جعفر بھائی منصوری سورت کے رہنے والے تھے ۔ ان کاتعلق نہ
دلی سے تھا اور نہ سرکار دربار سے تھا ۔ اس کے باوجود انہوں نے ممبئی سے لے
کر دبئی تک کروڈوں لوگوں کے دل پر حکومت کی ۔ ان لوگوں کے دلوں پر جنھوں نے
ان کا نام تک نہیں سنا تھا ۔ وہ لوگ جو ان سے واقف نہیں تھے ۔جنھیں یہ نہیں
معلوم تھا کہ وہ کس قدر خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے ۔ جن کو ان کی مہمان
نوازی سے کبھی سابقہ پیش نہیں آیا تھا اور جنھوں نے ان کے اپنے ہاتھ کا
کوئی پکوان کبھی نہیں چکھا تھا ۔ وہ لوگ جن کے حصے میں جعفر بھائی کی عیادت
و خدمت یا مدد و استعانت بھی نہیں آئی تھی ۔ وہ لوگ بھی جو ان کی شعرو سخن
کی محفلوں میں کبھی شریک نہیں ہوسکے تھے ۔ وہ سب لوگ آج سوگوار ہیں جنھیں
اپنی زندگی میں کم ازکم ایک بار دہلی دربار کی بریانی یا دوروٹی کھانے کا
موقع ملا تھا ۔ ان مداحوں میں سے ایک معروف صحافی راجدیپ سردیسائی بھی ہے۔
راجدیپ سردیسائی ایک زمانے میں ممبئی ٹائمز آف انڈیا میں ہوا کرتے تھے ۔
برسوں پہلے دہلی منتقل ہوگئے فی الحال ہندوستان کے سب سے بڑے چینل کے مدیر
اعلیٰ ہیں ۔ ان کے سامنے ہر روز خبروں کا انبار ہوتا ہے جس میں سے اہم ترین
خبروں کو الگ کرکے پیش کرنا ان کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے لیکن وہ بھی جعفر
بھائی کی رحلت کے بعد یہ ٹویٹ کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’وہ ممبئی کے بریانی
کنگ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ انہوں ممبئی کی بہترین ڈبہ گوشت سے ضیافت
کی۔ ممبئی دہلی دربار کے جعفر بھائی رحلت فرماگئے : کالج کے زمانے سے اب تک
آپ کے بہترین کھانوں کا شکریہ ۔ آپ کی روح کو سکون نصیب ہو(آر آئی پی)
‘‘۔ یہ ایک خاص آدمی کا ایک بہت ہی خاص تعزیتی پیغام ہے۔
جعفر بھائی کا شمار ممبئی کے عمائدین شہر میں ہوتا تھا۔ ان کا حلقۂ احباب
بہت وسیع تھا اوران کی انتقال کی خبر نے سب کو غمگین کردیا ہے لیکن اس کا
سب سے زیادہ قلق تو ان بہرائچ کے باورچیوں کو ہوگا جنھیں جعفر بھائی نے
اپنے خاندان کا فرد سمجھتے تھے ۔ جن کے دکھ درد میں وہ ہمیشہ شانہ بشانہ
کھڑے رہتے تھے ۔ اپنے ہم منصب لوگوں کے ساتھ تعلق استوار رکھنا مجبوری ہوتی
ہے اور سہل بھی ہوتا ہے لیکن اپنے غریب مسکین اہلکاروں کا غمخوار ہونا
آسان نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر سلطان پردھان نہایت کم گو عالمی شہریت یافتہ کینسر
کے ماہر ہیں ۔ ٹاٹا کینسر اور پرنس علی خان میں ان کا مطب ہے آپ فرماتے
ہیں جعفر بھائی سے میرا رابطہ ٹیلی فون کے ذریعہ ہے۔ اترپردیش سے آنے والے
کئی مریض اور ان کے ملازمین جعفر بھائی کے حوالے ان تک پہنچتے ہیں۔ جعفر
بھائی ان کی رہنمائی کرتے ۔ ان کےقیام و طعام کا بندوبست کرنے کے علاوہ ان
معاشی مدد بھی کرتے ۔ ہم لوگ فون پر بات کرتے تو وہ مریضوں کےعلاج کی بابت
میری خدمت کو سراہتے ۔
جعفر بھائی جیسا مصروف ترین کاروباری جو اپنے ہر گاہک میں ذاتی دلچسپی لیتا
ہو اپنے ساتھ کام کرنے والے محنت کشوں کا اس قدر خیال کرے یہ تصور بھی محال
ہے؟ لیکن اس حقیقت کی شہادت ایک ایسا شخص دے رہا ہے جس کاجعفر بھائی سے
کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اس دنیا میں جعفر بھائی جیسے بہت سارے لوگ
ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر بہت نیچے سے شروع کیا اور عظیم بلندیوں پر
پہنچے لیکن اس پر پہنچ کر اپنے پرانے دنوں کو یاد رکھنے والے لوگ تو قصے
کہانیوں میں ہی ملتے ہیں ۔ جعفر بھائی ان میں سے ایک نادرِ روزگار انسان
تھے اس عمر تک اپنے ہاتھ سے پکوان بنایا کرتے ۔ سلطان پردھان کہتے ہیں کہ
جعفر بھائی کی جان چھڑکنے والی شفقت ہمیشہ میرے شامل حال رہتی تھی ۔ وہ
اپنے ہاتھ سے بریانی، پایا اور دال گوشت بناکر ٹفن میں میرے یہاں روانہ
کرتےاور ذائقہ دار سبزیاں بھی بناکر بھیجتے۔ حال میں ایک دوست نے ان کے
