سبھی نہیں مگر اکثریت مرنا نہیں چاہتی اور جو مرنا چاہتی
ہے وہ ساتھ یہ خواہش بھی رکھتی ہے کہ مرنے کے بعد اُسے یاد کیا جائے۔ خوش
قسمت ہیں وہ جو مرنے کے بعد اپنی بعض خوبیوں کی بنا پر یاد رکھے جاتے ہیں۔
یہ اعزاز بھی صرف اِنسانوں کے ہی حصہ میں آتا ہے ورنہ جانور بیچارے تو اپنی
ہزارہا خوبیوں کے باوجود بھی کسی کی یاد میں نہیں ہوتے۔ گدھا بھی قدرت کا
بنایا ہوا ایک عجیب جانور ہے یا یہ کہیے کہ ایک بدنصیب جانور ہے۔ بدنصیب
یوں کہ اس کی زندگی کے دِن کبھی پھرے ہی نہیں۔ پہلے زمانے میں یہ صرف مال
برداری کے کام آتا تھا مگر آج کے اِنسان نے اس کی ڈیوٹی بڑھا دی ہے اور اب
یہ مال برداری کے ساتھ ساتھ دوسرے اُمور جیسے رہٹ، ہتھ گاڑی کھینچنے اور ہل
وغیرہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو آدمی انتہائی درجے
کا محنتی ہوتا ہے لوگ اُسے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ حقیقتاً ایک ایسی
مخلوق ہے جسے ہم پیار یا غصہ دونوں حالتوں میں گدھا ہی کہتے ہیں۔ ہزارہ میں
مدفون چار پیرا گدھا واقعی میں خوش قسمت ثابت ہوا کہ جو اِس قدر مشہور ہو
گیا ورنہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے دوپیرے گدھے بھی پائے جاتے ہیں جو
دِن رات محنت تو کرتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کا ٹھیک استعمال نہ کرنے کے
باعث ہمیشہ گدھے ہی سمجھے جاتے ہیں۔
آپ پنجاب سے براستہ سڑک ہزارہ کی جانب آئیں یا پھر گلگت سے براستہ شاہراہ
قراقرام پنجاب جائیں تو حویلیاں اور ہری پور کے درمیانی علاقہ میں ایک ایسی
جگہ کے پاس سے آپ کا گزر ہو گا جو ’’کھوتا قبر‘‘ کہلاتی ہے اور در حقیقت یہ
ایک کھوتے (گدھے) کی ہی قبر ہے۔ چند سال قبل اِس گاؤں کا نام تبدیل کر کے
مسلم آباد رکھ دیا گیا ہے لیکن علاقہ کے مکین اب بھی اِس جگہ کو پْرانے نام
یعنی کھوتا قبر سے ہی جانتے ہیں اور نہ جانے یہ پُرانا نام کب تک یہاں کے
باسیوں کا یونہی منہ چڑاتا رہیگا۔ اس گدھے کے حوالے سے کافی کہانیاں مشہور
ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ اُنیسویں صدی میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل
شہید کے جہادی دستے نے سکھوں کے خلاف جہاد کے لئے بالاکوٹ جاتے ہوئے جب
ایبٹ آباد کے قریب خیمے نصب کئے تو آس پاس کی پہاڑیوں پر سکھوں کے قبضے کی
وجہ سے مجاہدین کو مشکلات پیش آنے لگیں۔ ایسے میں اُنہوں نے ایک گدھے کو
استعمال کیا چنانچہ یہ گدھا رات کی تاریکی میں مجاہدین کا اہم سازوسامان لے
کر اِدھر سے اْدھر ہوتا رہتا۔ گدھے کی راستہ نہ بھولنے کی خوبی نے اِس مشکل
میں مجاہدین کا خوب ساتھ دیا۔ کسی روز دشمن پر یہ راز کھل گیا تو اُنہوں نے
گدھے کو مار ڈالا۔ مقامی روایات کے مطابق یہاں قبر میں وہی گدھا دفن ہے جسے
جنگی ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔
دوسری کہانی کے مطابق یہاں مقامی پہاڑی پرفضل دین نامی ایک بااثر زمیندار
رہتا تھا جس نے دیگر مال مویشیوں کے علاوہ ایک عدد گدھا بھی پال رکھا تھا
جو نہایت ہی ہوشیار تھا۔ گاؤں کے اکثر لوگ اُس زمیندار کے کھیتوں میں کام
کرتے۔ پورے علاقہ میں چونکہ پانی کا ایک ہی کنواں تھا لہٰذا خواتین وہاں سے
پانی نکال کر چمڑے کے مشکیزوں میں بھر کر گدھے کے اوپر رکھ کر اُسے کھیتوں
کی طرف ہانک دیتیں اور وہ وہاں کام کرنے والے لوگوں تک بہ آسانی پانی پہنچا
دیتا جبکہ کھیتوں سے کسان گدھے پر اناج وغیرہ لاد کر ہانک دیتے تو وہ اُسے
زمیندار کے گھر پہنچا دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ گدھا پورے گاؤں کے گھروں
اور لوگوں سے واقف ہو گیا تھا ، خواتین گھروں میں کھانا بنا کر اس پر لاد
دیتیں اور وہ بہ آسانی اسے تمام کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں تک پہنچا
دیتا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مقامی لوگ پہاڑی پر لکڑیاں کاٹ رہے تھے اور
