بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
لاتا نہیں خاطر میں یہ طوفاں کے شورش
اﷲ نے بخشی ہے اسے جرأت بے باک
( ماہر القادری)
استاد محترم مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب سے پہلا تعارف اور شناسائی
دارالعلوم ندوۃ العلماء کی درسگاہ میں ہوئی ۔ غالباً ۲۰۰۵ ء کے آخر میں
میرا داخلہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوا۔ آپ درس قرآن کے ہمار ے استاد
مقر ر ہوئے ، مسلسل ایک سال تک علم و عرفان کے اس دریائے بے کنار سے خوب
جرعہ نوشی کا موقع ملا بلکہ آپ کے علوم و معارف کے چشموں سے سیرابی کے ساتھ
ساتھ نظر کی وسعت، مطالعہ کا تنوع اور فکر و خیال کی بلندی کا پہلی مرتبہ
آپ کے درس میں مشاہدہ ہوا ، دماغ جو افکار و خیالات کا گنجینہ ہے اس کو جلا
اور معرفت کا نور بلکہ فہم آپ کے حلقہ درس سے عطاء ہوا، جمالیا تی شعور کو
پختگی اور مکمل توانائی ملی۔ ذہن و دما غ کے دریچوں کو پاکیز گی بھی ملی
اور کشادگی بھی ۔ اسلام کی آفاقیت ، ہمہ گیریت اور اس کی لامحدود وسعتوں کا
ادراک بھی ہوا ۔ غرض فکر و نظر اور علم و کتا ب کی وسعتوں کی عظمت اور
عبقریت کا احساس اور عقل و شعور کو تازگی آپ کی مسیحانہ نظر اور کرم کا
نتیجہ ہے ۔بلا مبالغہ یہ ہمارے لئے بڑی سعادت بھی ہے اور خوش بختی بھی ،
خدا کا انعام اور احسان بھی کہ ہم آپ کے علم کے خوان کرم کے ریزہ چیں ہیں ۔
دنیا میں اکثرعظیم شخصیتوں کی بلند پروازی اور پیشانی پر کسی صاحب دل اور
اہل باطن کی چشم عنایت اور محبتوں کے نشانات ہوتے ہیں ۔مولانا سلمان حسینی
ندوی کی مستقبل کی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں پہلا زینہ ان کا اپنا
خانوادہ ہے ، لاریب آپ جس گھر انے کے فرزند ہیں وہ علم و عمل کا سنگم ہی
نہیں بلکہ تقویٰ او ر پاکیزگی کا عنوان اور علامت بھی ہے۔مختصر اً آپ کی
ابتدائی تربیت کے حوالے سے آداب فرزندی کے اصول اور ضابطے پہلے ہی دن سے آپ
کو اس مکتب فکر میں سکھادئے گئے تھے جس کو اقبال نے مکتب کی کرامات یافیضان
نظر سے تعبیر کیا ہے ، وہ مکتب اور مد رسہ آپ کاگھر اور خاندان ہے جہاں آپ
کو اصول فرزندی سکھلائے گئے تھے ۔
جیسا کہ اوپر بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیتوں کا
ستارہ آسمان شہرت پر طلوع ہوکر چمکا ہے ان میں سے اکثرکے حریم دل پر کسی
صاحب دل کے فیضان و سائل اور کرم کا صدقہ ہوتا ہے ۔ اور ساتھ ہی کسی اہل
باطن کی مسلسل دعاؤ ں کا نتیجہ ،ا ثر اور توجہ بھی ضرور شامل حال رہتی ہے ۔
مولانا سلمان حسینی ندوی کے ان پختہ افکار و خیالات کی توانائی، ذہنی پرواز
کی اس بلندی اور وسعت نظر میں تنوع اور تعلیم و تربیت کے فروغ میں بلکہ آپ
کی شخصیت کے مکمل جغرافیہ میں حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کا رول اور کردار
بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے، مولانا علی میاں ندویؒ کی عارفانہ نظر
اور توجہ نے ان کے قلب پر علم وعرفان کا ایسا صور پھونکا کہ آپ کے فکرو
