میجر راجہ عزیز بھٹی شہید(نشان حیدر)

یکم ستمبر 1965کو مقبوضہ کشمیر کا ایک اہم مقام پاکستان کے قبضے میں آچکا تھا پاک فوج تیزی سے جوڑیاں کی جانب بڑ ھ رہی تھی ۔اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے 6ستمبر 1965ء کی صبح ایک بریگیڈ بھارتی فوج نے پاکستان کے دل "لاہور"پر حملہ کردیا ۔یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ پاک فوج سرحد پر حملے کو ناکام بنانے کے لیے موجود نہ تھی ۔ برکی ہڈیارہ کی جانب میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں 17پنجاب کی ڈی کمپنی اس حملے سے چند گھنٹے پہلے ہی ہڈیارہ ڈرین کے مغربی کنارے پر پہنچی تھی ،ابھی مورچے بھی نہیں کھودے تھے کہ اسے ٹینکوں،توپوں سے مسلح بھارتی فوج کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ میجر شفقت بلوچ کا نام اس لیے دنیا کی عسکری تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ اس کی قیادت میں 110جوانوں نے ٹینکوں اور توپوں کی مددکے بغیر نہ صرف بھارتی فوج کو دس گھنٹے تک روکے رکھا بلکہ حملہ آور بریگیڈ کو تباہ کردیا ۔حملے کو دوبارہ لانچ کرنے کے لیے بھارتی فوج کو نیا بریگیڈ لانا پڑا۔ بہرکیف دس گھنٹے بعد جب میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں پاک فوج نے بی آر بی کے مشرقی کنارے پر پوزیشنیں سنبھال لیں تو میجرشفقت بلوچ اپنی کمپنی کے جوانوں سے سمیت بحفاظت واپس آگئے ۔ اب دشمن کے سامنے میجر عزیزبھٹی اور ان کی کمپنی کے جوان سینہ سپر تھے ۔میجر بھٹی پیچھے رہنے کی بجائے او پی پوسٹ پر جا پہنچے ۔یہ برکی گاؤں کا ایک چوبارہ تھا جس کے بالا خانے میں موجود رہ کر میجر بھٹی نے بھارتی فوج پر اس قدر کامیابی سے گولہ باری کروائی کہ بھارتی فوج کی پیش قدمی رک گئی۔ بھارتی فوج حیران تھی کہ اس قدر صحیح نشانے سے فائرکا آنا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے قریب ہی کوئی ماہر نشانہ باز اوپی موجود ہے جو بالکل صحیح رینج پر گولہ باری کروا کر بھارتی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے ۔جس بالا خانے پر میجر بھٹی پچھلے تین دن اور تین راتوں سے اپنے اوپی کے ساتھ موجود تھے بے تحاشا گولہ باری کی لیکن قدرت خدا کی میجر بھٹی محفوظ رہے۔بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بھی نیچی پرواز کرکے بالا خانے کو تباہ کرنے کی جستجو کی ۔جس سے نقصان تو پہنچا لیکن میجر بھٹی اور او پی محفوظ رہے ۔پھر وہ لمحہ بھی آ پہنچا جب بھارتی فوج نے اس چوبارے کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اب وہاں سے بچ کر نکلنا تقریبا ناممکن تھا ۔چنانچہ میجر بھٹی اپنے اوپی کے ہمراہ بالا خانے سے نیچے اترے تو بھارتی فوج کا ایک دستہ وہاں موجود تھا جنہوں نے دیکھتے ہی ہینڈاز اپ کا حکم دیا ۔میجر بھٹی کا اشارہ ہوتے ہی سٹین گن گولیاں اگلنے لگیں چند ہی لمحوں میں بھارتی فوجی ڈھیرہو چکے تھے ، جو بچے وہ بھاگ نکلے ۔اس طرح میجر بھٹی محاصرے سے نکل کر بی آر بی کے مغربی کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔دشمن بی آربی کے مشرقی کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔میجر بھٹی نے جوانوں کونہر کے ساتھ ساتھ پوزیشنیں لینے کا حکم دے کر خود نہر کے اونچے مغربی کنارے پر کھڑے ہوکر دشمن کی پیش قدمی اور فائرنگ رینج کا جائزہ لینے لگے ۔صوبیدار نے کہا میجر صاحب آپ براہ راست دشمن کی زد میں ہیں اس لیے پٹڑی سے نیچے اتر آئیں ۔