پبلشر کتاب کی ماں ہوتا ہے، یہ کتاب کو پیدا
کرتا ہے، اسے سنوارتا ہے اور پھیلاتا ہے، اسی کے بل بوتے پر کتاب شہر شہر
پہنچتی ہے اور بچے بچے کے ہاتھ میں جاتی ہے گویا کتاب کے فروغ میں سب سے
بڑا ہاتھ پبلشر کا ہی ہوتا ہے۔ پبلشر کا اپنا دم بھی کتاب سے چلتا ہے کتاب
نہیں تو پبلشر کس کھاتے کا۔ گویا کتاب اور پبلشرز کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ایک دوسرے کے بغیر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن حیران کن
بات یہ ہے کہ کتاب کو جنم دینے والے پبلشرز ہی اب اس کا گھلا گھونٹنے لگے
ہیں کتاب کو مارنے پر تلے ہیں، ٹیکنالوجی کے بڑھتے سیلاب میں غوطہ زن کتاب
جو آخری سانسیں لے رہی ہے پبلشر اس کی یہ سانسیں بھی روکنے لگے ہیں۔ کہتے
ہیں کہ پیسے کی چمک انسان کو اندھا بنا دیتی ہے یہ اندھا پن آنکھوں کا نہیں
دماغ کا ہوتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے پیسے کے لالچ میں ایمان اور دھرم بھی بک جاتا ہے۔ دماغ کے
اندھے پن والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر کتاب مر گئی تو ان کے پبلشنگ ہاؤس
کا کیا بنے گا؟پیسے کے لالچ نے ان سے سوچنے کی یہ صلاحیت بھی سلب کر لی ہے۔
شاید بڑے پبلشرز کے لیے یہ سوال کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ان کی گزر بسر
اب کتاب پر تو نہیں رہی وہ تو اب کتاب سے سرمایہ کما کر بہت بڑے بلڈرز کا
روپ دھار چکے ہیں، کئی ایکسپورٹ کے کاروبار میں پیسہ لگا رہے ہیں، بہت سے
پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے پبلشنگ کا کام
نہیں چھوڑا کیونکہ کالا دھن بڑھانے کا ایک ذریعہ کتابوں کی اشاعت بھی ہے
اور یہ طبقہ صرف اسی لیے اردو بازار میں پبلشر کے روپ میں بیٹھا ہوا ہے۔
اردو کے بہت بڑے مؤرخ اسحاق بھٹی مرحوم کہا کرتے تھے کہ پبلشرز اور ناشر
جیتنے بھی اچھے ہوں ان کے آخر میں شر ضرور ہوتا ہے آج کے زمانے میں ان کی
بات سو فیصد سچ دکھائی دیتی ہے، ان دنوں تو اردو بازار میں شر ہی شر ہے چند
پبلشرز کی حرص نے سب ہی کے منہ پر کالک لگا دی ہے پیسوں کے لالچ میں وہی
پبلشرز جو کتاب پیدا کرتے ہیں اب کتاب کو مارنے پر تلے ہیں، ان ارب پتی
پبلشرز کے ہاتھوں نے ان پبلشرز کے منہ سے بھی نوالہ چھین لیا ہے جن کے گھر
کا چولہا صرف کتاب بیچنے سے ہی چلتا تھا۔ اربوں ہڑپ کرنے کے لالچ نے ہزاروں
کمانے والوں کی زندگی میں بھی زہر گھول دیا ہے کورونا نے ان حضرات کی زندگی
میں اندھیرا کیا تھا جو چند کتابیں شائع کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے
تھے اور حقیقی معنوں میں کتاب کی خدمت کر رہے تھے ان کے لیے امید کی روشنی
برطانوی ادارے DFIDنے پیدا کردی، چھوٹے پبلشرز کے مرجھائے چہروں پر رونق
لوٹ آئے اور انہیں لگا کہ آج کے دور میں کتاب کے فروغ کے لیے وہ جو کچھ کر
رہے ہیں ان کی خدمات کا شاید یہ صلہ ہے، گھر میں آسودگی کے خواب اور
کاروبار کی ترقی کی امید بندھ ہو گئی۔
برطانیہ کے اس ادارے نے پاکستان کے اسکولز کے لیے 3 ارب روپے کی گرانٹ دی
تھی اس امداد سے پنجاب کے اسکولوں کے لیے کتابیں،فرنیچر، پنیٹ، پنکھے اور
دیگر ضروریات کی چیزیں خریدی جانا تھی، کتاب سے وابستہ وہ رائٹر اور پبلشرز
بہت خوش تھے جو کم وسیلہ تھے، جو شوق اور کتاب سے محبت کی بناء پر ان بزنس