خیال کے دریچے آفتاب کی طرح روشن اور ماہتاب کی طرح نور کا پیکر بن گئے
۔بلکہ آج یہ سب اسی نظر کا کرم اور فضل ہے کہ چمنستان دہر میں جرأت اور ہمت
کے ساتھ مولانا علی میاں ندوی ؒ کے سچے وارث اور امین بن کر قرآن و حدیث ،
اور سیرت رسول کے وسیع ،ابدی اور آفاقی پیغام سے خوشبو ، روشنی اور نور
عطاء کررہے ہیں ۔
آپ کے فکر و خیال اور عقل و شعور کو مزید توانائی اور پختگی بلکہ آپ کی
شخصیت کے حسن میں جو استحکام اور جمالیاتی حظ میں جو قوت اور رعنائی عطا
ہوئی وہ عالم اسلام کی عظیم دانش گاہ جامعۃا لامام محمد بن سعود الاسلامیہ
میں آپ کا تعلیمی پڑاو ٔ اور اعلی سے اعلی کی طرف آپ کا علمی سفر اور علمی
ذوق تھا ۔ جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ کے شگفتہ علمی ماحول اور یہاں کی
عظیم شخصیتوں نے آپ کی روح اور وجدان کو گرمی گفتار اور تحرکات حیات میں
آتشیں جوش پیدا کردیا۔خصوصاً عالم اسلام کے عظیم مفکر ، محدث ، فقیہ اور
مجاہد عبد الفتاح ابو غدہ ؒ کی صحبت اور تربیت نے آپ کے جذبے اور خلوص میں
حرف صداقت کی آبیاری کے ساتھ ساتھ معمار جہاں کے اصول، شعور اور آگہی کے
رازوں سے واقف کرایا ۔ جامعہ محمد بن سعود کے ایک اور مایہ ناز استاد شیخ
محمد الراوی مصری نے علوم قرآن کے حوالے سے آپ کے اندر قرآنی علوم اور قرآن
فہمی کا ذوق اور شوق پروان چڑھا یا ۔ان کے علاوہ آپ نے عالم اسلا م کی دیگر
اہم شخصیات اور مشاہیر سے حصول نیاز کی خاطر ملا قا تیں اور صحبتیں اختیار
کیں اور خوب استفادہ کیا ۔ علامہ یوسف القرضاوی ، تر کی کے روحانی پیشواپیر
محمود آفندی مد ظلہ العالی ۔ شام کے عظیم محدث نور الدین عتر ، عمان کے
مفتی اعظم الخلیلی ،یمن کے ممتاز عالم دین اور مصنف عبد المجید زندانی،
حضرت مفتی تقی عثمانی وغیرہ کے علاوہ اور بہت سی عبقری شخصیات ہیں جن کے
علوم و معارف سے آپ نے براہ راست اپنی علمی تشنگی بجھائی ۔
مولانا سید سلمان صا حب کو ولی اﷲی علم و کمال سے بچپن ہی سے ایک مضبوط ذ
ہنی انسیت پیدا ہوگئی تھی پھر اسی ذہنی انسیت اور جذباتی لگاؤ کی بنیاد اور
سبب سے آپ و لی ا ﷲی دریائے علم میں غواصی کرنے لگے تھے ۔ جس کی وجہ سے آپ
کے ذہن میں وسعت اور فکر و خیال میں کشادگی اور نظر میں آفاقیت پیدا ہوگئی
۔یہ ولی اﷲی خوشہ چینوں کا کمال ہی نہیں بلکہ کرشمہ ہے کہ جو بھی ان کے
خوان علم سے اپنے سینے کو آباد اور شاد کریگا یا کیا ہے ،یقینی طو ر پر اس
کی طبیعت اور مزاج میں اعتدل آجا ئے گا اور ساتھ ہی وہ مسلک اور مذہب کی
لکیروں میں بھی اعتدال پسند ہو جائیگا بلکہ مسالک اور مذاہب کی ایسی وحدت
اور تصور وہ پیش کریگا جو اسلام کے مزاج اور منہج سے قریب ترہوگا۔ اس پورے
مذکورہ منظر نامے میں مولانا سید سلمان صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کافی اہمیت
کاحامل ہوگا ، بلکہ آپ کی شخصیت کی ہمہ گیری ، ہمہ جوئی بانکپن اور آپ کے