گدھا بھی اُن کے ساتھ تھا جو گھاس چرتے ہوئے کافی دور نکل پڑا۔ اسی دوران
گدھے پر شیر نے حملہ کر دیا جس سے وہ گھاٹی میں جا گرا اور زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے دُنیا سے کوچ کر گیا۔ بعد ازاں اُس کا تین دِن تک گاؤں کے لوگوں
نے سوگ منایا اورپھر قبر بنا کر دفن کر دیا۔ اُس کی خدمات کو خراج تحسین
پیش کرتے ہوئے اس جگہ کا نام ’’کھوتا قبر‘‘ رکھ دیا گیا۔
اس گدھے کی شہرت جب انگریز دور میں ہزارہ کے ڈپٹی کمشنر ڈی ایچ واٹسن تک
پہنچی تو وہ بھی اس پر تبصرہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ 1907ء میں اپنی تحریر
کردہ کتاب ’’دی گزیٹیئر آف ہزارہ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’یہ نام اس جگہ کو
دیا گیا ہے جہاں ایک چھوٹا بازار ہے اور یہ ایبٹ آباد سے چھ میل دور ایبٹ
آباد۔حسن ابدال روڈ پر تانگوں کا ایک سٹیشن ہے۔ اس کا نام اس قبر کی وجہ سے
پڑا جو سلہڈ ندی کے دائیں کنارے پر پُل سے ذرا دْور قبرستان میں ہے۔ اس کے
متعلق ایک کہانی مشہور ہے۔ اس کہانی کے مطابق سکھ دور سے پہلے دہمتوڑ کے
دیہاتیوں نے سلہڈ کی زمینوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ فاصلہ
اِتنا زیادہ تھا کہ دہمتوڑ کے کسانوں کو دوپہر کا کھانا گاؤں جا کر کھانا
مشکل ہو گیا۔ اُن کی عورتیں کھانا ایک گدھے پر رکھ دیتیں اور اُسے آزاد
چھوڑ دیتیں۔ وہ اکیلا کھانا لے کر اپنے مالکوں کے پاس پہنچ جاتا۔ جب وہ
مالکوں کے قریب آتا تو ہنہناتا۔ آدمی آتے اور اپنا کھانا اُتار کر کھا لیتے۔
خالی برتن پھر گدھے پر لاد دیئے جاتے اور وہ واپس اکیلا دہمتوڑ پہنچ جاتا۔
مقبوضہ زمینوں کے پْرانے مالکان اِتنے طاقتور نہ تھے کہ وہ دہمتوڑ والوں سے
اَپنی زمینیں چھڑا سکتے۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اِس نتیجے پر
پہنچے کہ اگر اس گدھے کو مار دیا جائے تو اس کے مالکان کے لئے یہ بڑا مشکل
ہو جائے گا کہ وہ روزانہ کھانا کھانے کے لئے اپنے گاؤں میں جائیں اور پھر
واپس آ کر زمین کاشت کر سکیں۔ ایک دِن وہ گدھے کے راستے میں بیٹھ گئے۔
جونہی اُنہیں گدھا نظر آیا، اُس کو مار دیا۔ گدھے کے مالکوں کو اس کی موت
کا بڑا دُکھ ہوا۔ اُنہوں نے اس کے مردہ جسم کو چیلوں اور گیدڑوں سے بچانے
کے لئے دفن کر دیا اور اس کی قبر پر پتھروں کا ایک ڈھیر بنا دیا۔ یہ ڈھیر
آج بھی موجود ہے۔‘‘
یہ سچ ہے کہ دُنیا میں کوئی کھوتا محنت سے گھوڑا نہیں بن سکتا لیکن دُنیا
کی کوئی طاقت کسی کھوتے کو محنت کے ذریعے اچھا گدھا بننے سے بھی نہیں روک
سکتی۔ قبر میں دفن گدھے نے بھی اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنی زندگی
میں گھوڑا تو نہیں بن سکا لیکن گدھا بن کر بھی تاریخ میں امر ہو گیا۔بزرگوں
کا یہ کہا سچ ہے کہ زندگی میں کچھ ایسا کریں کہ ہم مریں بھی تو اپنے حصے کا
چراغ جلا کر مریں۔ ہمارے مرنے کے بعد جب لوگ ہمارے جلائے ہوئے چراغ کی
روشنی سے فائدہ اُٹھائیں تو ہمیں مر کر بھی فائدہ ہو گا اور ہم مرکر بھی
زندہ رہیں گے۔ یوں جینے کا بھی مزہ آئے گا اور مرنے کا بھی۔ بے شک اِنسان
ایک نہ ایک دِن مر جاتا ہے مگر اِنسان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کسی نہ
کسی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اس کہانی میں ایک سبق یہ بھی پوشیدہ ہے
کہ ہم چاہے نکھٹو ہوں یا گدھے کی طرح دِن رات کام کرتے رہیں تاہم اپنی
زندگی میں کچھ ایسا انوکھا ضرور کر جائیں جو ہماری شہرت کی وجہ بن جائے۔
مُلاّ نصیر الدین کو ہی دیکھ لیں جو اپنی اُلٹی سیدھی حرکتوں سے نہ صرف خود
شہرت کی بُلندیوں پر پہنچے بلکہ ساتھ ہی اپنے گدھے کو بھی مشہور کرا دیا۔
آج مُلّا جی سے نتھی ہر قصہ کہانی یا لطیفہ گدھے کی شراکت کے بغیر ادھورا
ہی لگتا ہے۔ ہزارہ میں مدفون یہ بے چارہ گدھا محض اپنے نام کی وجہ سے خواہ
مخواہ ’’گدھا‘‘ مشہور ہو گیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذہنی معیار ہم
اِنسانوں سے قدرے بُلند تھا۔
٭٭٭
|