سے وابستہ تھے محدود سرمایہ سے وہ کتاب سے ناطہ جوڑے ہوئے تھے مگر تحقیقی
اور اصلاحی کتب شائع کر کے روزگار کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں قوم و ملک
کی خدمت سرانجام دے رہے تھے پبلشنگ سے وابستہ یہ طبقہ اس لیے خوشی کا شکار
تھا کہ انہیں امید تھی کہ اس پروجیکٹ میں ان چھوٹے پبلشرز کو بھی حصہ ملے
گا اور ان کی کتابیں بھی اسکولوں کے لیے منتخب کی جائیں گی، یوں کرونا کی
وجہ سے جو کاروبار ختم ہونے کے قریب تھا اسے توانائی ملنے کی توقع تھی مگر
جلد ہی ان کی امیدیں دم توڑ گئیں اور ایک روز اردو بازار میں یہ خبر دوکان
دوکان گردش کرنے لگی کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کے افسران نے چند منظور نظر
پبلشرز کی لسٹیں ٹینڈر نوٹس کے ساتھ جاری کر دیں ہیں اور اب اربوں روپے ملی
بھگت سے صرف چند افراد ہی ہڑپ کر جائیں گے۔ کرپشن کے اس کھیل نے کتاب کو
بھی بدنام کیا اور اس سے وابستہ افراد کے بھیانک چہرے بھی روز بروز سامنے
آنے لگے کرپشن کی بات زبان زد عام ہوئی بات میڈیا پر پہنچی تو افسران نے
بدنام پبلشرز کے ساتھ مل کر دوسرا کھیل کھیلا پہلا ٹینڈر منسوخ کر کے پھر
سے یہ پیسہ اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا گویا اب جو کھیل ایک میدان میں
کھیلا جانا تھا اسے بارہ میدانوں میں کھیلا جانے لگا مگر کھلاڑی اور
ایمپائر وہی رہے نتیجہ بھی ویسا ہی نکلا اور پھر سے ان ہی چند بڑے مگر مچھ
قسم کے پبلشرز کی کتابوں کی لمبی لسٹیں منظر عام پر آ گئی اور جو بے چارے
چھوٹے پبلشرز تھے وہ ایک بار پھر جی کر مرنے لگے۔
DFIDنے یہ سارے پیسے اس لیے دئیے تھے کہ پاکستان کے بچے اسکول جائیں تو
انہیں صاف ستھرا ماحول ملے اور شعور وآگہی کے لیے کتاب کا مطالعہ آسان ہو
مگر پیسہ پاکستان آیا تو سیاستدان اور بیوروکریسی نے اپنا کھیل رچا لیا اور
ساتھ ملے وہ پبلشرز جو کتابوں کی آڑ میں دھندہ کرتے ہیں۔ ملی بھگت کے اس
کھیل میں بدنام ہوئی کتاب اور افسردہ ہوا وہ پبلشرز جو خدمت کے جذبے سے اس
شعبہ سے وابستہ ہے، کھیل ابھی جاری ہے لوٹ مار کے کھلاڑی میدان میں ہیں
اورتماشائی منتظر ہیں کہ آیا کرپشن کے اس کھیل میں مافیا جیتتا ہے یا کتاب،
اگر صحیح معنوں میں اس پیسے کی تقسیم ہو اور چھوٹے بڑے سب پبلشرز کی وہ کتب
شامل اشاعت ہوں جو کہ اسکول کے بچوں کے لیے مفید ہیں تو یقیناً دم توڑتی
مطالعہ کی روایت زندہ ہو سکتی ہے وہ وینٹی لیٹر پر پہنچی کتاب اپنی سانسیں
بحال کر سکتی ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یقیناً کتاب کا قتل ہو جائے گا اور
بدبختی کی بات یہ ہوگی کہ کتاب کا قتل پبلشر کے ہاتھ سے ہو گا وہ پبلشر جسے
کتاب کی ماں کہا جاتا ہے اب یہ طے اردو بازار کے پبلشرز، محکمہ اسکول
ایجوکیشن کے افسران اور اینٹی کرپشن کے اداروں نے کرنا ہے کہ کتاب کو زندہ
رکھنا ہے یا کرپشن کے کینسر سے مارنا ہے کیونکہ چند پبلشرز کرپشن سے اس کو
قتل کرنے پر تلے نظر آتے ہیں اور ناشر اور پبلشر کے آخر میں لگے شر کو واضح
کرنے لگے ہیں۔ اﷲ ان کے ہاتھوں قتل ہوئی کتاب کو بچا لے۔
نوٹ: اس باب میں ویلیو کا لفظ اردو کے لفظ قدر یا اقدار کے معنوں میں نہیں
بلکہ ریاضی کی اصلاح میں استعمال کیا گیا ہے: مترجم
|