پاکستان کو ﷲ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ قدرتی
نعمتوں کے علاوہ ہمیں جو تاریخی ورثہ ملا ہے جن میں ٹیکسلا موہنجو دوڑو،
تخت بائی، سوات کے کھنڈرات ، مغلیہ کے قلعے ، مساجد ، پرانے قدیم مقبرے ،
خانقاہیں ، شاہراہیں وغیرہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ان دیگر تاریخی مقامات
سے ملنے والی اشیا ء ہمارے عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔جبکہ اربوں
روپے مالیت کے مجسمے ، سکے، دھاتی آلات کی اشیاء برتن وغیرہ ملی بھگت سے
سمگل بھی کئے جاتے ہیں۔لیکن اسکے باوجود ہمارا تاریخی ورثہ اتنا قوی ہے کہ
اگر ہمارے اندرونی حالات بہتر ہوتے تو دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے۔ جیسا کہ
ساٹھ ستر کی دہائی میں آتے تھے۔اور ہم ان سے بھاری زرمبادلہ کماتے تھے۔
لیکن ہماری ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے باعث ہمارا ملک باہر کے سیاح تو
چھوڑیں اپنے ملک کے سیاحو ں کی نقل و حرکت کیلئے موزوں نہیں رہا۔اور یوں ہم
اس قیمتی ورثہ سے کچھ حاصل نہیں کر پا رہے۔الٹا محکمہ آثار قدیمہ کی نا
اہلی اور کرپشن اور وسائل کی کمی کے باعث یہ قیمتی اثاثے زبون حالی کا شکار
ہیں۔ غیر قانونی کھدائیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ہمارے کئی علاقے قلعے
مقبرے ، تاریخی مساجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ لیکن جو حکمران زندہ لوگوں کے
مال و اسباب اور جان کا تحفظ نہ کر سکیں وہ مردوں اور پرانے مال و اسباب کا
تحفظ کیا کرے گی۔ مجھے بچپن سے تاریخی مقامات ، انکی سیر، پرانے سکون عجائب
گھروں وغیرہ سے کافی دلچسپی رہی ہے اور تاحال ہے۔ میرے اس شوق نے مجھے
پرانے قدیم سکوں کو جمع کرنے کے شوق کی طرف راغب کیا۔ اس شوق میں میرے پاس
قبل مسیح ، رومن ، ایمپا ئر ز ، کنشکا ء 32قبل مسیح ، بابر ، اکبر ، محمد
شاہ تغلق ، سلطان محمود غزنوی ، جہانگیر ، ہمایوں ، شاہ جہان ، ابراہیم
لودھی ، محمد شاہ عالم ، نظام د کن، ریاست بہاولپور ، اورنگ زیب عالم گیر ،
ٹیکسلا ، برٹش ایمپا ئرز اور دیگر کی قیمتی چاندی ، تانبے ، کاپر وغیرہ کے
سکے اکٹھے ہو گئے۔ انکے علاوہ صحابہ کرام کے دور کے سکے بھی مجھے ملے
کیونکہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد افغانستان ، کے پی کے، بلوچستان، سندھ،
ہندوستان کے علاقوں میں دین کی دعوت کے لئے تشریف لائے -
ظاہر ہے وہ اپنے ساتھ اپنی کرنسی بھی لائے ہوں گے۔ ڈیرہ اسماعیل خان ،
پشاور کے علاقوں میں جن صحابہ کرام کا آنا ہوا ان میں جلیل القدر صحابی
رسول ? حضرت سنان بن محبق ہذلی جنکو پشاور کے لوگ اصحاب بابا کے نام سے یاد
کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہیں انکا مزار وادی پشاور کے علاقے دادو زئی میں واقع
ہے۔ وہ اسی مقام پہ کفار کے خلاف جہاد میں شہید ہوئے۔ یہ وہ صحابی ہیں جو
اسلام کے امیر کی حیثیت سے مغربی پاکستان کے شمال مغربی علاقے پشاور میں
اسلام کی روشنی لا ئے ڈیرہ دویڑن میں بھی انکی بدولت اسلام کی روشنی ۰۳ ھ
میں اور شمالی اضلاع یعنی پشاور ڈویڑن میں ۴۴ھ میں پھیلی۔ ہمیں یہ تاریخی
حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ جو ملک آج جغرافیائی ، طبعی اور سیاسی حوالے سے
ایران ، افغانستان، سرحد پنجاب سند ھ اور بلوچستان سے یا کئے جاتے ہیں
