نہیں!!! آپ نے غلط انٹرپریٹ کر لیا۔حقیقی مذہبی کوڈ کا
نفاذ اور اسکے نتائج ان تینوں نقاط کو غلط ثابت کرتے ہیں۔
فری اسپیچ
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن
ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ - 16:125
(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف
بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک
گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان
سے بھی خوب واقف ہے
فری تھاٹ
وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡ 42:38
اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں
وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ 4:58
جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو
لَـكُمۡ دِيۡنُكُمۡ وَلِىَ دِيۡنِ 109:6
تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر
كَذٰلِكَ نُـفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ10:24
جو لوگ غور کرنے والے ہیں۔ ان کے لیے ہم (اپنی قدرت کی) نشانیاں اسی طرح
کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
فری وومن
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَحِلُّ لَـكُمۡ اَنۡ تَرِثُوا
النِّسَآءَ كَرۡهًا ؕ وَلَا تَعۡضُلُوۡهُنَّ لِتَذۡهَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ
اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى
اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــًٔـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا
كَثِيۡرًا 4:19
مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس
نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں
میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو
روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند
ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی
پیدا کردے
زیر نظر تصویر آیان ہرسی علی کی ہے جو صومالی نژاد ڈچ امیرکن سماجی راہنما،
سیاست دان، مصنف اور سکالر ہیں۔ اس تصویر میں درج ان کے الفاظ دیکھ کر مجھے
حیرت ہوئی کہ ایک معمولی سا فلسفہ سمجھنے میں بھی کوئی دانشور اور سمجھدار
انسان ایسی غلطی کیسے کر سکتا ہے؟ اور پھر الفاظ کے ایسے غیر ذمہ دار چناؤ
کا مرتکب کیونکر ہو سکتا ہے؟
ایک بات تو طے ہے۔ موجودہ دور میں مذہبی نظریات کے جعلی مفہوم اور غیر
حقیقی تشریحات کا سارا کریڈٹ سیکولر یا لبرل طبقے سے زیادہ مذہبی طبقے کو
جاتا ہے کیونکہ اعمال دراصل یقین، عقیدے اور سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔ مشہور
کہاوت ہے کہ
"Actions speak louder than words"
ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی اور انجینئر محمد علی مرزا جیسے سکالرز کی
مقبولیت کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کا ترجمہ منطقی اور عقلی
بنیادوں پر لوگوں تک پہنچانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ حالانکہ آسمانی علم قطعا
اتنا سادہ نہیں کہ پہلے تو اصل متن کی بے شمار جہتوں سے چشم پوشی کی جائے
اور پھر ترجمے کے نتیجے میں سامنے آنے والی تعلیمات اور احکامات کو بھی
انکی Face value پر سمجھا اور سمجھایا جائے۔ لیکن کیا کریں؟ جب مذہبی طبقہ
عمومی طور پر مذہب اور خصوصی طور پر دینِ اسلام کے فلسفے کو سمجھنے اور
اسکی حقیقت پر زور دینے کی بجائے اپنی ذاتی سوچ اور ترجیحات کی روشنی میں
آفاقی تعلیمات کا تعین کرے گا تو بگاڑ تو پیدا ہو گا۔
پہلی بات تو یہ کہ بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مذاہب کی تاریخ میں
درجہ بدرجہ الہامی اور زمینی اپ گریڈیشن کے بعد آج خالق کے احکامات کا درست
احاطہ کرنے والا مذہب ، مذہب اسلام ہے۔ اب لوگوں نے ہمارے عقیدے پر تو نہیں
رہنا اور نا ہی اسلام کی اپنی تعلیمات میں بذریعہ جبر اشخاص کو راغب بہ
اسلام کرنے کا ذکر ہے، تو مطلب یہ کہ ہمیں صرف اتنا حق حاصل ہے جب بھی کوئی
مذہب پر انگلی اٹھائے تو اسے اتنا بتا دیں کہ مذہبی تعلیمات اور مذہب پرست
طبقے کے اعمال دو مختلف چیزیں ہیں۔ اور مذہب اسلام قطعی طور پر ایسے افراد
کی حرکات کا ذمہ دار نہیں ہے جو اس کی تعلیمات سے انحراف برتتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب نے انسان سے کسی قسم کی آزادی نہیں چھینی، آزادی انسان
سے انسان نے ہی چھینی ہے وگرنہ مذہب کی جانب سے لگائی جانے والی قدغن کا
مشاہدہ اگر کھلے دل سے کیا جائیگا تو معلوم ہوگا کہ یہاں "امر بالمعروف
ونھی عن المنکر" کا تصور بالکل اس قانون جیسا ہے جس میں ہر اس کام کی اجازت
دی جائے جو وسیع تر مجموعی معاشرتی فلاح میں کارگر ثابت ہو اور ہر اس کام
سے روکا جائے جو کسی بھی انفرادی شخص کی زندگی میں یا اس سے منسلک دوسرے
افراد کی زندگی میں بگاڑ پیدا کر سکے۔
مذہب قطعی طور پر سچ کہنے، تفکر و تدبر کرنے، اور عورت کو دنیاوی معاملات
میں آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کی ممانعت نہیں کرتا۔ مذہب ایک مشورہ دیتا
ہے، ایک راستہ دکھاتا ہے اور بس۔ اب اگر بظاہر مذہب کے پیروکار اپنی مرضیوں
کو مذہب کا نام دے دیں تو اس میں مذہب کا کیا قصور؟
|