تحریر: عائشہ یاسین، کراچی
پاکستان ایک ایسی سلطنت اور جایگر کہ جس کو برصغیر کے مسلمانوں نے تاریکی
اور ناامیدی کے پردوں کو چاک کرکے حاصل کیا۔ جان فشانی اور قربانیوں کی
عظیم داستان رقم تھی۔ برصغیر کے مسلما نوں نے اپنی شناخت اور نظریے کی
بنیاد پر تمام تر اختلافات کو مٹا ڈالا اور صرف ایمان اور کلمہ طیبہ کو
پہچان بنا کر ایک سرزمین پر جھنڈا گاڑا جس کی بنیادوں میں کلمہ طیبہ کی روح
پھونکی اور نعرہ تکبیر سے فضا کو معطر کیا۔
پاکستان، ہماری امیدوں اور تعبیروں کی سر زمین، جہاں خوابوں کو پنپنا تھا
اور حقیقت کو راج کرنا تھا۔ کیا ہم ان نظریات سے واقف ہیں جن کی بنیاد پر
برصغیر کے مسلمانوں خود کو یکجا کیا؟ کیا ہم ان نظریات و قوائد پر عمل پیرا
ہیں جس کے تحت قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور مسلمانوں کی آزادی کو
یقینی بنایا گیا؟ اس کا سادہ جواب ہے نہیں! ہم وقت کے دھارے پر ان تمام
عوامل اور وجوہات کو فراموش کرکے نسلی رسا کشی اور تفرقہ بازی میں مبتلا
ہوچکے ہیں۔ ہم ایسے زہر آلود ذہن کے مالک بن چکے ہیں جہاں ذات پات، رنگ و
نسل اور افراد کی انفرادی حیثیت کو غالب رکھا جاتا ہے۔ ہم نے تاریخ کو مسخ
کرڈالا ہے۔ ہم غیر مذاہب کے شرارتوں اور سازشوں کا شکار ہوکر اپنی بقا کے
سارے وسائل خود جلا بیٹھیں ہیں۔
اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسے ہمارے قائد اعظم نے
بنایا تھا تو اس کا جواب صرف نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ ہم ٹولیوں اور محاذوں
پر بٹی قوم ہیں ۔ ہمیں علم نہیں کہ ہم کس جنگ کا حصہ ہیں۔ ہم کون سے محاذ
پر ڈٹے بیٹھے ہیں؟ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ آیا ہم کسی غیرملکی شکنجے میں
جکڑ چکے ہیں یا اس ملک کی جڑوں میں سازشی قوتوں نے اپنی جگہ بنارکھی ہے۔ یہ
سب ہماری غفلت اور نفاق کا نتیجہ ہے۔ ہم نے اپنے عقیدے کو بنیاد بنانے کے
بجائے مصنوعی شناخت کو اپناکر اپنے اعلی اقدار اور شاندار ماضی کو فراموش
کرکے خود کو کمزورکرڈالا۔ ایمان کی دوڑ کو تھام کر مضبوط ہونے کے بجائے
تنکوں میں بکھر کر غیر مذہب قوتوں کو فتح یاب کرکے نہ صرف اسلام کو بلکہ
ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچایا۔ ہم بھول گئے کہ پاکستان کی تکمیل اس وقت
ہوئی جب نہ کوئی شلوارقمیض پہننے والا تھا نہ بوٹ ٹی شرٹ بلکہ صرف ایک کلمہ
طیبہ تھا جس کے سائے تلے سب قائد اعظم کے پیچھے چل پڑے تاکہ انسانیت کا بول
بالا ہوسکے، ظلم وزیادتی، رنگ و نسل کی پاسداری ناپید ہو اور اخوت و بھائی
چارہ اور برابری کے حقوق متعین ہوں۔ جہاں اسلامی عقائد کو بالادستی ملے اور
مسلمان علم و شعور کے ذریعے اپنے ثقافت اور پہچان کو واپس حاصل کرسکیں جو
ماضی میں اقتدار کی ہوس کی نظر ہوگئی تھیں۔
آزادی کے پہلے ہی سال ہم نے اپنے قائد کو ڈھلتے دیکھا۔ ہماری بے حسی تاریخ
میں رقم ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جنھوں نے قائد کے ایمبولینس کو راستہ نہ دیا
تھا۔ ہم نفاق کے اس قدر عادی قوم ہیں کہ لیاقت علی خان کوتحفظ تک نہ دے
سکے۔ آزادی کے چند سالوں میں آمریت کے شکار ہوگئے اور سیاسی و سماجی بے
ترتیب کی وجہ سے بالآخر مشرقی پاکستان کو قومیت پرستی کے باعث کھو بیٹھے۔
دکھ اس بات کا نہیں کہ پڑوسی ملک نے ہم سے اچھے روابط نہیں رکھے، دکھ اس
بات کا ہے کہ ہم خود ان سازش کرنے والوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے اور
خود اپنی جڑوں کو نقصان پہنچاتے رہے۔ کبھی آمریت تو کبھی جمہور کے ہاتھوں
ہمیں نقصان ہوتا رہا۔ اس کی صرف اور صرف بیرونی مداخلت اور اندرونی تفرقہ