جمالیاتی شعور اور حسن کے پیکر کا اظہار بھی پوری قوت اور توانائی سے
ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان صاحب کے انفس اور آفاق میں حضرت شاہ ولی
اﷲ دہلوی ؒکے افکار و خیالات کا غلبہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ میں نے اوپر
بھی بیان کردی ہے کہ آپ نے بچپن ہی سے ان کے علمی چشموں سے سیرابی شروع
کردی تھی جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت کے پیکر اور ہیولے میں حضرت شاہ صاحبؒ
کی روح ،افکار و خیالات پوری قوت کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ جس طرح اور جس انداز
سے حضرت شاہ صاحب انسانیت کی مکمل بقاء اور فلاح کا راز اسلام کے غلبے میں
اس کی تہذیب و ثقافت کی سر بلندی میں ، سیاسی اور سماجی سطح پر اس کی
بالادستی اور اس کے نظام کے نفاذ میں سمجھ تے ہیں ۔ پھر مزید حضرت شاہ
صاحبؒ نے کھل کر اس نظریہ کے عملی اقدام میں جدوجہد بھی کی ہیں اور ان کو
خاطر خواہ اس میں کامیابی بھی ملی ہے ۔ یہی ولی اﷲی سوچ اور اسی نظر یے کی
بقا ء اور استحکام بلکہ مکمل و حدت ہمیں مولانا سلمان صاحب کے یہاں دیکھنے
کو ملتی ہے ۔ ہمارے خیال میں مولانا سلمان حسینی صاحب اس نظریے کے حوالے سے
اس فہرست میں اہم مقام رکھتے ہیں جن لوگوں نے ہندوستان میں اسلام کی باز
یابی اور سربلندی کے لئے اسلام کے اس نظر یے پر کھل کر کام بھی کیا ہے اور
جدو جہد بھی کی ہے ۔ مولانا سلمان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں ۔ کہ ’’ آخری نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ( لیظہرہ علی الدین کلہ ) دنیا کے تمام مذاہب ،
افکار و نظریات اور طریقۂ کا ر پر ہوئی تھی او ر اس کا عالمی سطح پرکھل کر
برملا اظہار خلافت راشدہ کے ذریعہ سے ہوا‘‘۔
مولانا سلمان حسینی ندوی کی شخصیت پر حضرت مولا نا سید ابو الحسن علی حسنی
ندویؒ کے کیا اثرات ہیں اور دونوں کے افکار و خیالات میں کیا وحدت اور ہم
آہنگی ہے، ویسے میرا دونوں عظیم شخصیات میں مقصد تقابل نہیں، مولانا سلمان
صاحب کبھی بھی حضرت مولانا علی میاں ندوی کی جگہ نہیں لے سکتے ۔میر ی منشا
صرف مولاناسلمان صاحب کی شخصیت کے مطالعہ کے لئے دونوں کی فکری اور ذہنی
سطح کا جائزہ پیش کرنا ہے، کیوں نکہ عالم اسلام کی بہت سی شخصیتوں کا بھی
یہ دعوی ہے کہ مولانا سلمان صاحب مولانا علی میاں ندوی کے علوم اور افکار
کے وارث او ر امین بلکہ ثانی ہیں ان لوگوں کی فہرست میں میں بھی شامل ہوں
اور میں بھی یہی مانتاہوں کہ مولانا واقعی آپ کے جادہ علم وفضل کے وارث ہیں
اور امین ہیں او ر ان کی جانشینی اور فکری وراثت کا حق بہ حسن و خوبی ادا
کررہے ہیں کمیت اور کیفیت میں فرق کے امکانی تصور کے ساتھ۔
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ دونوں میں فکری وحدت ضرور ہے لیکن دونوں کا انداز
اسلوب اور طریقہ کار جدا او ر الگ ہے۔ فکری اور نظریاتی طریقہ کارمیں جو
خصوصیات اور صفات اﷲ تعالیٰ نے مولانا علی میاں ندویؒ کی طبیعت میں ودیعت
