مسلم حکمرانی کا آغاز در اصل ہجرت مدینہ سے شروع ہوتا ہے.
کیونکہ مدینہ منورہ کے تمام سرداروں نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت قبول کرلی تھی اور اس لئے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مکہ
سے مدینہ ہجرت کرنے کا حکم فرمایا. یوں مدینہ منورہ میں نبی کریم صل اللہ
علیہ وسلم کی رہنمائی میں مسلمانوں کی باضابطہ حکمرانی قائم ہوئی. جو کہ
فتح مکہ کے بعد مزید مستحکم ہوگئی تھی. اس دوران خیبر کو بھی فتح کرکے
یہودیوں کو نمایاں شکست سے دوچار کیا گیا. گو کہ عہد نبوی صل اللہ علیہ
وسلم میں مضبوط مسلم ریاست کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا تھا . جس کا مقصد ساری
دنیا میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانا تھا. نیز اس
پیغام کی روشنی میں اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا.
آپ صل اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو متفقہ طور پر دین اسلام کا پہلا خلیفہ نامزد کیا. جن کی خلافت
میں ریاست کے اندر موجود مسائل کا حل نکالا گیا اور اندرونی بغاوتوں کا قلع
قمع کیا گیا. گو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت نے خلافت
راشدہ کی بنیاد ڈال دی. آپ ہی کی خلافت میں جب قرآن کے حافظوں کو شہید ہوتے
دیکھا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے قرآن مجید
کو ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کیا گیا . آپ ہی کے دور خلافت میں ریاست کو
توسیع دینے کے لئے مختلف صحابہ کے دستوں کو مہم سازی کے لئے روانہ بھی کیا
گیا تھا . حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کی وفات کے بعد عوام کی متفقہ منظوری
سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ دوئم نامزد کردیا گیا تھا . آپ رضی اللہ
عنہ کا دور خلافت عدل و انصاف کے حوالے سے مشہور ہے. آپ کے دور میں خلافت
کو کافی وسعت بھی حاصل ہوئی اور عراق، ایران، مصر، شام جیسے علاقے خلافت
میں شامل ہوگئے تھے . آپ کی شہادت کے بعد آپ ہی کی بنائی ہوئی چھ رکنی
کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تیسرا خلیفہ نامزد کیا تھا . حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت قرآن کی ترقی و خوشحالی کا دور تھا. آپ ہی
کے دور میں اندوری فتنے دوبارہ جنم لینے لگے تھے. بعدازاں یہی بغاوت آپ رضی
اللہ عنہ کی شہادت کا ذریعہ بن گئی تھی . یہ بھی دکھ بھرا قصہ ہے جو کہ چند
الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا . اس لئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور بات کرتے
ہیں خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
کی شہادت کے بعد خلیفہ نامزد کیے گئے تھے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ریاست میں موجود فتنوں کو ختم کرنے میں ہی زیادہ
وقت گزارا تھا . نیز آپ کے دور خلافت میں ہی جنگ جبل اور جنگ صفین لڑی گئیں
تھی . جس میں صحابہ کرام ایک دوسرے کے خلاف میدان میں موجود تھے. حضرت علی
رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی . کیونکہ
کوفہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرکز تھا. وہاں کے لوگوں نے حضرت حسن
رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں بیعت کرلی تھی. جبکہ شام کے لوگوں نے حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بیعت کی تھی. لیکن علماء اور اکابرین حضرت
حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی خلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں. جو کہ
محض چھ ماہ کا عرصہ بنتا ہے. آپ کی چھ ماہ قائم خلافت کو شامل کرکے ہی
خلافت راشدہ کے تیس سال مکمل ہوتے ہیں. اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے
اندوری انتشار سے بچنے کے لئے اور امت مسلمہ کے خون بہنے کے خدشات کے باعث
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت قبول کرلی تھی . گو کہ چند شرائط کے
ساتھ یہ بیعت قبول کی گئی تھی.
لیکن اس کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور حکمرانی ملوکیت ہی
شمار کیا جاتا ہے. یقیناً یہ ملوکیت ہی تھی کہ جس نے بنو امیہ جیسی ملوکیت
کی بنیاد رکھی تھی . یوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبردار ہونے
کے بعد خلافت راشدہ بھی ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تھی . گویا کہ خلافت راشدہ
کا عظیم الشان دور اختتام پذیر ہوگیا تھا. خلافت راشدہ کے بعد اسلام تو
مضبوط نہ ہوا. لیکن مسلمانوں کی حکمرانی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی. یعنی
کہ بنو امیہ کے دور میں ملوکیت کے زیر سایہ علاقوں میں وسعت آتی گئی.
بنو امیہ جس کے جد امجد صحابئ رسول صل اللہ علیہ وسلم، حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ تھے. لیکن ان کے بعد تیرہ خلیفہ مزید آئے تھے . جن میں یزید
بن معاویہ، معاویہ بن یزید، مروان بن حکم، عبدالملک بن مروان، ولید بن
عبدالملک ، سلیمان بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز رح، یزید بن عبدالملک،
ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید، یزید بن ولید، ابراہیم بن ولید، اور آخری
خلیفہ مروان بن محمد شامل ہے. یوں ان چودہ خلفاء نے دور بنو امیہ کو مکمل
کیا تھا.
بنو امیہ کے خلفاء اپنی خلافت کو خلافت راشدہ ہی کہتے تھے اور رسم و رواج
بھی وہی قائم رکھے ہوئے تھے. یعنی خلیفہ کی بیعت جو کہ خلافت راشدہ سے چلی
آرہی رسم تھی ملوکیت بنو امیہ میں بھی قائم رہی تھی . لیکن بنو امیہ نے اس
رسم کو قائم تو رکھا لیکن اس کا طریقہ کار تبدیل کردیا تھا . یعنی کہ خلافت
ملوکیت میں تبدیل کردی تھی اور جمہوریت کو موروثیت سے ختم کردیا تھا . نیز
جو بیعت عوام کی باہمی رضامندی سے لی جاتی تھی. اب وہ تلوار کے زور پر لی
جانے لگی تھی. نیز یہ کہ دولت کے خزانے جو کہ عوام کا حق تھا اس کو ذاتی
عیش و عشرت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا. لیکن اس دور میں مسلم
حکمرانی کو بہت عروج حاصل ہوا اور اب اس حکمرانی کی سرحدیں اسپین سے لیکر
برصغیر کے کچھ علاقوں تک یعنی موجودہ پاکستان تک پھیل چکی تھیں. یہ تو میں
نے چیدہ چیدہ دور بنو امیہ کے حالات و واقعات کا ذکر کیا ہے.
آپ نے وہ ضرب المثل تو سنی ہوگی کہ ہر عروج کو زوال ہے. اس ہی کے مصداق بنو
امیہ کو بھی ننانوے سال عروج پر رہنے کے بعد زوال کا سامنا کرنا پڑا تھا .
نیز یہ زوال صرف بنو امیہ کو ہی پیش آیا تھا . کیونکہ دوسری طرف جو ملوکیت
عروج پر آرہی تھی وہ بھی مسلمان ہی تھی. لہٰذا اس لحاظ سے صرف عہد بنو امیہ
کا خاتمہ ہوا تھا. جبکہ مسلم حکمرانی تو اب بھی قائم تھی. بس ملوکیت بدلی
تھی. یعنی کہ ملوکیت بنو امیہ کو ملوکیت بنو عباس نے اپنے زیر سایہ کرلیا
تھا. مسلم حکمرانی کے عروج و زوال کی یہ کہانی ابھی جاری ہے.
تحریر : ہمایوں شاہد
|