ایشیائی منی سیوزلینڈ اور اس کے مسائل

بچپن سے سنتے آیے ہیں کہ ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے مگر جب سے ہوش سنبھالا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ جملہ کسی تصوراتی دنیا کے بارے میں بتایا گیا ہو کیونکہ دنیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں مسائل کو تو دن بدن بڑھتے دیکھا ہے مگر ُان مسائل کے حل کرنے کے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے ۔۔۔ جہاں وطن عزیز ترقی پزیر ہونے کے سبب بہت سارے مسائل کا شکار ہے وہی پاکستان کا منی سیوزلینڈ کہلانے والا خطہ گلگلت بلتستان بھی بہت سارے مسائل میں گھیرا ہوا ہے ۔۔پاکستان کے شمال مشرق میں موجود قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ جس کی آبادی تقریباً دو ملین ہے جس میں سے ایک چوتھائی آبادی حصول علم و روزگار کی خاطر ملک کے دوسرے شہروں میں بستی ہے ۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کے علاوہ برف پوش پہاڑی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے بلند ترین میدان دیوسائی اور آبی زخائر کی وجہ سے یہ خطہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔۔مختلف پہاڑی وادیوں پر مُشتمل گلگت بلتستان تاریخی و ثقافتی طور پر مختلف تہزیبوں مزاہب اور زبانوں کا مرکز رہا ہے ۔۔۔ تعلیمی اداروں کے فقدان کے باوجود اس خطے میں شرح خواندگی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے ۔۔یہ خطہ پاکستان کے دوسرے صوبو ں اور شہروں کے مقابلے میں زیادہ مسائل سے گھرا ہوا ہے۔۔ اور تعلیم صحت کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس جیسی بنادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں. تعلیمی زبوحالی کا یہ حال ہے کہ پہلی یونیورسٹی 2002 میں قائم کی گئی ہے ۔۔سرکاری سطح پر میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم ابھی تک گلگت بلتستان میں شجر ممنوع ہے۔۔ ہر آنے والی حکومت ہمیشہ کی طرح وعدوں اور امیدوں کی فہرست تھمانے کے بعد جادو کی طرح غائب ہوجاتی ہے ۔۔کچھ سال پہلے یہاں میڈیکل کالج کے قیام کے لئے یہاں کی گورنمنٹ اور پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈسن کے مابین ایک یاد داشت پر حسن اتفاقِ ہوا تھا مگر وہ بنیادی سیاست کی نظر ہوگیا ۔۔۔ گلگت بلتستان ستر سالوں تک طرح طرح کے مظالم کا شکار رہا ہے اور انسانی حقوق سے محروم رہا ہے ۔اس خطے کی سب سے بڑی محرومی آیینی حقوق سے انکاری ہے ۔۔ حکومت پاکستان نے آج تک اس خطے کو اور اس کے بسنے والوں کو پاکستان میں شامل نہیں کیا اور متنازہ حثیت میں رکھا جس کی وجہ سے احساس محرومی شدت سے پائی جاتی ہے اس کی حالیہ روشن مثال پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ سی پیک جو اس پورے خطے کی تقدیر بدل دینے والا ہے اسی گلگت بلتستان کے راستے پاکستان اور چین کو ملاتا ہے مگر یہاں بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے مسائل سے پریشان عوام میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔۔

صحت کا شعبہ بلاوسط انسانی جانوں کے ساتھ منسلک ہے جس میں زرا سی لاپرواہی انسانی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔کچھ عرصہ قبل گلگت بلتستان دل کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے خبروں کی زینت رہا اس کے برعکس یہاں کے مریضوں کو فوری تبعی امداد کا بھی کوئی زریعہ موجود نہیں ۔۔ ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کے مطابق ترقی پزیر ممالک میں بھی ایک ہزار مریضوں کے لئے کم از کم ایک ڈاکٹر ہونا لازمی ہے مگر ملک بھر میں پانچ ہزار سے انٹھ ہزار کے لئے ایک ڈاکٹر تو گلگت بلتستان ممیں شاید یہ تعداد بیس ہزار تک ہوگی ۔۔۔ ستم ضریفی کہو یا عوامی نمائندوں اور اہل اقتدار کی لاپرواہی آج کے اس دور میں بھی یہاں کے دور دراز علاقںے بجلی پانی اور روڈ کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔۔۔

ANSAR ALI
About the Author: ANSAR ALI Read More Articles by ANSAR ALI: 3 Articles with 1276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.