وہ داستان جو مصائب میں دفن ہے

مملکت ِ خداداد پاکستان کی ان پے در پے اور مسلسل ناکامیوں کا آغاز اسی دن سے ہی شروع ہو گیا تھاجب ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے طیارے نے روس کی دعوت کو مسترد کر کے امریکہ کی جانب اڑان بھری تھی، بس وہ دن ہے اور آج کا دن کہ اس خطے کی مشکلات اور محرومیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی قوم کے غلامانہ طرزِ زندگی کی یہ رات طویل تر ہو رہی ہے اوراس کی سیاہی ہے کہ مزید گہری ہی ہوتی جارہی ہے ۔ پاکستان کی منتخب عوامی حکومتوں اور فوجی حکمرانوں نے ہر دور میں عوامی خواہشات کا گلہ دبا کر اور محب وطن حلقوں کو دیوار کے ساتھ لگا کر اپنے اس ”دوست“ کوخوش رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اس ”لے پالک دوست“کی خوشنودی کی خاطر عوامی مفادات کا خون بہا کر آخری حد وں کو بھی کراس کرچکا ہے جس کی بناءپر وطن عزیز میں چہار سو تباہی اور بربادی کے آثار ہویدا ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کہ جس میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کیا اور اس ”بھائیوالی “بلکہ کوئلے کی” دلالی“ میں ہم درجہ بدرجہ آگے ہی بڑھ رہے ہیں اور بدنامی کی کالک اپنے منہ پر لگائے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ۔ عالمی استعمار کی اس اندھی تقلید نے ہمیں نہ ادھر کا چھوڑا ہے نہ ادھر کا، بس زیادہ نہیں اگر محض چلو بھر پانی ہی کہیں دستیاب ہو تو ہمیں اس میں ڈوب مرنا چاہیے کہ یہود و ہنود کی غلامی سے اپنا منہ کالا کر کے بھی ہماری ساری کی ساری ”اکڑفوں“ جوں کی توں موجود ہے، ہم اتراتے پھر تے ہیں اور آزادی و خود مختاری کے واشگاف نعروں میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ سیاسی و عسکری قیادت کی در فنطنی ملاحظہ کیجیے کہ اب بھی سینہ تان کر دنیا کو یہ پیغام دیے جا رہے ہیں کہ خبردار ! ہم بہت ہی غیرت مند قوم ہیں اگر کسی نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی تو اس کی آنکھیں پھر اس کے چہر ے میں نہیں رہیں گی، لیکن عالمی دنیا کے سامنے تو اب اس را ز سے اور اس بھید سے پردہ اٹھ چکا ہے کہ ہم کتنے آزاد ، کتنے خود مختار اور اپنی دھرتی کے کس حد تک محافظ ہیں ۔۔۔؟دو مئی 2011ءکا امریکی فورسز کا ایبٹ آباد آپریشن پاکستان کی آزادی ، خود مختاری اور سا لمیت پر کتنا بڑا اور بھیانک حملہ تھا جس نے پوری پاکستانی قوم کو یا تو عالمی استعمار کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا یا پھر اپنے بلوں میں گھسنے پر مجبور کر چھوڑا ۔ قوم ابھی اس صدمے سے نکل نہیں پائی تھی اور ایبٹ آباد آپریشن کی باز گشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ کراچی میں پاکستان نیوی کی بسوں کوHitکرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر اس کے ساتھ ہی نیوی کے مہران بیس پر ایک فیصلہ کن یلغا ر کر کے پاکستان کی رہی سہی دفاعی ساکھ کو بھی تہہ خاک کر دیا گیا ۔ جب سے فوجی آمر پرویز مشرف نے اس ملک کو امریکہ کے آگے مکمل طور پر گروی رکھا ہے اس دھرتی کی خود مختار ی اور سا لمیت یکسر داﺅ پر لگ چکی ہے ۔ امریکی وزیر داخلہ ہیلر ی کلنٹن کا حالیہ دورہ پاکستان اور رعونت آمیز لہجے میں پاکستانی حکام سے بات چیت سے تو منظر نامہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ صرف اور صرف اس دھرتی کو مٹانے کے درپے ہے ، ہیلر ی کلنٹن نے کہا کہ پاکستان کو اب سمجھ لینا ہوگا کہ امریکہ کی مخالفت کرنے ، الزام تراشیاں کرنے اور سازشیں پھیلانے سے اس کے مسائل اور مشکلات مزید بڑھیں گی،پاکستان آخر ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کاروائی کیوں نہیں کرتا جو پاکستان میں بیٹھ کر دوسرے ممالک کے خلاف تخریبی کاروائیاں کرتے ہیں۔ گیارہ سالہ اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پانچ ہزار فوجی جوانوں اور تیس ہزار عام شہریوں کے خون کا نذرانہ امریکہ بہادر کو پیش کرنے والے آزاد ، خود مختار ، ایٹمی طاقت ، جدیدتربیت اور اسلحے سے لیس مضبوط فوج کے حامل ملک پاکستان کے کردار کوان الفاظ میں ہدیہ تبریک پیش کیا گیا اور فرعونیت بھرے لہجے میں کہا گیا کہ ”پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پنا ہ گاہیں اور ایمن الظواہری ، ملا عمر ، حقانی نیٹ ورک اور کمانڈر الیاس کشمیری جیسے دہشت گرد موجود ہیں“۔ امریکی وزیر داخلہ ہیلری کلنٹن اور زرداری ملاقات میں بڑی مغز کھپائی اور صدر مملکت کی فہم و فراست کے باعث یہ طے پا یا کہ آئندہ امریکہ اور پاکستان مل کر وطن عزیز میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کاروائیاں کریں گے ، گویا کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہے گی ، پاکستان کی مسلح افواج پر دہشت گرد حملے ہوتے رہیں گے، فوجی جوانوں اور عوام کے لاشے اسی طرح تڑپتے رہیں گے اور پاکستانی قوم کی سیاہ اعمالیوں ، ناکامیوں اور نامرادیوں کے باب میں مزید اضافہ ہو تار ہے گا، گویا کہ ابھی پاکستانی قوم کو خاطر جمع رکھنی چاہیے اور حکمرانوں ، عالمی استعمار کی جلائی ہوئی بھٹی میں جلنے مرنے کے لیے خود کو ہمہ وقت تیار اور سر شار رکھنا چاہیے۔ ایک شعر پاکستان کے حکمرانوں اور عسکری قیادت کے نام
و ہ داستان جو مصائب میں دفن ہے اب تک
زبان ِ خلق پر جب آگئی تو کیا ہو گا۔۔۔؟
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 37003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.