رکھیں تھیں او ر جو شعور اور سلیقہ مشیت کی طرف سے آپ کو عطاہوا تھا اس میں
کوئی مثال او ر ثانی آپ کا ہمیں نظر نہیں آتاہے ۔ مثال کے طور پر مولانا
علی میاں ندویؒ کے سراپے میں بطور تحدیث قوت فکر اور عمل کی جامعیت تھی
۔اسی طرح مولانا علی ندوی ؒکی اس بات کو آپ تواضع سے تعبیر کریں یا حکمت سے
کہ آپ جب بھی کوئی بات عوامی سطح پر یا اہل علم کے درمیا ن کہتے تھے تو
ہمیشہ آپ اس کا اپنے بڑوں سے پہلے مشورہ کیا کر تے تھے پھر بڑے غور و فکر
اور حالات کے پیمانے پر اس کو خوب جانچ او ر پرکھ کرحکمت و دانائی کے ساتھ
بیان کر تے تھے۔ جس کا غالبا بنیادی سبب یہی ہے کہ کبھی آپ کو اپنی بات
واپس لینے کی ضرورت نہیں پڑی ۔ایک خاص بات بلکہ اہم آپ کے حوالے سے یہ تھی
کہ کبھی کسی کو اپنا فریق نہیں بنا یا اور نہ فریق ہو نے دیا اور نہ ہی آپ
نے کوئی بات شاید فریق بنا کر کسی کو کہی ہے ۔
مولانا علی میا ں ندویؒ قوموں کی نفسیات کے ادا شناس تھے، انہیں قوموں کے
علمی او ر سماجی شعور کا خوب ادراک تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے تفردات یا کسی
انفرادی رائے کا اظہار کرتے وقت سواد اعظم کا خوب خیال کرتے تھے۔ غرض زندگی
کے ہر موقع پر مولانا علی میاں ندویؒ نے پنے بڑو ں کا نہ صرف خوب پاس و
لحاظ کیا ہے بلکہ زندگی کے آخری ایام تک انہوں نے اپنے اسلاف سے اصلاحی
تعلق بھی مضبوطی سے قائم رکھااور اس تعلق میں کوئی چیز کبھی حائل نہیں ہونے
دی۔
مولانا علی میاں ندوی ؒ کے اس پورے ہیو لے اور فکر سے مولانا سلمان صاحب کے
انداز تھوڑے سے بدلے ہوئے ہیں، البتہ دونوں کی فکری وحدت میں بلاکی یکسانیت
ہے۔ مولانا سلمان صاحب کے یہاں قوت فکر بہت زیادہ ہے لیکن قوت عمل اس درجہ
کی نہیں جو مولانا علی میاں ندوی کے یہاں تھی۔جہاں تک بات فریق بنانے کی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کا لہجہ سخت ہونے کی وجہ سے بات فریق بننے
تک پہنچ جاتی ہے لیکن اس سے آپ کے جذبے کی صداقت پر سوال نہیں اٹھایا
جاسکتا ہے ۔ تاہم اگر اس میں مولانا علی ندویؒ کی طرح مشاورت اور قوموں کی
نفسیات اور مزاج شناسی کا عنصر مولانا سلمان کے یہاں آجائے تو پھر آپ کا یہ
تمام جذبہ آپ کی فکر کے حوالے سے دو آتشہ ہوجا ئے گا،اور ساتھ ہی اعتماد
اور اعتبار کی راہیں بھی مزید وسیع ہوجائیں گی۔
بات آپ کے علمی تفر دات کی کرتے ہیں ، جس مقام اور مرتبہ پر آپ فائز ہیں اس
حیثیت سے آپ کو اپنے تفر دات اور اپنی رائے کے اظہا ر کا پورا حق حاصل ہے
بلکہ ہر اہل علم کو حاصل ہے اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہے۔ لیکن شعوری اور
لاشعوری طور پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عام اور خاص طبقے کی کیا نفسیات ہیں
اور کیاان کا علمی مزاج اور ذوق ہے ۔ میرے خیال کے مطابق ہندوستان میں اہل
علم کا زیادہ تر طبقہ جو اپنی قدیم رو ایت کو نہ صرف چھوڑ نے کو تیار ہے
بلکہ اس روایت پر اس کا اتنا استحکام اور مضبوط دعو یٰ کہ اس پر کسی قسم کا
سمجھوتہ بھی کرنے کو تیار نہیں کسی کی رائے کو قبول کرنا اور ماننا دور کی
بات ہے ۔ پھر تفردات بھی ان مسائل میں جن پر اہل ہند کے اکابر اور مشائخ نے
متفقہ طور پر ایک ایجنڈ ا اور خاکہ بنا رکھا ہے بلکہ اس ایجنڈے کو ایک
منشور کی شکل دے رکھی ہے جیسے بابری مسجد کے مسئلہ پر مولانا سلمان صاحب کا
رائے اور مشورہ دینایا اسی طرح کسی اور عالم دین یا کسی صاحب علم کو اپنی
رائے پیش کر نا اور اس پر مضبوطی سے ڈٹے رہنا کسی بھی اعتبار سے منا سب
نہیں اگر چہ وہ رائے ان کے اعتبار سو فیصد درست ہی کیوں نہ ہو ۔
آپ نے ابھی قرآن کریم کے پاروں کی تر تیب کے حوا لہ سے کام کیا ہے ۔ اس کام
کی کتنی ضرور ت تھی یاضرورت نہیں تھی اس کو تو اہل علم ہی بتائیں گے ۔ لیکن
اگر یہ کام بہت اہم تھا تو بارہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی کسی کو اس کا
خیال نہیں ہوا، اور اس اہم کام کی اہمیت نہیں سمجھی گئی ۔ پھر ایسا قرآن
کریم کے حوالہ سے کب ممکن ہو سکتا ہے کہ جس نے اس کو تیس پاروں کی تر تیب
پر مرتب کیا ہو وہ ایک آدمی تھا سوچنے کی بات ہے۔ہم اس بات کو بھی تسلیم
کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو اوپر دلیل پیش کی ہے ہو سکتا ہے علمی دنیا میں اس
طر ح کی دلیلیں کو ئی خاص اہمیت نہ رکھتی ہوں ۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ کچھ
کام بہت اہم ہونے کے بعد بھی ان کو کسی مصلحت کے پیش نظر کر نا مناسب نہیں
ہوتا ۔
مولانا سید سلمان صاحب کی خلافت و ملوکیت خصوصا حضرت معاویہ ؓ کے حوالے سے
جو رائے اور گفتگو ہے وہ یقینی طور بہت ہی غیر ذمہ دارانہ اور قابل گرفت ہے
۔ میں نے حضرت مولانا کی وہ تقریر خود سماعت کی ہے جس میں حضرات صحابہ کی
ایک جماعت پر مولانا کی زبان سے جو باتیں نکلی ہیں وہ تنقیص کی حدود کو پار
کررہی ہیں ۔ اگر چہ اب مولانا سلمان صاحب نے اپنی بات سے رجوع کرلیا ہے یہ
ان کے بڑے پن کی دلیل ہے۔لیکن ایک بات ضمناً اس سے الگ یہ ہے کہ حضرات
صحابہ کے بارے میں ایسی گفتگو بھی کرنا جس سے کسی ایک صحابی رسول کی طرف سے
کسی کے دل میں ہلکا سامیل آجائے یااعتبار اور اعتماد میں بال برابر بھی فرق
آجائے (العیاذ باﷲ ) خطرے سے خالی نہیں۔ کیوں کہ یہ وہ پاکیزہ ، مقدس اور
بابر کت جماعت ہے جن کی تربیت دربار نبوت اور آغوش نبوت میں ہوئی ۔وہ آپ
علیہ السلام کے کردار و عمل اور اخلاق کے سچے وارث اور امین ہیں، قرآن کریم
جو ایک مقدس کتا ب ہے ہم تک اس کو پہنچانے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں۔ غرض ان
کے بے شمار احسانات ہیں، پور ی امت مل کر بھی ان کے ا حسانات کا بدلہ ادا
نہیں کر سکتی پھر کسی کی کیا مجال کہ ان کا مقام اور مرتبہ خود طے کر ے ،
ان کے تقدس ، فضیلت اور احترام کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمایا
ہے اور خود ان کا مقام اور مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے بھی طے کر رکھا ہے۔ بلکہ ان