مسلمانوں کی آمد سے قبل انکے نام بالترتیب ایران، مکران، سیتان، طخا وستان
کابل، زابل ، خراسان زرنج ، قفص، روہ، توران، سندھ تھے۔ ایران ، کرمان، اور
سیتان کے ممالک ۴۲ ھ میں حضرت عمر ؓ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ اس طرح حضرت
عثمانؓکے زمانے میں ۵۲ھ میں حضرت عبد اﷲبن عامر بن کریز کی سرکردگی میں
کابل فتح ہوا۔ بات تاریخی ورثے کی ہورہی تھی۔ صحابہ کرامؓ کی آمد اور کئی
دیگر تاریخی مقامات کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان کافی اہمیت کا حامل شہر
ہے۔ لیکن حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔ یہاں پر پانچ ہزار قبل کے رحمان
ڈھیری کے کھنڈرات مدفون ہیں جنکے بارے میں اب بھارت میں ایک مسلمان کے اس
دعوے کے بعد نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ہندؤں کے بھگوان شری رام چند رجی کی جنم
بھومی ایو دھیا ا صل میں ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ رحمان ڈھیری ہے جسکا
پرانا نام رام ڈھیری تھا۔ ہندوستان کے مولانا محمد عبدا لرحیم قریشی سجو کہ
بابری مسجد کے سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی کے رکن ہیں نے دعویٰ کیا ہے کہ
تمام ویدوں اور پرانوں کے مطابق شری رام چندر جی کا خاندان ایک سو کا
خاندان تھا۔ یہ خاندان اس علاقے میں حکومت کرتا تھا جسے ویدک زبان میں ستہ
سندھ کہا جاتا تھا۔ ستہ سندھ کا مطلب وہ علاقہ جہاں دریائے سندھ بہتا ہے۔
پنجاب کی 5ندیاں بہتی ہیں اور دریائے سروستی بہتی ہے۔ یہ دریا کہاں ہیں ؟
یہ دریا جدید ریسرچ کے مطابق افغانستان میں ہے تو اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے
کہ شری رام چندر جی کاخاندان جس علاقے پہ حکومت کرتا تھا وہ علاقہ مشرقی
افغانستان سے لے کر سندھ تک تھا۔ اور شری رام چندر جی بھی ضلع ڈیرہ اسماعیل
خان کے مقام رحمان ڈھیری میں ہی پیدا ہوئے سروے آف انڈیا کی ریسرچ بھی اس
کی نشان دہی کرتی ہے۔ رحمان ڈھیری کا مقام ڈیرہ سے 20کلو میٹر دور ڈیرہ
بنوں روڈ پر واقع ہے۔ یہ پانچ سال قبل کے کھنڈرات ہیں یہ شہر تین سے چار
مرتبہ تباہ ہوا اب مکمل لال مٹی کا ڈھیر ہے کیونکہ میری ذرعی زمین ان آثار
قدیم کے ساتھ ہے اس لئے میرا اکثر وہاں جانا ہوتا ہے۔ اس مقام کو بر صغیر
کا پہلا چار دیواری والا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 80کی دہائی میں پہلی
کھدائی ہوئی جسمیں مٹی کے برتن ، چوڑیاں ، گھڑے وغیرہ دریافت ہوئے جو پشاور
میوزیم کی زینت ہیں۔ اب دوبارا یہاں پر کھدائی کا کام تھوڑا بہت شروع ہے
جسے سائنسی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ڈیرہ ہی کے علاقے میں بلوٹ
شریف کے قریب صحابہ کرام کی قبروں کے علاوہ راجہ بل کے 3000 قبل مسیح کے
کھنڈرات موجود ہیں جبکہ ماہڑہ کے قریب 400سال پرانے مغلیہ دور کے شہیدوں کے
مزارات سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں اگر حکومت ان کی طرف توجہ دے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیرہ میں محکمہ آثار قدیمہ اور صوبائی حکومت ملکر
عجائب گھر تعمیر کرے جہاں پر تاریخی لحاظ سے اس اہم شہر کے ورثے ، ثقافت ،
ادب کو محفوظ کیا جاسکے ، ڈیرہ کے علاوہ ضلع بنوں کے علاقے بھرت گاؤں میں
بھی قبل از مسیح کا مدفون شہر محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کا منتظر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|