ہاتھ کی بنی آلو پالک کھاکر کہا اوہو یہ تو کسی پکےّ گجراتی کے ہاتھ کا
پکوان ہے۔ ایسا ہی کم ہوتا ہوگا کہ کوئی پکوان اپنے خالق کی گواہی دے۔
جعفر بھائی کے ایک اور خاندانی معالج پارسی ڈاکٹر تہیمینٹون اُدواڈیاان کی
نرم گفتاری، سادگی اور انکساری سے بہت متاثرتھے کیا ۔ اودواڑیہ کے مطابق
جعفر بھائی برتن دھونے والے ملازم سے لے سب سے بڑے باورچی تک سب سے خوش
اخلاقی سے بات کرتے اور اپنے دوستوں کے لیے صبح ۵ بجے اٹھ کر خود سبزی
کاٹنے لگتے ہیں ۔ دولت ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ایمانداری اور
معیاری خدمت سے انہوں نے اپنا نام روشن کیا ۔جعفر بھائی کو صرف بریانی کنگ
کہنا ان کی حیثیت کو کم آنکنا ہے۔ آج کل ناو نوش میں بھی مغرب کا بول
بالہ ہے پہلے اندھیری ویسٹ میں نکلو تو ایک جانب میک ڈونالڈ تھا اب دونوں
جانب سے اس نے لوگوں کو گھیر لیا ہے ۔ جو گیشوری میں دہلی دربار کے بغل میں
میک ڈونالڈ یہ سوچ کر کھلا ہوگا کہ لوگ دہلی دربار کی بریانی کے چکر میں
آئیں گے اور میک ڈونالڈ کا برگر کھاکر جائیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت
کے ساتھ دہلی دربار میک ڈونالڈ میں ضم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ میک
ڈونالڈ کے گاہکوں بھی دہلی دربار خوشبو اپنی جانب کھینچنے لگی اور اب دہلی
دربار نے اسے نگل لیا ہے ۔ میک ڈونالڈ کو اپنی دوکان نصف کلومیٹر دور لے
جانا پڑا ہے ۔ ہوا کے رخ کے خلاف اپنا غلبہ قائم کرنا اسے کہتے ہیں ۔ڈاکٹر
اود واڑیہ جیسے کامیاب لوگ اسی جعفر بھائی کی کامیابی کا لوہا مانتے ہوئے
کہتے ہیں کہ ان کی دوستی میری زندگی بہترین خوشی ہے۔
انسانی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں مثلاً اس کی کاروباری دنیا ، ادبی و
سماجی مصروفیات وغیرہ ایسے میں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ اس کا توازن قائم
رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا لیکن جو لوگ جعفر بھائی کو قریب سے
جانتے ہیں وہ شاہد ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ ملکہ بھی عطا کیا تھا۔
اتفاق سے یہ بھی ایک ایسا پہلو ہے کہ جس کی گواہی گھر والوں کے علاوہ معالج
ہی دے سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر اودواڑیہ سےجعفر بھائی کی چالیس سالہ رفاقت اس وقت
شروع ہوئی جب وہ اپنی اہلیہ تسلیمہ کے علاج کی خاطر ان سے ملے تھے ۔ اس وقت
انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی زوجہ کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ آپریشن کے
بعد جب وہ بھی مریض سے ملنے جاتے تو خاوند کو موجود پاتے۔ جعفر بھائی کی
خوشگوار خاندانی تعلقات کی گواہی جناب ابوعاصم اعظمی سے زیادہ کون دے سکتا
ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جعفر بھائی کے دونوں بیٹوں میں انہیں بہترین داماد
میسر آئے اور ان کی بیٹیاں بھی جعفر بھائی کی اپنے والد کی طرح خدمت کرتی
ہیں۔ ان کے ساتھ گھل مل کر ان کی بیٹی جیسی خوشحال زندگی گزار تی ہیں۔
ابوعاصم اعظمی صاحب کے مطابق جعفر بھائی صرف اپنے معزز گاہکوں کا نہیں بلکہ
علماء کی بہت خدمت کیا کرتے تھے۔ مولانا علی میاں جب ممبئی کےسہاگ پیلس میں
قیام کرتے تو جعفر بھائی نہ صرف مہمانوں بلکہ ان سے ملنے آنے والے
ملاقاتیوں کی ضیافت کا بھی خاص اہتمام کرتے۔ پنچ گنی میں انہوں نے ایک ایسی
مسجد تعمیر کی ہے جس کے تمام اخراجات اس سے منسلک گیسٹ ہاوس سے پورا ہوتے
ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دوراندیشی اور خودکفیل مسجد کو قبول فرمائے اور ان
کے سارے اعمال صالحہ کے بہترین اجر سے نوازے ۔ جنت الفردوس میں انہیں اعلیٰ
مقام عطا فرمائے ۔ اعظمی صاحب کا ایک خراج عقیدت تو یہ ہے کہ جس طرح شہر
ممبئی کبھی نہیں سوتا اسی طرح جعفر بھائی کبھی نہیں تھکتے۔ آج جب کہ جعفر
بھائی اس شہر کو داغ مفارقت دے گئے تو حفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
|