پاک بھارت جنگ کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ہر پاکستانی کا
سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ،یہ وہ جنگ ہے جس نے پاکستان کے وجود کو نہ صرف
دنیا سے منوایا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ جنگ بدر کی طرح تعداد میں کم اور بے
وسائلی کے باوجود اپنے سے دس گنا ہ بڑی فوج کو بھی شکست دی جا سکتی ہے ۔کہا
تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان ، بھارت کی ایک ریاست کے برابر بھی نہیں ہے لیکن
73سالوں سے پاکستان ،بھارت کے لیے ہر جگہ لوھے کا چنا ثابت ہوا۔میری نظر
میں اس کی وجہ شاید رب کریم کا وہ فضل وکرم اور نبی کریمﷺ کی نظر عنایت ہے
جو لیلۃ القدر کی رات اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک پر سایہ
فگاں ہے ۔آج سے 73سال پہلے برصغیر پاک و ہند کے گلی کوچوں میں ایک ہی نعرہ
گونجتا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ ۔اس بات میں شک
نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا بلکہ وادی کشمیر اور
ریاست جونا گڑھ کو اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے منحوس پنجوں میں سمیٹ
لیا ۔ اس کے باوجود کہ چھب جوڑیا ں کے محاذ پر پاک فوج پیش قدمی کرتے اس
مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی جہاں سے کشمیرکا راستہ نکلتاتھا، تو بھارت
نے پاکستان کے دل "لاہور"پر ایک بریگیڈ فوج سے (جو ٹینکوں اور توپوں سے
مسلح تھی) اچانک 6ستمبر 1965ء کی صبح حملہ کردیا ۔ یہ حملہ اس قدر اچانک
تھا کہ پاک فوج کو سرحد پر مورچے کھودنے اور دفاعی سازوسامان پہنچنے کا بھی
وقت نہ ملا ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس جنگ کے حوالے سے روحانیت کے چند
اہم واقعات کا یہاں تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا چاہتا ہوں ۔ایک واقعہ کا ذکر
حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری المعروف کرماں والے کی کتاب میں کچھ اس طرح درج
ہے ۔کہ آپؒ کا اگست 65کے آخری ایام میں لاہور کے میوہسپتال میں پروسٹیٹ کا
آپریشن ہوا تھا اس وقت پروسٹیٹ کا آپریشن اوپن سرجری کی شکل میں ہوتا تھا
اس لیے آپریشن کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا زخم تازہ ہونے کی بنا پر
ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کر رکھا تھا۔یہ 3ستمبر 1965ء کی بات ہے کہ
حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ گاڑی کا انتظام
کرو میں واھگہ سرحد پر جانا چاہتا ہوں ۔ مریدوں نے کہا حضرت صاحب آپریشن کے
زخموں سے خون ابھی بھی رس رہاہے اور آپ ؒ تکلیف کی شدت بھی کافی محسوس
کررہے ہیں پھر ایسا کونسا کام آپڑا ہے جو آپ واہگہ سرحد پر کرنے جارہے ہیں
۔ آپ ؒ نے فرمایا جس بات کا علم نہ ہو اس کے بارے حجتیں کی جاتیں۔ بہرکیف
آپ ؒ کار پر سوار ہوکر واہگہ سرحد جا پہنچے وہاں ایک چارپائی پر لیٹ کر کچھ
قرآنی آیات کا وردکرتے رہے اوربھارت کی جانب پھونکیں مارتے رہے ۔واپس آنے
سے پہلے ایک مٹھ مٹی اٹھائی اس پر کچھ پڑھا اور بھارت کی جانب پھینک دی ۔شام
ڈھلے قیام گاہ پر واپس پہنچے تو تکلیف میں حد درجہ اضافہ ہوچکا تھا۔اگلی
صبح پھر آپ ؒ برکی ہڈریارہ سرحد پر جا پہنچے اور وہاں بھی وہی عمل دوہرایا
جو ایک دن پہلے واہگہ سرحد پر کیا تھا ۔تیسرے دن یعنی 5ستمبر 1965ء آپؒ
گنڈاسنگھ بارڈر پر گئے اور ایک مٹھ مٹی کی بھر کر بھارت کی جانب پھینک آئے
۔یاد رہے کہ جب کفارنے آپﷺ کو جان سے مارنے کا ارادہ کرکے آپ ﷺ کے گھر کا
محاصرہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے بھی پہرہ دینے والے دشمنوں کے چہروں پر کچھ
کلمات پڑھ کر مٹی پھینکی تھی جس کی وجہ سے آپﷺ بحفاظت وہاں سے نکل آئے تھے
اور کفارمکہ کو آپﷺ کے گھر سے باہر نکلنے کی خبر نہ ہوئی ۔ 1965ء کی پاک
بھارت جنگ کے دوران یہاں بھی حق و باطل کا معرکہ شروع ہونے جارہا تھا اور
کلمہ طیبہ کے نام سے بننے والے ملک کو بت پرست بھارت صفحہ ہستی سے مٹانے کا
عزم لے کر سرحد پر حملہ آور ہونے کے لیے بالکل تیار تھا کہ حضرت سید اسمعیل
شاہ بخاری ؒ تین مقامات پر سرحدوں کو محفوظ بنا کر جب 5ستمبر کی شام واپس
اپنی قیام گاہ پہنچے تو آپؒ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اﷲ کے نبی محمد ﷺ
نے سرحدیں محفوظ کرنے کی جو میری ڈیوٹی لگائی تھی وہ کام میں نے سرانجام دے
دیا ہے ۔اب الحمد ﷲ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں ۔محافظ لاہور میجر شفقت
بلوچ جنہوں نے 110جوانوں کے ساتھ بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ کے حملے کو نہ
صرف روکا بلکہ ٹینک اور توپوں سمیت پورے بریگیڈ کو تباہ کردیا اور دس گھنٹے
تک بھارتی فوج کو لاہور کی جانب پیش قدمی نہ کرنے دی ۔ ایک ملاقات میں
انہوں نے مجھے ایک خط دکھایا جو ایک پاکستانی شخص کا تھا وہ 5اور 6ستمبر
1965ء کی رات مسجد نبوی میں نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھا ۔ دوران عباد ت
اس پر غنودگی طاری ہوگئی ۔اس نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ نبی کریمﷺ صحابہ
کرام کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار نہایت تیزی سے کہیں جا رہے ہیں ۔اس شخص نے
قدم بوسی کرنے کے بعد پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ آپ اس قدر عجلت میں کہاں تشریف لے
جارہے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا پاکستان پر حملہ ہونے والا ہے ،اس کے دفاع کے لیے
جارہے ہیں ۔اگلی صبح مسجد نبوی میں رات بھر عبادت کرنے والا شخص جب نیند سے
بیدار ہوا تو اسے یہ خبر سننے کو ملی کہ بھارت نے اچانک پاکستان پوری طاقت
سے حملہ کردیا ہے ۔اس لمحے اسے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی گھوڑوں پر
سوار روانگی یاد آئی تو ساری بات سمجھ میں آگئی کہ حقیقت میں پاکستان پر اﷲ
تعالی اور اس کے پیارے رسول محمد ﷺ کی خاص نظر عنایت ہے ۔یہ بات تو تمام
مسلمانوں کے علم میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے ہند کی جانب سے
ٹھنڈی ہوا آرہی ہے ۔یہ ٹھنڈی ہوا وہ درود وسلام کی شکل میں ہے جو تہجد گزار
لوگ صبح و شام یہاں پڑھتے ہیں اور فرشتے آنحضور ﷺ کی خد مت میں پیش کرتے
ہیں ۔قصہ مختصر میجر شفقت بلوچ نے ایک اور ملاقات میں بتایا کہ جب بھارتی
فوج پیش قدمی کرتی ہوئی ہڈریارہ ڈرین کے مشرقی کنارے پر پہنچ گئی تھی تو
میں اسی نالے کے اونچے مغربی کنارے کے اوپر کھڑا بھارتی فوج پر فائر کروا
رہاتھا ۔بھارتی ٹینکوں توپوں اور مشین گنوں کی کوئی گولی یا گولہ مجھے نہیں
لگا جبکہ بھارتی فوج مجھ سے صرف 200فٹ دور موجودتھی لیکن ہماری مشین گنوں
اور توپ کا ہر گولہ بھارتی ٹینکوں ، توپوں اور بھارتی فوجیوں کے سینے چلنی
کررہی تھیں ۔بھارتی فوج کا پورا بریگیڈ ہم نے تباہ کردیا لیکن ہمارے
110جوانوں میں کوئی ایک بھی بھارتی گولہ باری سے شہید نہیں ہوا۔میجر شفقت
بلوچ کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ کوئی غیبی طاقت
پاکستان کا دفاع کررہی تھی ۔
|