کی مکمل برأت اور پاکیزگی کا اعلان اﷲ کی طرف سے وا ضح الفاظ میں موجود ہے
رضی اﷲ عنہم ورضوا عنہ ۔
مولانا سلمان صاحب کی گفتگو حضرات صحابہ کے بارے میں خصوصاً حضرت معاویہ ؓ
کے بارے میں بہت ہی سخت ہے بلکہ آپ نے جو لہجہ استعمال کیا ہے وہ کسی بھی
اعتبار سے حضرات صحابہ کے بارے میں بالکل مناسب نہیں اس کو نہ علمی تحقیق
کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ( العیاذ ذ باﷲ
) وہ تنقید سے بالا تر نہیں۔ حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت اور مرتبہ پر بے شمار
اقوال اور آثار موجود ہیں جو ان کی عظمت اور تقدس پر گواہ ہیں اور قیامت تک
گواہ رہیں گے ۔ بہرحال کسی نے حضرت عبدا ﷲ بن مبارک سے سوال کیا کہ معاویہ
ؓ بہتر ہیں یا عمر بن عبد العزیز ؒ: حضرت نے جواب میں فرمایا : تراب فی أنف
معاویہ افضل من عمر بن عبد العزیزمعاویہ کے ناک کی مٹی بھی عمر بن عبد
العزیز سے افضل ہے ‘‘ ۔ البدایہ و النہایہ ج۸/ ۱۳۹
عہد رواں کے مشہور محدث اور عظیم محقق حضرت مولانا شیخ یونس جونپوری قدس
سرہ سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے موقع
پر صرف چارسو بلوائی مدینہ پاک پر کیسے حاوی ہوگئے اور حضرات صحابہ کہاں
چلے گئے تھے ؟حضرت نے جواب ارشاد فرمایا فتنے کا زمانہ تھا ہر صحابی اپنوں
کا خون کرنے سے بچتا تھا فتنے کے زمانے میں افواہیں اور بدگمانیاں بہت ہوتی
ہیں نیز حضرت عثمانؓ کی مظلومیت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے پھر فرمایا جن
باتوں سے صحابہ کرام سے بدگمانیاں پیدا ہوں ایسے موقعہ پر محقق ہونے کا کیا
فائدہ ؟ایسی تحقیق اور تقریر سے قائل کر لینا بھی کوئی چیز نہیں جس سے
اختلاف اور انتشار پیدا ہو ۔ در اصل یہ سب یہود و نصاری کی سازشیں تھیں جو
ملت اسلامیہ کو ختم کرنا چاہتے تھے اور فرمایا کہ ہمیں تو صحابہ کرام کی
عظمت اور اکرام کا حکم ہے اور رہا مشاجرات صحابہ اور ان کے مناقشات کا
مسئلہ اس بارے میں امام الحدیث حضرت امام ابن احمد بن حنبل ؒ کا قول ہمارے
لئے کافی ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کو منظور تھا وہ ان کے بارے میں ہوچکا ہم ان
کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے حضرت امام احمد ؒ کا موقف صحابہ کے بارے
میں سکوت محض ہے پھر حضرت نے فرمایا کہ میں نے بھی اس مسئلے میں بہت کچھ
پڑھا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہتا ہوں خاموشی اختیار کرتا ہوں ۔ ( ملفوظات
حضرت شیخ علامہ یونس جونپوریٍ مفتی محمد انیس ص ۴۹ )
البتہ حضرات صحابہ کے بارے میں مولانا سید سلمان صاحب کے اس مذکورہ فکر و
خیال کو بنیاد بناکر کچھ لوگ مولانا سید سلمان صاحب حسینی ندوی پر شیعیت
اور رافضیت کی طرف میلان اور رجحان کا بے بنیاد الزام عائد کرتے ہیں ۔ اور
مزید اس تہمت کو پروپیگنڈے کی شکل دیکر آپ کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جاتی