میجر بھٹی نے جواب دیا اس بات کا مجھے بھی علم ہے کہ میں دشمن کی فائرنگ کی زد میں ہوں لیکن اس سے اونچی کوئی اور جگہ نہیں جہاں کھڑا ہو کر میں دشمن کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کرسکوں ۔میری جان کی فکر مت کرو اس لمحے وطن عزیز کی حفاظت اور سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے اگر میری جان وطن عزیز پر قربان ہوجائے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو گی ۔آپ بغیر آرام کئے 120گھنٹے سے مسلسل مصروف جنگ تھے لیکن ہشا ش بشاش تھے ۔کمانڈنگ آفیسر نے کہا میجربھٹی آپ نے اس محاذ پر تاریخی جنگ لڑی ہے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں لیکن بہ حیثیت انسان آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔میجر بھٹی نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر کمانڈنگ آفیسر کو کہا جس جذبے اور احساس کے ساتھ آپ نے مجھے یاد کیا میں اس کے لیے ممنون ہوں ۔آپ یقین کیجئے میرے لیے آرام و راحت محاذ جنگ پر ہی ہے اگر مجھے واپس بلا لیا گیا تو یہ میرے لیے روحانی عذاب ہوگا۔میں پچھلے مورچوں پر جانے کی بجائے وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔اس پر کمانڈنگ آفیسر لاجواب ہوگئے ۔دشمن کو ہر لمحے کمک پہنچ رہی تھی ۔میجر بھٹی کا خیال تھا کہ دشمن پیش قدمی کے لیے بی آربی نہر پر عارضی پل بنانے کی کوشش کریگا اس لیے انہوں نے پیٹرولنگ کا حکم دے دیا ۔متواتر جاگنے سے میجر بھٹی کی آنکھیں سوجھ گئی تھیں ۔پلکیں جھپکنے میں تکلیف محسوس کررہے تھے ، تھوڑی دیرجیپ پر رکھے ہوئے سٹریچر پر آرام کیا لیکن اس لمحے تھوڑی سی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی تھی ۔12ستمبر کی صبح برکی سے شمال کی جانب کھجورں کے درختوں میں دشمن کے فوجی نہر کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔آپ نے رینج کا تعین کرکے فائر مانگا جس سے پیش قدمی والے اکثر بھارتی فوجی مارے گئے جو باقی بچے وہ واپس بھاگ گئے ۔میجر بھٹی نہرکے بلند کنارے سے نیچے اتر آئے ، وضوکرکے نماز پڑھی اور صوبیدار غلام محمد کے ساتھ چائے پینے لگے ۔صوبیدار اعلی پائے کے دست شناس تھے ۔میجر بھٹی نے انہیں اپنا ہاتھ دکھایا اور پوچھا کیامیرے نصیب میں شہادت ہے یا نہیں ۔؟ صوبیدار نے ہاتھ دیکھ کر کہا شہادت تو لکھی ہے لیکن یہ نہیں پتہ کب نصیب ہو۔میجر بھٹی نے ہاتھ کھینچ کر بتایا میں آپکو بتاتا ہوں میری شہادت بہت قریب ہے ۔اس کے بعد نئی وردی پہنی اور ایک بار پھر نہرکے بلند کنارے پر دشمن کی پیش قدمی کا جائزہ لینے لگے ۔انہوں نے دیکھا کہ دو ٹینک تیزی سے نہر کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔میجر بھٹی نے رینج بتاکر فائر مانگا تو دونوں ٹینک تباہ ہوگئے ان کے پیچھے ایک اور ٹینک گولہ باری کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اس ٹینک میں بیٹھے ہوئے دشمن نے شاید انہیں دیکھ لیا تھا اسی لمحے گولے کا ایک شیل میجربھٹی کی جانب بڑھا پھر جلتا ہوا فولاد ان کے سینے سے پارہوگیا ۔برکی محاذ پر سات دن اور سات راتیں جاگنے والے پاک فوج کے عظیم سرفروش میجر راجہ عزیز بھٹی ابدی نیند سو گئے ۔ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرنے پر آپ کو بعد از شہادت نشان حیدر سے نوازاگیا ۔اس طرح یہ اعزاز حاصل کرنیوالے آپ پاک فوج کے تیسرے آفیسر تھے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.