جسکا دل ہم نے توڑا تھا،، وہ جانے کیسا پوگا

آج کسی نے دل توڑا، تو ہم کو جیسے دھیان آیا
جسکا دل ہم نے توڑا تھا،، وہ جانے کیسا پوگا

وہ دونوں کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک بسمہ نے سگریٹ سلگایا اور سلگانے کے بعد اس نے ایک موضوع چھیڑدیا، کہ یہ پیار محبت حقیقت میں نہیں ہوتا۔یہ صرف قصے، کہانیوں اور افسانوں میں ہوتا ہے۔علی نے جواب دیا کہ یہ پیار محبت عشق سچ میں ہوتا ہے، یہ لیلی مجنوں شیریں فرہاد رومیو جولیٹ کے افسانے یونہی نہیں بن گئے۔ان کرداروں میں حقیقت ہوتی ہے لکھاری ہمئشہ حقیقی کرداروں سے متاثر ہو کر ناول، کہانیاں اور افسانے لکھتے ہیں
ہو ضد تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
میی نے جواب دیا کہ دیکھو بسمہ تم مجھے چلنج نہ کرو مجھے ہارنے کی عادت نہیں ۔ کسی نہ کسی دن تم کسی کی محبت میں گرفتار ہو جاوگئ،پھر میرے پاس آوگی اور میں تمھاری مدد نہیں کروں گا۔
جاڑے کا موسم تھا گھمسان کی سردی تھی، ہلکی ہلکی برف گھاس پر جمی دور تک نظر آرہی تھی اور صبح 9 بجے کا ٹائم تھا۔
علی ڈائیوو میں بیٹھا اسلام آباد کی طرف محوسفر تھا۔سارا راستہ وہ یہی سوچتا رہا کہ وہ کیسی ہوگی، اس کا مزاج کیسا ہوگا،فون اور ایم ایس این پر اکثر ان کی باتیں ہوا کرتی تھیں مختلف موضوعات پر۔ اس لیے وہ بہت زیادہ ایکسآیٹڈ تھا کہ میری وہ دوست جس کو میں تین سال سے جانتا ہوں لیکن میں نے اسے دیکھا نہیں ہے ، اور میں پہلی مرتبہ اس کو دیکھنے جا رہا ہوں۔ کیسی دکھتی ہوگی۔یہ جزبہ ہی الگ ہوتا ہے، جسے الفاظ میں پیرونا ممکن نہیں۔
فیض آباد انٹر چینج پر اترنے کے بعد اس نے ٹیکسی کروائی اور ایچ ایٹ جا پہنچا۔ جہاں پہ کامسیٹس کا پوسٹل تھا، سامنے زیرتعمیر مسجد لور یونیورسٹی تھی۔ طیبہ نے اسے ایچ ای سی والی گلی میں بلایا تھا۔وہ اس مقام پر پہنچا تو وہاں کافی لڑکے لڑکیاں کھڑے تھے، باتیں کر رہے تھے، گروپس بنے ہوئے تھے ۔ کچھ منچلے گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور اونچی آواز میں میوزک سن رہے تھے ۔
علی کو اسے پہچاننے میں مشکل ہورہی تھی،اس نے اپنی دوست کو پھر فون کیا، اور اردگرد نظر دوڑائی تو اسے ایک خوبصورت سی لڑکی جس کا رنگ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا فٹ پاتھ پہ بیٹھی دکھائی دی۔اس لڑکی نے اپنی فائل بغل میں دبا رکھی تھی۔ علی نے پھر فون کیا اور فون کر کے پوچھا یار تم کہاں پر ہو میں کب سے ادھر کھڑا ہوں۔
اچانک پیچھے سے آواز آئی میں یہاں پر ہوں اور جب اس نے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ کوئی اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔
یہ ان کی پہلی ملاقات تھی اور پھر ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا۔
وہ لڑکا ہر دوسرے دن کالج بنک کرکے ڈائیوو کے ذریعے اسلام آباد پہنچ جاتاا تھا، جہاں وہ اس کے ساتھ بیٹھ کے گھنٹوں باتیں کرتا تھا اور شام کو واپس لاہور آ جاتا تھا۔وہ دونوں اسلام آباد کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ریتے، ایک ایک سڑک، ہر ایونیو انہوں نے ایک ساتھ پیدل چلتے ہوئے چھان مارا۔ ہزاروں باتیں کیں، نہیں لاکھوں باتیں کیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ جن کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ان دونوں کی آپس میں ذہنی ہم آہنگی کمال کی تھی۔
پھر ایک دن کی بسمے کا فون آیا، یہ اس کی بچپن کی دوست تھیں جس کے گھر کبھی وہ کیلکولیٹر دینے جایا کرتا تھا تو کبھی اس کے گھر ملنے جاتا تھا۔ اس کی بہن بھی اس کی دوست تھی اور بھائی بھی بہترین دوست تھا، اور یہ دوستی بے مثال تھی۔