ہیں،ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مولانا سلمان صاحب نے شیعیت اور
رافضیت کے خلاف جو عملی اقدام کئے ہیں ان کی نظیر اور مثال دوسری جگہوں پر
کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ آپ کا قلم اور زبان ہمیشہ شیعیت کے خلاف سربکف
مجاہد کی طرح نظر آتاہے۔اس لئے اس تہمت کی کوئی حقیقت نہیں ۔
علمی دنیامیں مولانا سید سلمان صاحب کی شخصیت اور عبقریت تمام اہل علم کے
نزدیک مسلم ہے ۔ اپنے گہرے علم اور وسیع مطالعہ کی بنیا د پر آپ کچھ مسائل
میں تفرد اور اجتہاد سے کام لیتے ہیں ۔آپ کے علمی تفردات میں قرآن کریم کے
متن میں پاروں کے حوالوں سے از سر نو ترتیب، طلاق ، قربانی ،مصارف زکوۃ ،
بابری مسجد کی تبدیلی کا مسئلہ مدارس کے نصاب اور نظام میں جدید کاری وغیرہ
کے علاوہ اور بھی ہوں گے جن کا مجھے علم نہیں ۔ان تفردات یا اسی طرح اہل
علم و بصیرت کے اپنے وسیع مطالعہ اور ذہن و فکر کے نتیجہ میں جو بھی نئی
تحقیقات ، ایجا دات اور اجتہادات ہیں ان کے تصفیہ کے حوالے سے میرے ذہن میں
ایک بات آئی کہ ہمارے ملک میں بہت سے مکاتب فکر کے لوگ ہیں ، اور ہر ایک
مکتب فکر اپنی روایات کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے کسی صورت بھی ٹس سے مس ہونے
کو تیار نہیں ماننا تو کجا ۔ اس صورت حال میں آپسی اختلاف اور انتشار سے
بچنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے ا ہل علم اور صاحب بصیر ت و فضیلت مل کر ایک
متحدہ پلیٹ فارم بنالیں ۔ پھراس میں کسی عالم یا محقق کے جو بھی تفردات ہیں
پہلے اس میں پیش کریں پھر ان پر علمی دلائل کے ساتھ بحث و تحقیق ہو اس کی
اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اگر وہ تفردقابل قبول ہو تو اس کو اجتماعی طور
پر عوام یا خاص کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر وہ قابل قبول نہیں اور اس
میں نقصان کا احتمال ہے تو اس کو ملتو ی کر دیا جائے۔
میں یہاں ایک بات یہ کروں گاکہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو واقعی صاحب فضل و کمال
ما نتے ہیں اور انہیں اس بات کی ضد ہے کہ وہ علمی جمود توڑ کر ہی دم لیں گے
۔ ان سے یہ میری گزارش ہے کہ ہر زمانے کے رنگ، انداز تقاضے ، مقصد حیات اور
غور و فکر کے زاویے الگ الگ ہوتے ہیں اس لئے ان کا خیال بھی ہر مجتہد کے
لئے اشد ضروری ہے ۔غالباً ہم ہندستان کے مسلمان اس وقت جہاں اور جن حالات
میں کھڑے ہیں اس حوالے سے بھی مجتہد ین حضرات کو سوچنا ہوگا ۔ اس لئے
تعلیمی ،سماجی ، معاشی، اخلاقی اور فکری استحکام کے اعتبار سے آج اجتہاد کی
اشد ضرورت ہے تاکہ یہ امت ساحل عافیت تک پہنچ جائے اور صدیوں کے زوال کے
قعر مذلت سے نکل جائے۔ خدا را اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہماری صلاحیتیں کہاں
صر ف ہورہی ہے اور ضرورت کہاں تھی۔ علامہ اقبال نے شا ید اسی موقع کی نزاکت
پر کہاتھا:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا ا لٰہ الااﷲ
جاری
|