بازی وجہ ہے۔ ہمارا کوئی اپنا قانون نہیں،کوئی قوائد نہیں۔ عدالتی نظام میں
تسلسل نہیں۔ کوئی مستحکم اور مضبوط لائحہ عمل نہیں جس کی بنیاد پر قومیں
ترقی کرتی ہیں۔ اپنی بہادری اور جان بازی سے اپنی ساخت کو قائم رکھتی ہیں۔
ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں جس سے ہمارے ملک کی سالمیت کو پہچان ملے۔ کوئی
ادارہ نہیں جو سیاسی و مذہبی ٹکراؤ کا شکار نہ ہو۔ کرپشن بڑا جرم نہیں۔
چوری، لوٹ مار اور سیاسی پناہ میں ملک کولوٹنے والوں نے ملک کی باگ دوڑ
سنبھال رکھی ہیں۔ مسلمان طلبہ و طالبات جو قیام پاکستان میں اہم حصہ تھے
موجودہ دور میں ہم نے جوان نسل کو نہ صرف غیر محفوظ کیا بلکہ ان کے عقل و
شعور میں جوش و ولولہ کا بھی فقدان واقع کردیا۔ نہ تعلیمی نظام بہتر بنایا
اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہونے والے حالات و واقعات کے ضرورت کو محسوس
کیا۔ ہم نے جوان نسل کی مثبت صلاحیتوں کو جن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں محظ
فرضی دنیا کے خواب دکھاتے رہے۔ ان کو عملی دنیا میں علم و فہم کے مربوط
نظام کے بجائے، ناامیدی اور تنزل پسند معاشرے کا حصہ بنا دیا۔
یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں نہ ایک نظریہ کام کرتا ہے
نہ ہی ایک سوچ۔ سب حصوں میں بٹ کر اپنے کارناموں کے قلعے بنا کے خود کو قید
کر بیٹھے ہیں۔ سیاسی و سماجی کارکن عوام کی آئینی و شخصی مسائل کو حل کرنے
سے قاصر ہیں۔ ہم اس ملک کا حصہ ہیں جہاں ہر محلہ کچروں کا ڈھیر ہے۔ جہاں
پینے کا پانی بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ جہاں چھوٹے معصوم بچوں کو ذاتی انا کی
خاطر ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں آنکھ اور کان
بند کرکے صرف اپنے سانس لینے اور پیٹ بھرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ جہاں
استاد گھریلو چپقلش کے باعث شاگرد کو جان سے مار ڈالنے سے گریز نہیں کرتا۔
جہاں مسجد کا امام نفس کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے۔ جہاں پیسے سے سب کچھ
خرید لیا جاتا ہے۔
یہاں کچھ بھی ویسا نہیں جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنے جان و مال کی
قربانی دی تھی۔ بہن بیٹیوں کی عصمتوں کو روندھا گیا تھا۔ ہم تو وہ بد نصیب
قوم ہیں جنھوں نے حکیم محمد سعید صاحب جیسے درویشوں کواپنی ہاتھوں مار ڈالا
وہ شخص جو اپنے خاندان کو صرف پاکستان کے واسطے چھوڑ آیا تھا۔ ہم نے اپنے
رب سے کئے ہوئے وعدوں سے سر کشی کی جس کے لئے ہم نے یہ ملک حاصل کیا، جس
کلمے کو نعرہ بنایا ہم نے اس ملک کو داغ دار کر رکھا ہے۔ اس عہد وفا کو
بھلا دیا جو ہر پاکستانی اپنے بانی پاکستان سے کرتا ہے۔ ان بزرگوں، مرد،
عورت، بچوں، جوانوں سب کی امیدوں کو رسوا کیا ہے جنہوں نے اپنے جانوں پر
کھیل کر ہمارے ہاتھوں میں اس ملک و قوم کی باگ ڈور دی تھی۔ ہم وہ ذمہ داری
نہیں نبھا پائے جس کا یقین ہمارے شہداء رکھتے تھے۔
یہ ملک ہمارے قائد اور ہر اس ذی روح کی امانت ہے جس نے نگہبانی اور حفاظت
ہمارے کاندھوں پر رکھی گئی تھی۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ اب بھی ہم اپنی صفوں
میں برابر کھڑے ہوکے ملکی سالمیت کو مرکزیت بخش سکتے ہیں۔ ہم قائد اعظم کے
بتائے گئے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوکر عالم اسلام کا قلعہ بنکردنیا کے
نقشے پر دوبارہ ابھر سکتے ہیں کیونکہ قائدا عظم نے جس ملک کی بنیاد ڈالی
تھی وہ ٹھوس اور مکمل نظام تھا جس میں در بدل کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی
ضرورت ہے۔ یہ پاکستان قائداعظم کا پاکستان ہے اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔
|