محبت دور حاضر کا اک بدنام لفظ جانا جاتا ہے میں اکثر
سوچتی ہوں کہ محبت بدنام ہے یا اس سے جڑی وہ حوس بدنام ہے جسے لوگ محبت کا
نام دے کر ڈراما راچاتے ہیں اور لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں. کیا
واعقی لوگ محبت کے اصل معنی سے آشنا ہیں؟ نہیں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے آج
کل کے لوگ محبت کے اصل معینی سے آشنا نہیں ہیں بلکے لوگوں نے دل لگی وقتی
جزبے اور حوس کو محبت کا نام دے کر اس لفظ کی خوبصورتی اور اسکی چاشنی کو
اس قدر دھندلا کر دیا ھے کے یہ بدنامی کی حدوں کو چھو لیا ہے بدنامی لفظ
چھوٹا ہے اسے وہ ناسور بنا دیا گیا ہے کے لوگ یے لفظ ادا کرتے ہوۓ خوف
کھاتے ہیں
مگر کیا واقعی محبت نفرت کے قابل ہے؟ محبت اک احساس ہے محبت تو وہ تھی جو
خدا نے اپنے نبی سے کی محبت وہ تھی کے جس کے جزبے سے سرشار حضرت ابراہیم
علیہ السلام اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لیۓ تیار ہو گۓ تھے دراصل محبت
ہمارے پیدا ہوتے ہی ہماری زندگی میں جنم لے لیتی ہے اور مرتے دم تک ہمارا
دامن نہی چھوڑتی اس دنیا میں آنے کے باد پہلی محبت ہمیں ماں باپ کی صورت
میں ملتی ہے ہمارے بہن بھاییوں کی صورت میں ملتی ہے اور وقت کی روانی کے
ساتھ محبت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے
محبت وہ احساس ہے جس کے تحت اک باپ اپنے بچوں کے لیے اپنے خون پیسبے سے
انکا مستقبل سنوراتا ہے اور اک ماں اپنا آپ پیچھے چھوڑ کر اپنے بجے کو
پروان چڑھاتی ہے اور محبت کی انتہا وہ ہے کےہ ہمارا رب ہمیں ہمارے بے انتہا
گناہوں کے باوجود بے پناہ نوازاتا ہے کیا پھر محبت کو گھٹیا کہنا جائز ہے؟
میں اک چیز واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ یہ جو کسی سکول کالج یا یونیورسٹی کی
چار دیواری کے اندر محبت جنم لیتی ہے جس کو ہم اپنی اخلاقیات کو پیچھے چھوڑ
کر جنم دہتے ہیں اور اسے اپنا جینا مرنا سمجھ کر خودی کو بھلا دیتے ہیں تو
با خدا اس فرق کو جانو سمجھو کہ وہ محبت نہیں وہ اک ایسا ناسور ہے جو ہمیں
اپنا اصل بھلا کر اندھروں میں لے جاتا ہے اس چیز کو پیچانو کے وہ کنسا جزبہ
ہے جو ہمارے لیے ناسور ہے اور وہ کنسی محبت ہے جس سے ہمارا دل منور ہوتا ہے
اس محبت کو پہچانو اور اس سے اپنے قلب و روح کو تقویت پہنچاؤ جس دن ہم اس
فرق کو پہچان گے وقتی جزبوں اور حوس کی بھینٹ اس خوبصورت لفظ کو مت چڑھاؤ
جس دن ہم محبت کا حقیقی مطلب جانے گے وہیں سے ہم خودی کو پہچان کر عشقِ
حقیقی کو پہچانے گے
|