ایم ایس این میسنجر سے پروان چڑھنے والی دوستی نہ جانے کب محبت میں بدلی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
وی پیپر کی تیاری کر رہا تھا ک جب بسمہ کا فون آیا ہے، کال اٹھانے کی دیر تھی کہ وہ بولی ،کہاں پر ہو؟جہاں بھی ہو، فورا میری طرف آو۔
علی نے جواب دیا کہ یار میں گھر میں ہوں پیپر ہو رہے ہیں کل میتھمیٹکس کا پیپر ہے تیاری کر رہا ہوں تو میں اس وقت نہیں آ سکتا۔ وہ لڑکی بضد تھی کہ ابھی میرے گھر آؤ مجھے ضروری کام ہے۔
علی نے جواب دیا کہ اس وقت رات کے بارہ بجے ہیں اور تم کوئی کوئی حور پری نہیں ہو، جس کے لئے میں اس وقت آوں۔
یہ سننا تھا کہ سیدھا مدعے پہ آئی اور اس نے کہا کہ علی آے ایم ان لو ود یو۔ یہ سننا تھا کہ علی کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔
اس کو اس رات احساس ہوا کہ وہ لڑکی جو تین سو کلومیٹر دور اسلام آباد میں رہتی ہے، اس سے اسے محبت ہے اور اس لڑکی سے محبت نہیں جس کے ساتھ اس کا سارا بچپن گزرا ہے،
جو انتہائی درجے کی خوبصورت ہے اور اس کی بہترین دوست بھی ہے۔
وہ اس کشمکش میں کا شکار ہو گیا کہ اب میں اس کو کیا جواب دوں۔ مجھے تو اس سے محبت ہے جو تین سو تین میل دور رہتی ہے۔
علی نے موبائل آن کیا، بسمہ کو فون ملایا اور اس کی بات سنے بغیر گویا ہوا کہ دیکھو یار، تین سال پہلے تم نے کہا تھا کہ پیار محبت کچھ نہیں ہوتا اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے چیلنج نہ کرو مجھے ہارنے کی عادت نہیں ہے۔ آج میں چیلنج جیت چکا ہوں۔ "اللہ حافظ"
اس واقعے کے بعد ایک بار پھر ان سے ملاقات ہوئی، بسمہ کی آنکھیں جیسے صدیوں سے رو رہی ہو۔ اس کے چہرے پہ لکیریں بن گئی تھیں آنسوؤں کے گرنے کی وجہ سے۔ وہ اک دوسرے سے لپٹ کے رونا شروع ہوگئے۔
بسمہعلی کو قائل کرنے کے لئے ہر جتن کرچکی تھی،یہ تک کہہ گئی کہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے، باہر جا کے سیٹل ہو جائیں گے۔ علی نے جواب دیا کہ شادی کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، تم کہتی ہو میں تم سے شادی کر لیتا ہوں لیکن میں تمہیں خوش نہیں رکھ پاؤں گا، کیونکہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد علی نے اس سے سوال کیا،'تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟'
اس نے کہا 'کرتی ہوں'
'میری خوشی تمہاری خوشی ہے؟'
جواب آیا 'ہاں'
'تمہاری خوشی میں میری خوشی ہے تو سن لو کہ میری خوشی طیبہ میں ہے۔'
اس کے بعد اس نے چپ سادھ لی۔ اس کا جسم ساکت ہو چکا تھا جیسے کسی ماہر معمر کا تراشا ہوا بت۔
وہ چلی گئی۔
تین سال بعد جب طیبہ کی منگنی ہوئی تو اس کے گھر کے باہر مندرا میں، جس ریلوے اسٹیشن پر ریل کار بھی نہیں رکھتی تھی۔ علی اس ریلوے اسٹیشن پہ تین دن اور تین راتیں سوٹ بوٹ میں لیپ ٹاپ کندھے سے لٹکاے طیبہ کو فون کرکے منانے کی کوشش کرتا رہا۔
طیبہ نے آخر میں کہا "مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری خوشی میری خوشی میں ہے نا"
میں نے جواب دیا"ہاں میری خوشی تمہاری خوشی میں ہے"۔
وہ بولی"تو سن لو، میری خوشی عبید میں ہے"۔
اس بات سے یہ ثابت ہوگیا ک محبت سزا ضرور دیتی ہے۔
محبت کو ٹھکرانے والے کو سزا ضرور ملتی ہے نے بنایا گیا آل محبت کی قدر نہ کرنے والے کو محبت سزا ضرور دیتی ہے۔
آج اسے بسمہ یاد آئی جسکی محبت کو اسنے ٹھکرایا تھا۔
آج کسی نے دل توڑا تو ہم کو جیسے دھیان آیا
جس کا دل ہم نے توڑا تھا وہ جانے کیسا ہوگا
 

Adeel
About the Author: Adeel Read More Articles by Adeel: 5 Articles with 6563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.