وہ مسکرا کر کہنے لگی
باتیں کیا کریں
حامد نے کہا
جی !
ضرور کروں گا آپ کے ساتھ
وہ شرارت سے بولی
مجھ سے تو کرتے ہیں
اس سے بھی کیا کریں
حامد نے پوچھا ، کس سے ؟
آراستہ بولی
اپنے آپ سے ، جی
میں خود کلامی نہیں کرتا ، جی۔
جواب ملا ، تو کیا کریں ۔ اس سے فایدہ ہو گا۔
بہت سی الجھنیں سلجھ جائیں گی
حامد کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی ۔ عجب سے تعجب میں غضب کی پروا نا کرتے بولا۔
اپنے آپ سے باتیں کروں گا تو لوگ دیوانا سمجھیں گے
تو سمجھنے دو اور وہ تو تم ہو ہی ، سانولی کی محبت میں ۔
اس طرح ہم زاد سے بات کرنا سانولی کی جدائ کا غم تھم کر کم کر جاے گا اور
شائد آنکھ نم کر جاے گا ۔ ہم زاد کوئ نیا خیال ڈال جاے گا ۔
خیال ہی تو حقیقت کو جنم دیتا ہے ۔ سوچ ہی حقیقت کا روپ دھارتی ہے ۔ جیسی
سوچ سوچتے ہیں ویسے واقعات ہونے لگتے ہیں ۔
حامد گھر آ چکا تھا ۔ اب ان باتوں نے جیسا خیال پیدا کیا ، موبائل پر ویسی
وڈیو اچانک نمودار ہوئ۔
کوئ استاد کہانی سنا رہے تھے ۔
یقین کی بات ہو رہی تھی کہ انسان کا یقین کیا کچھ کر سکتا ہے۔
پانچ استاد ایک جگہ بیٹھے ۔ روح کے بلانے کا قدیم روایتی عمل زیر بحث بلکہ
زیر عمل تھا۔ ساتھ ایک نمل تھا۔ ریزے سمیٹنے میں مصروف عمل تھا اور یہ لوگ
پرانے تجربے سمیٹنے میں مصروف تھے جو کچھ کے نزدیک اک دماغی خلل تھا۔
پانچوں استاد، روز اپنے آپ کو لاک ڈاؤن کر کے غور و فکر کرتے کہ کیا روح کو
بلایا جا سکتا ہے؟
کئ بار کی ناکامی کے بعد ان کا خیال اور ان کا یقین ایک وجود تخلیق کر چکا
تھا جو ان کے تصور کی شکل و صورت لیے آ موجود ہوا ، جب اس کا نام لے کر
آواز دی گئ آنکھیں بند کئے اور آنکھ بند کر کے یقین کیے ۔
پانچوں کو پیغام کی صورت ان کے سوالوں کے جواب دیتا رہا ۔ یہ سلسلہ جب
منقطع ہوا جب کسی سبب سے ایک نے آنا چھوڑا تو پھر اس وجود نے بھی آنا چھوڑ
دیا۔
تھوڑا سا علم یقین کے ساتھ بہت آگے پہنچا دیتا ہے اور بہت سا علم یقین کے
بغیر کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ |