگر صحیح سمت میں اور صحیح وقت پر ہوں تو وہ فائدہ
دیتیں ہیں اسی طرح خوف بھی ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ قدرت نے خوف کا
عمل اس لئے بھی رکھا ہے کہ ہم آنے والی مصیبتوں سے پہلے ہی خبردار ہوجائیں
یعنی آپ خوف اور ڈر کو ہماری زندگی کا الارم سسٹم کہہ سکتے ہیں ۔ خوف ہمیں
بہت ساری پریشانیوں سے بچاتا بھی ہے اور ہماری زندگی کو آنے والے خطرات کے
پیش ِ نظر ہمارے دماغ کو سگنل دینے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ خوف یا ڈر
مکمل طور پر منفی نہیں کچھ خوف کا ہونا ہماری اس زندگی اور آنے والی زندگی
کے لئے ضروری ہے جیسے خوف ِ خدا ، ریاستی قوانین اور جہاں ہم کام کرکے
معاشی فوئد حاصل کرتے ہیں انکے قوانین کے توڑنے اور اسکے نتیجے میں سزا کا
خوف وٖغیرہ وغیرہ۔
تدراک
لسٹ بنائیں، وجوہات تحریرکریں
آپ اپنی زندگی میں جس جس شخص، جگہ ، چیز یا عمل سے خوف کھاتے ہیں سب سے
پہلے انکی ایک لسٹ بنائیں۔ اگر ایک ہی نشت میں وہ لسٹ نہ بنا پائیں تو کوئی
بات نہیں اس کےلئے آ پ اپنے آپ کو تھوڑا سا وقت دیں اور جب بھی کسی خوف
کا خیال آئے آپ اس لسٹ کو اپڈیٹ کرتے جائیں، ایک ڈیرہ ہفتے بعد آپ
تقریباً ایک مکمل لسٹ تیار کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔ کہتے ہیں ہر بات
کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو تی ہے۔لہٰذا اس لسٹ میں ہر خوف کی وجہ یا
وجوہات درج کرتے جائیں۔ لسٹ بنانے سے آپکو اپنے خوف کے بارے میں تفصیلاً
آگاہی حاصل ہوجائے گی کہ آپ فلاں چیز، شخص، جگہ یا عمل سے خوف کھاتے ہیں
اورانکی وجوہات یہ یہ ہیں۔
یہ مشق کریں
آپ جس شخص ، جگہ ، چیز یا عمل سے خوف کھاتے ہیں اپنے خیالات میں لائیں ۔
مثلاً اگر آپ کسی شخص سے خوف کھاتے ہیں تو اسے اپنے خیالات میں لائیں اس
سے باتیں کریں اس سے ہنسی مذاق کریں۔ آپ یوں بھی کر سکتے ہیں کہ اس شخص کو
اپنے خیلات میں لائیں پھر یوںمحسوس کریں کہ وہ جسامت میں آہستہ آہستہ
چھوٹا ہوتا جارہا ہے اسکی آواز ایک کارٹون کردار کی طرح ہوتی جارہی ہے اور
اب وہ خود بھی ایک کارٹون کردار میں بدل گیا ہے جیسے مکی مائوس یا ڈونلڈ ڈک
وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کرنے سے اس شخص کی ہیبت اور خوف جو آپ پر طاری ہے اس
میں آہستہ آہستہ کمی آنا شروع ہوجائگی ۔
تصویری عمل
اس ٹیکنیک میں ہم جس شخص ، جگہ یا چیز سے خوف کھاتے ہٰیں ، اسکی ایک تصویر
دیوار پر ایسی جگہ لگاتے ہیں جس پر ہماری نگاہ بار بار پڑے ۔ آپ جب بھی اس
تصویر کی جانب دیکھیں تو یہ کہیں کہ میں تم سے نہیں ڈرتی / نہیں ڈرتا ہوں۔
ریورس ایموشن ٹیکنیک
ریورس ایموشن ٹیکنیک میں ہم اپنے جذ بات ، خیالات اور احساسات کو بالکل ہی
مخالف سمت میں سفر کرواتے ہیں جیسے اگر ہمیں کسی بات پر بہت ہی ذیادہ غصّہ
آرہا ہو یا ہم بہت ذیادہ دکھ اور غم محسوس کررہے ہوں تو عین اسی وقت ہم
اپنے خیالات کو اپنی ذندگی میں پیش آنے والے اس واقعے کی جانب موڑنا شروع
کردیتے ہیں جس میں ہم بہت خوش تھے جیسے کسی شادی بیاہ کی تقریبات، پکنک
پارٹی یا جاب پروموشن کے موقع پر حاصل ہونے والی خوشی کے لمحات وغیرہ۔ اسی
طرح جب بھی آپ کو کسی چیز سے ڈر لگے آپ اپنے خیالات کا رخ ان لمحات کی
جانب موڑ لیں جس میں آپ نے اپنی ہمت اور محنت سے کوئی بڑا کارنامہ انجام
دیا تھا۔
کنسنٹریشن ڈائوارٹ ٹیکنیک
یہ ریورس ایموشن ہی کی طرح کی ایک ٹیکنیک ہے اس ٹیکنیک میں ہم اپنے خیالات
سے چھٹکارا پانے کےلئے اپنی کنسنٹریشن کو کسی دوسرے کام کی جانب موڑ لیتے
ہیں ۔ یہ ٹیکنیک اس وقت زیادہ کارگرثابت ہوتی ہے جب ہم اپنے خیالات سے
چھٹکارا پانے کےلئے کسی ایسے کام کی جانب متوجہ ہوتے ہٰیں جس میں زہنی
اکٹیویٹی کے ساتھ ساتھ جسمانی اکٹیویٹی بھی شامل ہوں۔
لہٰذا، جب بھی ہمارے زہن میں خوف کے خیا لات آ ئیں ، ہم فوراً کسی ایسے ہی
کام میں لگ جائیں جو ہمارے خیالات کے رخ کو موڑنے کا سبب بنے۔
|